Column

اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانا کس معاشی ترقی کا اشارہ ہے؟

تحریر : عبد الرزاق بر ق
پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں جو بھی حکومت آئی جس میں دو بار (ن) لیگ اور درمیان میں نگران حکومت بھی شامل ہے، اس نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اپنی مراعات بڑھانے پر توجہ دی ہے، کبھی وزراء کیلئے نئی گاڑیاں، وزیراعلیٰ ہائوسز کی تزئین و آرائش، بیوروکریٹس اور آفیسرز کیلئے نئی گاڑیوں کی خریداری اور دیگر سیاسی اداروں کے افسروں کی مراعات میں اضافہ ہی کیا گیا۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ملک کے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں پہلی دفعہ سات سال کے بعد اضافہ کیا گیا، اب پارلیمنٹ کی ایک رکن کو ایک ماہ کی تنخواہ 5لاکھ 19ہزار روپے دی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقول حکمران وقت کے جب ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جارہا ہے اور ملک پر آئی ایم ایف کا اربوں روپے کا قرض بھی ہے اور ملک اربوں روپے کا مقروض ہوتو پھر اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیا اتنا زیادہ اضافہ جائز تھا؟ آخر ہمارے اراکین پارلیمنٹ نے، اس پارلیمنٹ میں، جس عوام نے انہیں فارم 45کے تحت ووٹ دیئے ہیں انہیں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کون سا بڑا کام کیا ہی کہ پاکستانی عوام انہیں ہمیشہ کیلئے یاد کریں گے؟ یا ان ارکان پارلیمنٹ نے اس پارلیمنٹ میں عوام کیلئے کون سی قانون سازی کی ہے جس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچ سکے؟ کیا اسی پارلیمنٹ سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں کئی بار توسیع نہیں کی گئی؟ اسی عوامی نمائندہ پارلیمنٹ کو بکرا منڈی بنانے کی نامعلوم کوشش کس نے کی؟ ایک ایسے پارلیمنٹ جس کے ایک ایم این اے پر روزانہ سات لاکھ روپے خرچ کئے جاتے ہوں اور اس ملک کی تاریخ اس پارلیمنٹ کی کارکردگی کے بارے میں یہ گواہی دیتے ہوں کہ سوائے چند اراکین پارلیمنٹ جوکہ پارلیمنٹ میں اچھی تقریریں عوام کیلئے کرتے ہیں اور عوام کیلئے قانون سازی کرنے میں حصہ لیتے ہیں باقی سب پارلیمنٹرین عوام کیلئے کچھ نہیں کرتے اور وہ کسی حکومت کیخلاف ڈسک بجاتے ہیں اور حکومتی اراکین تماشائی بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کو گالی
دینے کے علاوہ وہ اور کیا کام کرتے ہیں؟ یہی پارلیمنٹرین جب کسی جگہ پھنستے ہیں تو پھر اپنے لئے اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے قانون سازی کرتے ہیں لیکن عوام کو مہنگائی، بیروزگاری، تذلیل، ظلم، فسطائیت میں جھونک دیتے ہیں توکیا پارلیمنٹ میں چند اراکین کے علاوہ باقی سب جب ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں، ان کی تنخواہ 5لاکھ 19ہزار روپے دینے چاہئیں؟ یا اتنی زیادہ تعداد میں ان کی تنخواہ مقرر کرنی چاہئے؟ کاش ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانے کے بجائے اس کی جگہ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرکے پوری قوم کو ریلیف دیا جاتا لیکن یہ سچ ہے کہ حکمران کا ہر قانون اپنے مفاد کیلئے ہوتا ہے، پاکستانیوں کو مہنگائی، ٹیکس اور30ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے، ارکان پارلیمنٹ کو 5لاکھ 19ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں جبکہ عام پاکستانی بنیادی ضروریات کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن حکمران اپنی تنخواہیں بڑھانے میں مصروف ہیں۔ کیا ان کی تنخواہیں بڑھانا ملک کی خزانے پر بوجھ نہیں عام لوگوں کا ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانے پر اعتراض یہ ہے کہ عام آدمی کو اپنے تمام تر اخراجات اسی ایک تنخواہ سے پورے کرنے ہوتے ہیں جبکہ ارکان پارلیمان کو تو کئی دوسرے الائونسز مل جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی لگ بھگ پوری تنخواہ ان ہی کی جیب میں رہتی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ارکان اسمبلی کو سفری ٹکٹیں دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کیلئے آ سکیں۔ اس کے علاوہ سفر کیلئے فی کلومیٹر معاوضہ بھی دیا جاتا ہے رہائش اور یوٹیلیٹی کیلئے اگرچہ ادائیگی ہوتی ہے لیکن وہ بھی رعائتی قیمت ہوتی ہے، اس کے علاوہ اجلاس میں شرکت کیلئے آنے پر انہیں یومیہ الائونس بھی دیا جاتا ہے۔ ارکان اسمبلی کو فیڈرل سیکرٹری کے برابر صحت کی سہولت بھی دی جاتی ہیں اور سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کا کام فل ٹائم جاب ہے، اگر ایک رکن پارلیمان صحیح طریقے سے اپنا کام کرے تو اس کیلئے 24گھنٹے بھی کم ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہر سال بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں کسی نہ کسی حد تک اضافہ ہوتا ہے لیکن پچھلے سات سال سے ارکان پارلیمان کی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی۔ ایک حکومتی رکن سینیٹ نے ایک دعویٰ بھی کیا کہ بقول ان کے اس وقت خطے میں سب سے کم پاکستان کے پارلیمنٹرینز کی تنخواہیں ہیں، اس وقت بھی اراکین پارلیمان کی تنخواہ 22ویں گریڈ کے آفیسر کی تنخواہ کے نصف سے بھی کم ہے جبکہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں سپریم کورٹ کے ججزز سے بھی کئی گنا کم ہیں۔ اس وقت بلوچستان اور پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ اس اضافے کے باوجود قومی اسمبلی کے اراکین سے زیادہ ہے اور ویسے بھی اس وقت ایک شخص کو اپنے خاندان کو خوشحال زندگی دینے کیلئے پانچ لاکھ کی تنخواہ معمول کی بات ہے۔
اگر ہم اس شعبے میں قابل لوگ چاہتے ہیں تو ہمیں تنخواہوں کو پرکشش بنانا ہوگا تبھی متوسط طبقے کے لوگ اور غریب آدمی بھی سیاست میں آئے گا، ورنہ ہمیشہ امیر آدمی اور وڈیرے کا بیٹا ہی الیکشن لڑے گا۔ لیکن جب ننانوے فیصد اراکین پارلیمنٹ کروڑ پتی ہوں تو ان کیلئے 5لاکھ 19ہزار روپے تنخواہ منظور کرنا اور انہیں دینا چہ معنی دارد؟ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک رکن قومی اسمبلی کو اتنی زیادہ تنخواہ دینے سے ایک تو ان کی موجیں لگ جائیں گی، دوسرا پانچ لاکھ پلس کرپشن، سلیکشن، رشوت خوری الگ سے، اور تیسرا اتنی زیادہ تنخواہ دینے سے کیا ہر پارلیمنٹرین کروڑ پتی نہیں بن جائیگا؟ پانچ لاکھ کا حساب کرکے تو یہ 2کروڑ 50لاکھ روپے بنتے ہیں۔ پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ چند اراکین کے سوا سب امیر ہیں کیونکہ ننانوے فیصد ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی تو ضرور ہیں اور سیاست صرف شہرت اور طاقت کیلئے کر رہے ہیں اور کچھ ایم این اے بننے کو اپنی قوم کی خدمت کرنے کا نام دے رہے ہیں۔ ہمارے اراکین قومی اسمبلی تو عوامی نمائندے ہیں، ان کی تنخواہ ہی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ تمام ممبران اسمبلی انتہائی مالدار لوگ ہیں، ان کو اس رقم کی ضرورت ہی نہیں لیکن پتہ نہیں یہ اضافہ آئی ایم ایف کو کیوں نظر نہیں آرہا؟ اس وقت اس طبقے کی تنخواہیں بڑھا دینا جو کئی دہائیوں سے ملک پر مسلط ہے، جن کے کاروبار ملک سے باہر اور وہ خود ملک کے اندر ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں، ان کی تنخواہیں بڑھانا کس معاشی ترقی کی طرف اشارہ ہے؟ کیا یہی جمہوریت کا تقاضا ہے؟ کیا یہ ملک اس وقت متحمل ہے اس کا کہ جب خطے میں سب سے کم فی کس آمدنی پاکستانیوں کی ہو اور مالدار لوگوں کی تنخواہ 5لاکھ مقرر کی جائے مگر جب عوام کی باری آتی ہے تو ان کو آئی ایم ایف کے معاہدے یاد آنے لگتے ہیں، ارکان پارلیمان کی تنخواہیں زیادہ کرنے کی خبر پر عوامی ردعمل کچھ خوشگوار نہیں رہا اور اس کی وجہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے مسلسل جاری مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافہ ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق عام عوام کو اس بات پر غصہ ہے کہ ایک طرف تنخواہ دار طبقے سے بہت زیادہ ٹیکس لیا جارہا ہے کہ ملک مقروض ہے اور آئی ایم ایف کی ادائیگیاں کرنی ہیں اور دوسری طرف حکمران اپنی تنخواہیں بڑھا رہے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے چاہے ارکان پارلیمان 20لاکھ تنخواہ لیں مگر عوام کا پیسہ نہ کھائی جائیں اور یہ عمل نہ دہرایا جائے کہ غریب سے لو اور امیر کو دو، جس کے نتیجے میں امیر سے امیر اور غریب سے غریب ہوتے جائیں اور پاکستان قانون صرف غریبوں پر لاگو نہ ہو بلکہ یہی قانون اشرافیہ کے ساتھ سب پر لاگو ہونا چاہئے، اشرافیہ کیلئے سب جائز ہو جبکہ غریبوں کیلئے سانس لینا بھی حرام یعنی یہ ملک اشرافیہ کیلئے ہو اور اشرافیہ اپنی تنخواہ اور مراعات بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ ایسے حالات میں ایسا نہیں لگتا کہ یہ ملک مزید ستر سالوں میں بھی عام عوام کو کوئی سہولیات دے سکے گا، مگر ہمارے ملک کی بیوروکریسی اور سیاست دان دونوں ہی ہمارے ملک اور عوام کی حالت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں جوکہ اچھا شگون نہیں۔ ایک جانب گزشتہ تین برسوں سے نہ تو نئی گاڑیوں کی خریداری رکی نہ ہی اسمبلیوں اور وزرائے اعلیٰ ہائوسز کی تزئین و آرائش رکی، ساتھ ہی ہر سال تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہوتا رہا، حکومت کے دعوے اور عملی اقدامات آپس میں میل نہیں کھاتے، حکومت دیگر ممالک سے قرضے لینے کیلئے مسلسل تگ و دو میں مصروف ہے لیکن اپنے اخراجات مسلسل بڑھانے میں بھی لگی ہوئی ہے، اس طرح کوئی ملک یا قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتے، کسی بھی گھرانے نے جب قرضوں سے جان چھڑانی ہو یا وہ مالی مشکلات کا شکار ہو تو وہ اپنے اخراجات بڑھانے کے بجائے کم کرتا ہے، ایک جانب دوست ممالک سے قرضے مانگنا اور دوسری جانب اربوں کھربوں کی گاڑیاں خریدنا، وزراء اور آفیسرز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اب دوست ممالک بھی پاکستان کا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں، ن لیگ حکومت آنے کے بعد پہلی بار سعودی عرب نے کہا کہ ہمارے ٹیکس پیئر کا پیسہ ہے، ہم ایسے کسی کو نہیں دے سکتے۔ ملک کو اس نہج پر پہنچانے میں موجودہ حکمرانوں اور سیاسی اداروں کے کرتا دھرتا کا ہی ہاتھ ہے۔ اخراجات میں کمی نہ کرنے کی وجہ سے ہی ماہر معیشت نے مختلف حکومتی کمیٹیوں سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ حکومت عملی طور پر اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں ہے لہٰذا وفاقی وزرائ، وزیر مملکت کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کو فوری طور پر رد کیا جائے اور ملک و قوم کی بھلائی اور بہتری کے اقدامات پر توجہ مرکوز کی جائے۔

جواب دیں

Back to top button