Column

عافیہ کا کیس اور کمزور سفارتکاری

محمدایوب

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے 13اکتوبر، 2024ء کو امریکی صدر جو بائیڈن کو قوم کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی سزا کے خاتمہ کے لیے دائر رحم کی درخواست کو منظور کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔ وزیراعظم پاکستان نے چند حقائق بیان کرنے کے بعد درج ذیل الفاظ میں امریکی صدر سے درخواست کی تھی۔
Keeping these facts in view, I request you, Mr. President, to kindly exercise your constitutional authority and accept Dr. Siddiqui’s clemency petition and order her release, strictly on humanitarian grounds.
I trust that, guided by the spirit of kindness and compassion, you will accord the most serious consideration that this request deserves. Her family, and millions of my fellow citizens join me in seeking your blessings for a favorable outcome of this request.
Please accept, Mr President, the assurances of my highest consideration.
وزیراعظم کے خط کے بعد امید تھی کہ اب ریاستی ادارے اور حکام اس خط کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں گے کیونکہ یہ خط میاں شہباز شریف نے ذاتی حیثیت میں نہیں لکھا تھا بلکہ اس خط کے پیچھے ریاست پاکستان موجود تھی جوکہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بھی ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ امریکی صدر سے اس خط کی لاج رکھوائی جائے تاکہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی سزا معاف کرکے انہیں رہا کر دیں۔ مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وزارت امور خارجہ نے اس خط کو ایک عام خط سے زیادہ اہمیت نہیں دی، کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ خط اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ ایک عام پاکستانی شہری کے لیے لکھا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے25اکتوبر، 2024 ء کو وزارت امور خارجہ کو واضح طور پر ہدایت کی تھی کہ سرکاری وفد کے دورہ امریکہ کے لیے اقدامات شروع کرے۔ یہ حکم سرکاری وفد کے پہنچنے سے تقریباََ چھ ہفتے پہلے دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو بھی اس وفد میں شامل ہونا تھا۔ کلائیو اسمتھ کے علاوہ چار پاکستانیوں کو اس وفد کا حصہ بننا تھا اور امریکہ جا کر رحم کی پٹیشن کی منظوری کے لیے امریکی سینیٹرز اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کرنی تھیں مگر عدالتی حکم اور چھ ہفتوں کا وقت ملنے کے باوجود وزارت خارجہ کے افسران معینہ وقت میں وفد تشکیل دینے میں ناکام رہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی کی معذرت کے بعد سینیٹر بشریٰ انجم بٹ کو اس وفد میں شامل کیا گیا۔ وزارت خارجہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا A2 کیٹیگر ی کا ویزہ حاصل کرنے میں ناکام رہی اور ایک ہفتہ سے زیادہ انہیں اندھیرے میں رکھا کہ ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آٹھ قیمتی دن ضائع کرنے کے بعد سینیٹر طلحہ محمود، ڈاکٹر اقبال آفریدی اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ پر مشتمل ادھورا سرکاری وفد امریکہ روانہ ہوا۔کلائیو اسمتھ پہلے ہی واشنگٹن ڈی سی میں موجود تھے اور وہ تنہا ہی امریکی حکام سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ کلائیو اسمتھ پاکستانی شہری نہیں ہیں مگر وہ ایک بے گناہ پاکستانی خاتون کو امریکی قید ناحق سے رہائی دلانے کے لیے پچھلے 2سالوں سے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ طے شدہ 13دنوں میں سے صرف 5دن امریکی حکام سے ملاقاتیں ممکن ہو سکیں اور ان ملاقاتوں میں بھی پاکستانی سفیر غیرحاضر تھے کیونکہ سفارتخانے کو خدشہ تھا کہ کہیں امریکہ کے اندرونی معاملات میں پاکستان کی مداخلت نہ ہو جائے۔ یاد کریں کیا ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے معاملے میں امریکی حکام بھی اسی طرح ڈر رہے تھے کہ کہیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت نہ ہو جائے؟۔ کلائیو اسمتھ سینیٹر بشریٰ انجم کے رویے سے نالاں رہے اور انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے بیان حلفی میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔
A2ویزا کے حصول کے لیے وزارت امور خارجہ کے ایک افسر نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو26نومبر، 2024ء کو اپنا پاسپورٹ اسلام آباد پہنچانے کو کہا۔ واضح رہے کہ 26نومبر کو پورا اسلام آباد ہی نہیں بلکہ پنجاب کے تقریباََ تمام شہر پاکستان تحریک انصاف کے قافلے کی وجہ سے کنٹینروں کے ذریعے بند کر دیئے گئے تھے۔ 2دسمبر کو وفد کو امریکہ روانہ ہونا تھا اس لیے ہم نے25نومبر بروز پیر کی شام فوری طور پر TCSسے رابطہ کیا اور یہ ضمانت مانگی کے کیا ارجنٹ میل ڈیلیوری کے تحت اگلے دن پاسپورٹ وزارت خارجہ کو پہنچ جائے گا؟ ۔ مگر TCS کے نمائندے نے معذرت کرلی کہ پورا اسلام آباد کنٹینروں سے سیل کر دیا گیا ہے اس لیے مطلوبہ وقت پر پاسپورٹ پہنچانے کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ہے۔ جس کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے مجھ سے کہا کہ آپ پاسپورٹ لے کر by Airاسلام آباد چلے جائیں اور ویزا لگوا کر اگلے روز کراچی واپس آجائیں تاکہ وفد 2دسمبر کو وقت پر امریکہ روانہ ہوا جا سکے۔
26 نومبر کی صبح ایک فلائٹ کے ذریعے میں اسلام آباد روانہ ہوا، اور اسلام آباد ایئرپورٹ سے سیدھا وزارت خارجہ کے دفتر ڈاکٹر صاحبہ کا پاسپورٹ لے کر پہنچ گیا۔ وزارت خارجہ کے دفتر تمام رکاوٹیں عبور کرکے پہنچنے میں میرا کوئی کمال نہیں تھا بلکہ یہ کمال سینیٹر طلحہ محمود کے اس ڈرائیور کا تھا جس نے درجنوں سڑکیں اور گلیاں کنٹینروں سے بند ہونے کے باوجود مجھے کسی نہ کسی راستے سے وزارت خارجہ کی عمارت کے عقب میں پہنچا دیا کیونکہ سامنے کا راستہ بلاک کر دیا گیا تھا۔ میرے ساتھ فاروق شاہ خان بھی موجود تھے۔ جو تعلیم کے حصول کے سلسلے میں اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے ساتھ میںMOFA کے حمزہ نامی افسر سے ملا اور ڈاکٹر صاحبہ کا پاسپورٹ ان کے حوالے کر دیا۔ حمزہ صاحب نے مجھے اگلے دن یعنی 27نومبر کو رابطہ کرنے کا کہا۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ امید ہے کل تک ویزا لگ جائے گا۔ مجھے بھی یقین تھا کیونکہ پاسپورٹ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے توسط سے ویزے کے حصول کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔ میں نے حمزہ صاحب سے درخواست بھی کی تھی کہ آپ اپنا لیٹر مجھے دے دیں تو میں ابھی امریکی سفارتخانے چلا جاتا ہوں کیونکہ وقت کم تھا اور ڈاکٹر صاحبہ کو روانگی کے سلسلے میں کافی تیاری کرنا باقی تھی۔ بہرحال اگلے روز جب میں نے حمزہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے وزارت خارجہ کے دفتر بلایا۔ اب تمام راستے کھل چکے تھے کیونکہ رات کے سرکاری آپریشن کے بعد قافلہ واپس جا چکا تھا مگر لوگوں میں آپریشن کے حوالے سے کافی غم و غصہ پایا جارہا تھا۔ میں اس امید کے ساتھ ان کے پاس گیا کہ ویزا لگ چکا ہو گا اور میں شام کی فلائٹ سے کراچی روانہ ہو جائوں گا۔ مگر وہاں جا کر پتا چلا کہ ویزا نہیں لگ سکا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے امریکی سفارتخانہ چار دن کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ حمزہ صاحب نے مجھے پاسپورٹ کے ہمراہ وزارت خارجہ کی جانب سے ایک لیٹر دیا اور کہا کہ اب آپ کراچی میں امریکی قونصلیٹ چلے جائیں اور اس لیٹر کے ساتھ 29نومبر بروز جمعہ کو پاسپورٹ جمع کرا دیں ، ایک دو روز میں آپ کو پاسپورٹ واپس مل جائے گا کیونکہ 28نومبر کو Thanks Giving Dayکے سلسلے میں امریکی قونصلیٹ بند رہے گا۔
بہرحال 29نومبر کو میں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ڈاکٹر اقبال آفریدی کا پاسپورٹ کراچی کے امریکی قونصلیٹ میں جمع کرا دیا۔ 2دسمبر کو سرکاری وفد کو روانہ ہونا تھا مگر ڈاکٹر اقبال آفریدی کو 6دسمبر کو ویزا دیا گیا جبکہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو امریکی سفارتخانے نے اسی روز یعنی 29نومبر کو ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ خدا ہی جانے کہ جس کی اطلاع ہماری وزارت خارجہ کو نہ ہوسکی یا انہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کو سرکاری وفد میں جانے سے روکنے کے لیے اطلاع نہ دی بلکہ مسلسل آسرے میں رکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کا پاسپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد واپس ملا تھا اور میں نے ہی امریکی قونصلیٹ جا کر پاسپورٹ واپس لیا تھا۔
ہماری حکومت یا وزارت خارجہ ایک سرکاری وفد کے رکن کے لیے امریکی ویزا حاصل نہیں کر سکی! کیا یہ کمزور خارجہ پالیسی اور سفارتکاری نہیں ہے؟ فیصلہ آپ کریں۔ میرے سینے میں بھی نواز شریف، آصف علی زرداری ، عمران خان اور دوسرے سیاستدانوں کی طرح بہت سے راز دفن ہیں مگر ہم میں سے کوئی سیاستدان نہیں ہے اس لیے ہم پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں اور بہت محبت کرتے ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی ’’ پیارے پاکستان‘‘ کے ذریعے ہی ہو تاکہ اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہو، سہرا چاہے کسی کے بھر سر بندھے۔

جواب دیں

Back to top button