اختیارات سے تجاوزات تک

تحریر : صفدر علی حیدری
مولا علیؓ کا یہ فرمان آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے: ’’ اقتدار طاقت اور دولت ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہوجاتے ہیں‘‘۔
یہی کچھ ہم پنجاب میں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں پر حکومت نے کچھ نہیں کیا، سوائے صاف پنجاب کے منصوبے کے، جس کے تحت تجاوزات کے خلاف ایکشن جاری ہے۔
انسان کو اختیار یا اقتدار تو یونہی نہیں مل جاتا ہے۔ اس کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ کچھ نزاکتیں بھی ہوتی ہیں۔ کچھ حدود و قیود بھی ہوتی ہیں، مگر یہاں تو لگتا ہے ان لوگوں کو ہر چیز کا لائسنس مل گیا ہے۔ اپنے اختیارات سے تجاوز کوئی اچھی بات نہیں اور اگر یہ سب کچھ سڑکوں، گلی محلوں میں دکھائی دے تو تجاوزات کی بدنما شکل میں سامنے آتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک عام سی بات ہے۔ پاکستان کا کوئی شہر، کوئی قصبہ، کوئی کونہ اس سے خالی نہیں ہے۔ گھر کی صفائی کر کے گند گلی میں یا دوسروں کے گھروں کے آگے ڈال دینا یہاں کا رواج ہے۔ سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کے ساتھ تجاوزات نے ماحول کو مکدر کر دیا ہے۔ روڈ پر نکلیں تو تنگ راستوں سے دم گھٹتا ہے۔ پیدل چلنے والے خاص طور پر مشکل کا شکار رہتے ہیں۔ اول تو فٹ پاتھ نہیں ہوتے، ہوں تو دکان دار اس پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ دکان کے آگے کی تمام جگہ ان کے سامان نے گھیر رکھی ہوتی ہے۔
یہ ملک قبضہ گروپوں کا ہے۔ سرکاری زمین پر قبضہ ایک عام سی روش ہے۔ یہ لوگ اس قدر طاقتور ہیں کہ کوئی حکومت ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ قانون کے ہاتھ بھی ان کے آگے کوتاہ دکھائی دیتے ہیں۔ نجانے کتنی سرکاری زمین ان مگرمچھوں کے قبضے میں ہے۔ مگر یہ لوگ صاف پنجاب مہم کی ضد میں نہیں آتے۔ اب لے دے کے دیہاڑی دار، مزدور، ریڑھی بان رہتے ہیں۔ یہ عوام کا مظلوم ترین طبقہ جس کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔ جن کے لئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار اور بحال رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ بے چارے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے صبح سے رات تک کام کرتے ہیں تب کہیں جا کر ان کے گھروں کا چولہا جلتا ہے۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے وہ خون پسینہ ایک کرتے ہیں پھر بھی انھیں روکھی سوکھی ہی کھلا پاتے ہیں۔ حکومت کو صفائی کا ایسا جنون پڑا ہے کہ غریب کے مسائل تک نظر نہیں آتے۔ کسی کا سامان الٹایا جا رہا ہے۔ کسی کی ریڑھی توڑی جا رہی ہے، کسی کی دکان پر دھاوا بولا جا رہا ہے۔ غریب محنت کش جھولیاں اٹھا اٹھا کر ’’ دعائیں ‘‘ دے رہے ہیں۔ قانون کے بارے سنا تھا کہ وہ غریب کے لیے لوہے کا پنجرہ ہے اور امیر کے لیے مکڑی کا جالا۔ آج دیکھ بھی لیا۔ حکومت بے خوفی سے اپنے مقاصد کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ یہ غریب عوام سیاسی جماعتوں کے خاموش ووٹر ہوتے ہیں۔ حکومت کو مگر اس بات کی فکر نہیں۔
ایک طرف راشن اور امداد کے نام لوگوں کو بھکاری بنایا جا رہا تو دوسری طرف کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے اور اپنے زور بازو سے روزی کمانے والوں کو سزا دی جا رہی ہے۔ ان پر زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔ روزی کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ تجاوزات ہٹانے کے لیے اختیارات سے تجاوز کیا جا رہا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ مگرمچھوں پر پہلے ہاتھ ڈالا جائے۔ ان سے سرکاری زمین اور سرکاری املاک واگزار کروائی جائیں۔ ریڑھی بانوں کی ریڑھیاں توڑنے کی بجائے ان کو متبادل جگہ الاٹ کی جائے تا کہ وہ اپنی بیوی بچوں کے لیے روزی کما سکیں۔