ColumnImtiaz Aasi

بلوچستان میں شورش اور درپیش خطرات

تحریر : امتیاز عاصی
ہمارا ملک حالیہ وقتوں میں گھمبیر مسائل کا شکار ہے داخلی طور پر وطن عزیز میں سیاسی خلفشار اور معاشی بحران ایک عرصے سے ہے۔ دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے مملکت کو داخلی امن کا شکار کر دیا ہے۔ سیاست دان ہیں تو انہیں اقتدار کے سو ا کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ حصول اقتدار کے لئے کچھ بھی کرنے کا تیار رہتے ہیں۔ ہمارا بلوچستان جو ملک کا آبادی کے اعتبار سے چھوٹا اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ قدرتی خزانوں سے مالامال اس صوبے کو کسی کی نظر لگ گئی۔ دہشت گردی ہے تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ بلوچستان میں حالیہ ٹرین کے سانحہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وطن کے دشمنوں کو ہماری ترقی ہضم نہیں ہو پا رہی ہے۔ ایٹمی طاقت کیا بنے وطن دشمن قوتیں کسی نہ کسی طریقہ سے ہمیں کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو جانے کیا سبق پڑھایا جاتا ہے جو جان کی پروا کئے بغیر بے گناہوں کی جانیں لیتے ہیں۔ درحقیقت بلوچستان میں شورش کا آغاز ملک کے معرض وجود میں آنے کے بعد شروع ہو گیا تھا۔ خان آف قلات اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مابین ہونے والے معاہدے سے پہلو تہی نے بلوچ رہنمائوں کو مایوس کیا۔ ایوبی دور میں فوجی آپریشن نے جلتی پر تیل کا کام کیا جب بلوچ رہنمائوں کو قید و بند میں رکھنے کے ساتھ پہاڑوں سے واپس بلا کر ان کے بیٹوں کو پھانسی دے دی گئی۔ پانچ فوجی آپریشنوں کے باوجود شورش میں کمی کی بجائے اضافہ ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ گو بلوچستان کی آزاد ریاستوں کے سردار دنیا سدھار چکے ہیں ان کی اولادیں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کی ناگہانی موت نے اہل بلوچستان کو اور غم زدہ کر دیا اور آئینی حقوق سے محرومیوں نے وہاں کے رہنے والوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بلوچستان کے سیاسی رہنمائوں نے جلا وطن لوگوں کو واپس لانے کی سنجیدگی سے کوشش کی نہ انہیں اعتماد میں لیا۔ کوئی وجہ نہیں پہاڑوں پر گئے اور جلاوطن لوگ واپس آنے سے انکار کرتے اگر انہیں جان کی حفاظت کی گارنٹی دی جاتی۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے ہونے والے واقعات میں بہت سی غیر ملکی ایجنسیاں مبینہ
طور پر ملوث ہیں۔ کئی سال پہلے بلوچستان کے حالات بارے سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایک اہل کار کا شائع ہونے والا مضمون نیٹ سے ایک مہربان نے ہمیں بھیجا تو میں حیرت زدہ ہو گیا۔ مضمون نگار کے مطابق کے بی جی نے افغان جنگ کے دوران علیحدگی پسند تحریک کی حمایت کی۔ اسی طرح امریکہ کی سی آئی اے، بھارت کی ’’ را‘‘ اور برطانیہ کی ایم آئی سکس مختلف ادوار میں بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہیں۔ 1979ء سے 1989ء کے درمیان افغان جنگ کے دوران بلوچستان اہم خطہ بن گیا جہاں ایک طرف امریکہ اور پاکستان افغان مجاہدین کی مدد کر رہے تھے دوسری طرف کے جی بی نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بلوچ قوم پرست گروہوں کی حمایت کی۔ درحقیقت بی ایل اے کا قیام بنیادی طور پر کے جی بی کی مدد سے عمل میں لایا گیا جس کے تحت بلوچ جنگجوئوں کو افغانستان میں تربیت دی گئی اور اسلحہ فراہم کیا گیا۔ اسی طر ح سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی نے پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں اور قوم پرست عناصر کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جس کا مقصد مملکت خداداد کو اندرونی طور پر
خلفشار سے دوچار کرنا تھا۔ چنانچہ جب1980ء کی دہائی میں سوویت یونین روبہ زوال ہوا تو جی بی کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند ی کا بویا بیج عالمی قوتوں کے لئے مفید ثابت ہوا۔ چنانچہ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے کے بی جی کی بلوچستان میں سرگرمیوں کا توڑ کرنے کے لئے اپنی کارروائیاں تیز کر دی۔ امریکہ کو خدشہ تھا اگر سوویت یونین نے افغانستان میں قدم جمایا تو خلیج فارس کے راستے عالمی توانائی کے ذخائر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ امریکہ کی سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات کے مطابق بلوچستان میں کے جی بی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے کئی آپریشن کئے گئے ۔1991 ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو کے بی جی کی مداخلت ختم ہو گئی تاہم ایک نئی طاقت’’ را ‘‘ بلوچستان میں سرگرم ہو گئی جس کے بعد سے بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی مالی مد د کر رہاہے کسی طرح پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کیا جا سکے۔ اس طرح باغی رہنمائوں کو بیرون ملک پناہ اور مالی مدد حاصل ہے۔2000 کے بعد سے بلوچستان میں شدت پسندی میں تیز آئی جو بھارت کی پراکسی وار کا حصہ ہے۔ ’’ را‘‘ نے بلوچستان کے مسئلے کو بین الاقوامی طور پر اٹھانے کے لئے کئی ذرائع استعمال کئے۔ گزشتہ کئی سال سے بلوچستان عالمی طاقتوں کے لئے بہت اہم ہو گیا ہے خاص طور پر چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور سی پیک کے تناظر میں یہ معاملہ گھمبیر ہو گیا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے مغربی خفیہ ایجنسیاں خصوصا سی آئی اے اور ایم آئی سکس بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرکے چین کے منصوبوں کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ اسی طرح مقامی دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کرکے سی پیک کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دراصل ان کارروائیوں کا مقصد مقصود ہے پاکستان کسی بھی قسم کی بیرونی سرمایہ کاری کیلئے محفوظ ملک نہیں ہے۔ بلوچستان گزشتہ کئی دہائیوں سے خفیہ ایجنسیوں کے درمیان سرد جنگ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کے جی بی، سی آئی، ’’ را‘‘ اور دیگر عالمی طاقتیں خطے میں اپنے مقاصد کے تحت مداخلت پر کمربستہ ہیں جس کا خمیازہ بلوچستان کے غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو طاقت کے استعمال کی بجائے جامع سیاسی اور اقتصادی حل تلاش کرنا چاہیے۔ طاقت کا استعمال کرکے دیکھ لیا گیا جس کا نتیجہ حوصلہ افزاء نہیں نکلا ہے ۔ بلوچستان کے حالات کو درست کرنا مقصود ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو ان کے آئینی حقوق دینے ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کے مسئلے پر یکسو ہونا پڑے گا اور ناراض بلوچ رہنمائوں کو اعتماد میں لینا ہوگا جس کے بعد امید کی جا سکتی ہے صوبے میں امن و امان ہو جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button