Ali HassanColumn

علامہ مشرقی کی گرفتاری اور رہائی ( آخری حصہ )

تحریر : علی حسن
’’ سہ پہر کا وقت تھا۔ جیل کے دروازہ کے باہر اور جیل کی دیوار کے ساتھ ساتھ مسلح پولیس کا پہرہ تھا تاکہ کوئی شخص جیل پر حملہ نہ کر سکے۔ جیل کے سپرنٹنڈنٹ مسٹر لومیسی ( جود ہلی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی تھے، جیل میں تشریف لاتے۔ ان کے ساتھ شہر کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس متعدد انسپکٹر اور سب انسپکٹر اور موٹریں تھیں۔ ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ علامہ کو ریل میں سوار کرا کے ریلور جیل ( صوبہ مدراس ) میں جائیں۔ جہاں کہ آپ نظر بند رکھے جائیں گے۔ مسٹر لو میسں جب ان کو جیل سے روانہ کرنے کے لئے جیل میں آئے تو بہت پریشان تھے ۔ کیونکہ جیل سے کچھ فاصلہ پر خاکسار چکر لگا رہے تھے۔ شہر میں خاکساروں کا اجتماع تھا۔ خاکسار عدم تشدد میں یقین نہیں رکھتے بلکہ اعلانیہ تشدد کے حق میں ہیں۔ مسٹر لومیسں اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو یہ فکر کہ جب وہ علامہ کو جیل سے باہر نکالیں گے۔ اگر علامہ نے دروازہ پر ہی جانے سے انکار کر دیا یا موٹر سے چھلانگ لگادی اور میں اور خاکساروں اور جیل یا پولیس کے حکام کے درمیان تصادم ہو گیا تو بہت بدنامی ہوگی اور شاید لاہور کی طرح یہاں بھی فائرنگ ہو۔ یہ افسر اس تشویش میں تھے اور سوچ رہے تھے کہ علامہ کو کسی طریقہ ہے جیل سے نکال کر امن اور خیریت کے ساتھ گاڑی میں سوار کرایا جائے اس کے علاوہ یہ بھی خیال تھا کہ خاکساروں کو علم ہوگیا تو شاید ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم یا ٹرین پر حملہ کر دیں۔ اس زمانہ میں دہلی جیل میں ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مسٹر کنیش داس آنند بہت ہوشیار اور سمجھدار افسر تھے یہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں جیل مینول پر اتھارٹی سمجھے جاتے اور جب کبھی کسی افسر کو کوئی مشکل پیش آتی تو وہ ان سے مشورہ لیتا۔ ان کی قابلیت کے باعث مسٹر لومیسں ان پر بہت بھروسہ اور اعتماد کرتے تھے جب مسٹر لوئس کو لالہ گنیش داس نے پریشانی دیکھا تو آپ نے مسٹر لوئس سے کہا کہ فکر نہ کیجئے وہ خود سب انتظام کر دیں گے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں طریقہ سے کام ہونا چاہئے۔ چنانچہ علامہ کی روانگی وغیرہ کا تمام کام لال گنیش داس کے سپرد کر دیا گیا۔ آپ علامہ مشرقی کے پاس گئے اور جاتے ہیں ایک سنسنی پیدا کرنیوالی خبر سناتے ہوئے علامہ سے ذیل کی گفتگو کی۔
لالہ گنیش داس: علامہ صاحب مبارک ہو۔ علامہ: کیوں کیا بات ہے۔ لالہ گنیش داس: آپ کی رہائی کا حکم ہو گیا ہے۔ مگر اس شرط پر کہ آپ صوبہ دہلی سے باہر نکل جائیں اور کسی دوسرے کو اس کا علم نہ ہو تا کہ یہاں صوبہ دہلی کے علاقہ میں شورو شر نہ ہو۔ دلی سے باہر آپ یو پی میں جائیے یا پنجاب میں جہاں بھی آپ کی مرضی ہو جائیے۔ دہلی کا چیف کمشنر صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کے علاقہ میں کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔ علامہ: مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن چُپ چاپ یہاں سے جانے کے لئے تیار ہوں۔ لالہ گنیش داس۔ گورنمنٹ چاہتی ہے۔ کہ آپ پولیس کی نگرانی میں یہاں سے متھرا ( جہاں کہ یو پی کا علاقہ ہے) تک جائیں۔ اور وہاں سے جہاں چاہیں چلے جائیں۔ علامہ : میں تیار ہوں کسی کو اس کا علم نہ ہو گا۔ اور میں خاموشی کے ساتھ چلا جائوں گا۔ لالہ گنیش داس : میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ جیل سے باہر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ میں ان سے آپ کے شرط قبول کرنے کے متعلق کہہ آئوں۔ لالہ گنیش داس یہ کہہ کہ علامہ کے وارڈ سے باہر آگئے۔ تھوڑی دیر ادھر اُدھر گھوم کر پھر واپس گئے۔ اور کہا کہ سب فیصلہ ہو گیا ہے سامان بندھوا ہے۔ چنانچہ دو قیدی لگا کر علامہ کا سامان بندھوایا گیا۔ علامہ نے خوشی و مسرت کے ساتھ خود اپنے سامان کو بندھوا نے کی نگرانی کی۔ آپ نے حقہ اور تمباکو کو احتیاط سے علیحدہ رکھا کہ متھرا کے راستہ میں دقت نہ ہو۔ کیونکہ مولانا ظفر علی کی طرح آپ بھی حُقہ کے بہت شوقین ہیں۔ سامان تیار ہوگیا تو لال گنیش داس نے علامہ کو یقین دلانے کے لئے کان میں کہا کہ چونکہ لا ہور میں بہت سے خاکسار مارے جاچکے ہیں اس لئے چند روز یو۔ پی کے کسی مقام پر رہئے۔ فی الحال پنجاب میں نہ جائیے تو اچھا ہو۔ علام نے اس نیک رائے کا شکریہ ادا کیا ۔ اور آپ بمہ سامان متھرا کے لئے روانہ ہوئے جیل پر آپ کے استقبال یا روانگی ’’ پروشین‘‘ میں شامل ہونے کے لئے مسٹر ٹوئٹس۔ سٹی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس خان بہادر خواجہ مجھے نام یاد نہیں رہا۔ بیچارے دہلی میں ہی بیمار ہوگئے تھے۔ اور غالباً ان کا اس دن ہسپتال میں ہی انتقال ہو گیا تھا، اور کئی انسپکٹر و سب انسپکٹر وغیرہ مع کار کے موجود تھے۔ علامہ مع سامان و حُقہ کے موٹر میں بیٹھے، کے ساتھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس وغیرہ تھے آپ کو خاموشی کے عالم میں نئی دہلی کے سٹیشن پر لایا گیا۔ جہاں مدراس جانے والی گرینڈ ٹرنک ایکسپریس منتظر تھی ریلوے سٹیشن پر پہنچتے ہی آپ کو سیکنڈ کلاس کے ریزرو خانہ میں سوار کرا دیا گیا۔ جو پولیس کو لے کر بڑے سٹیشن سے آیا تھا۔ دہلی پولیس کے افسروں نے علامہ کو خدا حافظ کہا۔ اور گاڑ ی روانہ ہوئی۔
’’ متھرا کے متعلق معلوم ہواکہ وہاں پہنچنے سے پہلے علامہ اسی خیال میں تھے، کہ وہاں آپ آزاد کر لیے جائیں گے۔ گاڑی جب متھرا کے سٹیشن پر پہنچی تو آپ اپنا سامان سنبھالنے اور قلیوں سے سامان اٹھوانے کیلئے اپنی سیٹ سے اُٹھے۔ آپ کی اس جلد بازی کو دیکھ کر ساتھ جانے والی پولیس کے قافلہ کے افسر نے آپ کو بتایا کہ حضرت متھرا آپ نہ اتر سکیں گے صوبہ مدارس کے ویلور جیل میں جائیں گے جہاں کہ آپ کو تا حکم ثانی نظر بند کیا جائے گا۔ علامہ مشرقی کے تمام حالات پر غور کرنے کا بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ کہ کسی شے کو حاصل کرنا اور اس کو قائم رکھنا علیحدہ علیحدہ حیثیتیں ہیں۔ یعنی بعض لوگ ایک شے کو حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر اس کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ بعض حاصل نہیں کر سکتے۔ مگر اس کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ اور بعض حاصل کر سکتے ہیں اور اس کو قائم بھی رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً مہاتما گاندی کسی تحریک کو جاری بھی کر سکتے تھے۔ اور اس کو قائم بھی خوب رکھ سکتے تھے۔ پنڈت جواہر لال کسی تحریک کو غالباً جاری نہیں کر سکتے۔ مگر اس کو قائم خوب رکھ سکتے ہیں۔ ماسٹر تارا سنگھ نئی تحریک جاری نہیں کر سکتے۔ اس کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ مسٹر جناح تحریک جاری کر سکتے تھے۔ اس کو قائم رکھنے کی ان میں صلاحیت بہت کم تھی۔ مرحوم مولانا محمد علی کسی تحریک کو جاری کرنے کی بھی قابلیت رکھتے تھے۔ اس کو قائم رکھنے کی بھی۔ بھائی پر مانند میں کسی تحریک کو جاری کرنے کی قابلیت بالکل نہ تھی تحریک کو قائم ایک حد تک رکھ سکتے تھے۔ مرحوم لالہ جیت رائے میں تحریک کو جاری کرنیکی بہت بڑی قابلیت تھی۔ مگر تحریک کو قائم نہ رکھ سکتے تھے۔ اسی طرح علامہ مشرقی میں کسی تحریک کو آرگنائز کرنے اور اس کو جاری کرنے بہت بڑی قابلیت اور صلاحیت موجود ہے۔ مگر چونکہ آپ طبعاً بزدل اور کمزور ہیں۔ اور خطرات کو لبیک نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے آپ کسی تحریک کو کامیابی کے ساتھ چلا نہیں سکتے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ خاکسار تحریک موت کی ہچکیاں لے رہی ہے اور اگر یہ تحریک کسی ایسے لیڈر کو سپرد کردی جاتی جو قربانی کر سکتا۔ اور مہاتما گاندھی کی طرح موت کی پروا کرنے والا نہ ہوتا تو اس مفید اور اچھی تحریک میں پھر زندگی پیدا کی جاسکتی تھی۔

جواب دیں

Back to top button