سپیشل رپورٹ

’مزاحمت چھوڑ دو‘، فلسطینی کارکن محمود خلیل کی گرفتاری کیسے ہوئی؟

امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں طلبہ کے احتجاج کی قیادت کرنے والے فلسطینی طالب علم محمود خلیل کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وفاقی امیگریشن حکام کو انہیں گرفتار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ویڈیو کے شروع میں امیگریشن کے تین اہلکار محمود خلیل کے ساتھ سختی سے بات چیت کرتے نظر آتے ہیں۔
امیگریشن اہلکار جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب کولمبیا کیمپس کے قریب واقع محمود خلیل کے اپارٹمنٹ کی لابی میں انہیں بتاتے ہیں کہ وہ گرفتار ہونے والے ہیں۔
ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اہلکار انہیں حکم دیتے ہیں کہ پیچھے مُڑو اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ’مزاحمت کرنا چھوڑ دو۔‘
جب اہلکار محمود خلیل کو ہتھکڑیاں لگا رہے ہوتے ہیں تو وہ اطمینان سے جواب دیتے ہیں کہ ’اس کی کوئی ضرورت نہیں، میں آپ کے ساتھ جا رہا ہوں۔ بےفکر رہیں۔‘
اُن کی اہلیہ نور عبد اللہ روتے ہوئے عربی زبان میں کہتی ہیں کہ ’میرے پیارے، میں تمہیں کیسے فون کروں؟‘ تو محمود خلیل انہیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ ٹھیک رہیں گے اور انہیں اپنے وکیل کو بلانے کی ہدایت کرتے ہیں۔
محمود خلیل کی اہلیہ نور عبد اللہ ایک امریکی شہری ہیں جو آٹھ ماہ کی حاملہ ہیں۔ وہ اہلکاروں سے اپنی شناخت بتانے کا کہتی ہیں جس پر اُن میں سے ایک جواب دیتا ہے کہ ’ہم اپنے نام نہیں بتاتے۔‘
یہ ویڈیو محمود خلیل کے وکلاء کی جانب سے اسی دن جاری کی گئی تھی جس دن محکمہ انصاف نے اعلان کیا تھا کہ وہ تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا یونیورسٹی نے اپنے کیمپس میں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ کو چھپا رکھا ہے۔
محمود خلیل کی گرفتاری کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔ غزہ میں جنگ کے خلاف کیمپس میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے والوں کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔
30 برس کے محمود خلیل امریکہ میں قانونی طور پر مستقل رہائش رکھتے ہیں، وفاقی عدالت نے ان کی ملک بدری عارضی طور پر روک دی تھی۔
محمود خلیل کی رہائی کے لیے نیویارک میں سینکڑوں افراد نے احتجاج بھی کیا تھا۔
محمود خلیل کو گذشتہ ہفتے ہوم لینڈ سکیورٹی اہلکاروں نے اس وقت حراست میں لیا، جب وہ اور ان کی اہلیہ اپر مین ہٹن میں واقع کولمبیا یونیورسٹی کے ملکیتی اپارٹمنٹ میں واپس آرہے تھے۔
اہلکاروں نے جوڑے کو بتایا کہ خلیل کو اس لیے حراست میں لیا جا رہا ہے، کیونکہ ان کا سٹوڈنٹ ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ان کے وکلا کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ جب ان کی اہلیہ نے دستاویزات فراہم کیں کہ وہ گرین کارڈ رکھتے ہیں، تو اہلکاروں نے کہا کہ وہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے اور انہیں گرفتار کر لیا۔ وکلا نے ان کی گرفتاری کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button