
تحریر : سی ایم رضوان
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی حال مقیم اڈیالہ۔۔۔ جھینگا لالہ، جھینگا لالہ۔۔۔۔ کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام خط پاکستان کے ان عوامی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں زیادہ موضوعِ بحث بلکہ باعث خبط بنا ہوا ہے جن کو عرف عام میں عمرانڈوز کہا جاتا ہے حالانکہ واضح میڈیا رپورٹس کے مطابق سکیورٹی ذرائع نے تاحال یہ خط متعلقہ اتھارٹی کو ملنے کی تصدیق نہیں کی۔ یعنی مکتوب ابھی مکتوب الیہ کو ملا ہی نہیں۔ قاصد کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ مکتوب نگار بھی پردہ نشین ہے لیکن جس کو مکتوب نگار ظاہر کیا جا رہا ہے وہ چونکہ حال مقیم اڈیالہ۔۔۔ جھینگا لالہ جھینگا لالہ۔۔۔ ہے اور بڑا انویسٹر ہے اس لئے مال خور عمرانڈوز کا خبط سر چڑھ کر بولتا شروع ہو گیا ہے۔ بڑے بڑے تجزیہ کار، بڑے بڑے چینلوں پر بیٹھ کر یوں تبصرے فرما رہے ہیں جیسے ٹرمپ نے مسٹر شی کو خط لکھ دیا ہو اور دنیا ادھر کی ادھر کھسکنا شروع ہو گئی ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس خط کی دیوانے کی بڑ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس خبط سے لبریز خط کو لے کر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ قوم و ملک کا وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کا شاید یہ ایک اور بہانہ رہ گیا تھا جو ایک پردہ نشین عمرانڈو نے کرپٹ بانی سے منسوب کر کے میڈیا پر دے دیا ہے۔ یعنی یہ کھلا خط کھلے مذاق کا مستحق ہے اور کسی حد تک تو یہ حق پورا بھی ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر عمران خان کے اکائونٹ سے شیئر کیے گئے اس خط میں فرضی عمران نے آرمی چیف سے ان کی پالیسیوں پر نظرِثانی کی درخواست کی ہے۔ فرضی عمران خان نے اپنے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ گزشتہ برس ہونے والے دھاندلی زدہ انتخابات کے باعث فوج اور عوام کے درمیان دُوریاں پیدا ہوئیں جبکہ 26ویں آئینی ترمیم کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ خبط پر مبنی اس خط کا آغاز اِن الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے کہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے۔ ہمارے فوجی پاکستان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو لیکن افسوس ناک امر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔
جیسے کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ عمرانڈوز تجزیہ کاروں کا اس فرضی خط پر پھڑکنا، بھڑکنا اور پھدکنا معمول کا حصہ ہے اسی معمول کے مطابق بعض تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف اور بانی پی ٹی آئی کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ براہِ راست فوجی قیادت سے بات کریں لیکن دوسری جانب سے اس امر پر دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی بالواسط طور پر فوجی قیادت سے بات کرنا چاہتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ یا تو ڈیل کرنا چاہتی ہے یا پھر این آر او کی خواہش مند ہے لیکن بعض عمرانڈوز بات گھما کر اس طرح کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور آرمی چیف سے براہِ راست گفتگو کرنے کی خواہش پرانی ہے جو اس خط سے پہلی بار ظاہر نہیں ہوئی۔ حالانکہ بانی کی اسی خواہش نے ہی تو یہ خط لکھوایا ہے۔ ان تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کسی اور سے بات چیت کرنے کے لئے دل سے آمادہ نہیں ہیں۔ رسمی کارروائی اُنہوں نے کر ڈالی لیکن وہ سیاست دانوں سے بات کرنے کے لئے متفق نہیں تھے۔ خیال رہے کہ بانی پی ٹی آئی نے چند روز قبل حکومت کے ساتھ پی ٹی آئی قیادت کے جاری مذاکرات بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ نو مئی اور 26نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن نہ بننے کے باعث حکومت سے مذاکرات ختم کیے جا رہے ہیں۔ بہرحال بعض تجزیہ کاروں نے یہ بات درست کی ہے کہ خبطی کے خط میں ایک طرح سے آرمی چیف پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ اُن کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں دُوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس خبط میں کسی سے پیچھے نہ رہنے والے دیگر سینئر تجزیہ کار اور کالم نویس کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی موجودہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی ’ پراکسی‘ قرار دیتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ فوج کے ساتھ براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اُن کے بقول مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بھی ادراک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے بات نہیں کرنا چاہتی اور وہ یعنی حکومت والے اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت چونکہ خود پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی ڈیل کے لئے آمادہ ہے لیکن پی ٹی آئی سوائے فوجی قیادت کے کسی سے ڈیل پر آمادہ نہیں لہذا یہ ایک ڈیڈ لاک والی صورتِ حال ہے۔ اس خط کو بہانہ بنا کر پی ٹی آئی کے حامی بعض تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے خط میں فوج کے حوالے سے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے اس کی قربانیوں کو بھی تسلیم کیا ہے اور یہ باور کرانے کی بھی ( ناکام) کوشش کی ہے کہ وہ فوج اور آرمی چیف کے خلاف نہیں ہیں۔ ان کے بقول بانی پی ٹی آئی نے اس خط کے ذریعے ایک طرح سے فوج کو یہ پیغام دیا ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ اس خیال کے حامی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نو مئی کے بعد فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان بڑھنے والی کشیدگی بھی کم کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی اور عمران خان سے متعلق رویے پر نظرِ ثانی کرے۔ جہاں تک بعض دیگر تجزیہ کاروں کے خیالات کا تعلق ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا نہیں خیال کہ خط کا مقصد یہ ہے کہ فوج کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے بلکہ اس کے ذریعے ایک طرح سے بانی پی ٹی آئی نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ تو معاملات بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ ہیں۔ ان تبصرہ نگاروں کے بقول بانی پی ٹی آئی دنیا کے مختلف ممالک میں پی ٹی آئی کے حامیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان حالات میں بھی معاملات سدھارنے کے لئے فوج سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔
ماضی قریب و بعید کے حالات و واقعات گواہ ہیں کہ ہر سیاسی جماعت جو اقتدار میں رہی ہے اُس کا رویہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یہی رہا ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کا رویہ اور ہوتا ہے اور جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو وہ باتوں باتوں میں جمہوریت کے چیمپئن بن جاتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی وہ پاکستانی قوم کی جلد بھول جانے کی عادت سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ حالات اور حاضر وقت کے جمہوریت کے سقراط اور جعلی انٹی اسٹبلشمنٹ سیاستدان بانی پی ٹی آئی کو ہی لے لیجئے کہ وہ جب اقتدار میں آنے تھے تو اسی اسٹبلشمنٹ کے تلوے چاٹ کر اور سارے سمجھوتے کر کے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے تھے اور جب ان کا سارا خاندان چوریاں کرتا پکڑا گیا اور اسٹیبلشمنٹ کا انہیں لانے کا فیصلہ اس کے گلے پڑ گیا تو اسٹیبلشمنٹ نے بھی آنکھیں پھیر لی تھیں تو تب کپتان جھٹ سے انقلابی اور اینٹی اسٹبلشمنٹ ہو گئے تھے اور کہنے لگے تھے کہ غیر جانبدار تو جانور ہوتے ہیں۔ اقتدار سے جدائی میں ہلکان خان کا اب بھی یہی پروگرام ہے کہ جو پٹہ گلے سے اترنے کے بعد وہ ڈائری پکڑ کر ایوان وزیراعظم سے نکلنے پر مجبور ہو گئے تھے وہ پٹہ ایک بار پھر ان کے گلے میں پڑ جائے تو پھر سے فوج کے گن گانے میں کوئی حرج نہیں ہو گا لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ راتوں رات مالدار بنانے والے ماضی کے سوداگر اب چلے گئے ہیں اور ایک محب وطن اور اہل فوجی قیادت کے ہوتے ہوئے وہ کبھی بھی ان چالاکیوں سے اقتدار کی دھول تک کو نہیں چھو سکتے۔ اب وہ تضاد نہیں رہا جس تضاد کے تحت ماضی میں نواز شریف، آصف زرداری اور بانی پی ٹی آئی اقتدار میں آتے رہے، کیونکہ جب بھی یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار نہ ہونے پر متفق ہوتے ہیں، لیکن جب حکومت میں ہوتے ہیں تو اپنی ’ سپیس‘ کسی اور کو دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں جبکہ ذلالت اور ناکامی بانی پی ٹی آئی کے حصے میں لکھ دی گئی ہے اس کے باوجود ان کے طرزِ سیاست سے تو نہیں لگتا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر بھی نظرِ ثانی کریں گے کیونکہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اُنہوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہو حالانکہ ان کے لئے بہتر تو یہی ہے کہ سول حکومت کے ساتھ ہی بات چیت کریں اور انہی کے ذریعے آرمی چیف تک اپنا پیغام پہنچائیں۔ صرف بانی پی ٹی آئی ہی نہیں ان حالات کو پہنچنے والے تمام سیاسی قائدین کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے کہ ان کے رویوں اور بیانیے میں تبدیلی کیوں آ جاتی ہے۔ جس طرح کہ موجودہ حکومت 2017ء تک اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر چلتی تھی جبکہ آج وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی ہے۔
جہاں تک خطوط کے خبط کا تعلق ہے تو بانی پی ٹی آئی اس سے قبل اقوام متحدہ کو بھی خط لکھ چکے ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو بھی ’ پاکستان میں آئینی نظام کی تباہی‘ کے عنوان سے ایک خط لکھ چکے ہیں۔ ماضی میں امریکہ سے ایک سفارتی خط کے سلسلے میں بھی ایبسولوٹلی ناٹ سے لے کر امریکہ مجھے بچا لو تک کے نعرے لگا کر ذلالت کی حد تک ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہیں مگر لگتا یہ ہے کہ خطوط کا خبط شاید ابھی ان کا ختم نہیں ہوا۔