Column

بلوچستان میں دہشتگردی کا خاتمہ، افواج پاکستان کے سنگ

طارق خان ترین

بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا اور معدنیات سے مالامال صوبہ، عرصہ دراز سے دشمنوں کی نظر میں رہا ہے۔ یہاں کی سرزمین نے نہ صرف بے شمار وسائل کو اپنے دامن میں چھپایا ہے بلکہ قومی یکجہتی اور ترقی کی راہوں کو بھی جنم دیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے، بی ایل اے ( بلوچستان لبریشن آرمی) اور بی ایل ایف ( بلوچستان لبریشن فرنٹ) جیسی کالعدم تنظیموں نے اسے اپنے مذموم مقاصد کا مرکز بنا رکھا ہے۔ یہ تنظیمیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے ساتھ ساتھ معصوم عوام کو بھی اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
یہ تنظیمیں آزادی کے نام پر لوگوں کو گمراہ کر رہی ہیں، لیکن ان کے عزائم نہ تو آزادی کے ہیں اور نہ ہی عوام کے لیے۔ ان کے حملے صرف بلوچ عوام کو خوفزدہ کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو روکنے کے لیے ہیں۔ 2024ء کے دوران، بی ایل اے نے معصوم عوام پر حملے کیے، جن میں سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ تربت میں 4جنوری 2025ء کو ایک مسافر بس پر حملہ ان کے عوام دشمن عزائم کا کھلا ثبوت ہے۔ یہ حملہ بلوچ عوام کے خلاف ان کی نفرت کا عکاس ہے، جس میں چار معصوم افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ تنظیمیں صرف اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لوگوں کو استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے مظالم کی داستانیں سن کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’ چور مچائے شور‘‘ کے مصداق، یہ تنظیمیں خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ بلوچ عوام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
بلوچستان میں امن و امان بحال رکھنے کے لیے پاک فوج، ایف سی، اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ہماری فورسز نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے نہ صرف ان تنظیموں کے نیٹ ورک کو توڑا بلکہ امن کی بحالی کے لیے عوام کا اعتماد بھی جیتا۔ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز نے ان تنظیموں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ کلبھوشن یادیو، گلزار امام شنمبے، سرفراز بنگلزئی وغیرہ کا قومی دھارے میں شامل ہونا کامیابیوں کا ثبوت ہے۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے لے کر دور دراز کے علاقوں تک، ہمارے جوان دن رات امن کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ’’ جہاں چاہ، وہاں راہ‘‘ کے مصداق، پاک فوج نے ہر خطرہ مول لے کر بلوچستان کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔
وفاقی حکومت نے بھی بلوچستان میں امن کی بحالی کے لیے اہم اقدامات کئے ہیں۔ 4نومبر 2024ء کو پاک فوج کی 31یونٹس اور فرنٹیئر کور کے 107ونگز کی تعیناتی کا فیصلہ اس عزم کا غماز ہے کہ حکومت کسی بھی قیمت پر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔ اسی طرح 20نومبر 2024ء کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان میں دہشتگرد تنظیموں کے خلاف جامع آپریشن کی منظوری دی گئی۔ یہ اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ حکومت اور سیکیورٹی فورسز مل کر اس سرزمین کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
بلوچ عوام، جو طویل عرصے سے ان تنظیموں کے مظالم کا شکار رہے ہیں، اب دھیرے دھیرے ان کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ عوام کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسے گروہ
صرف اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انہیں قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مصداق، سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبے بلوچ عوام کے لیے روشنی کی کرن بن رہے ہیں۔ حکومت، پاک فوج، اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون اس بات کی دلیل ہے کہ بلوچستان کا مستقبل روشن ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ان تنظیموں کے پروپیگنڈے سے دور رہیں اور اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہوں۔
بلوچستان میں جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے، لیکن پاک فوج، انٹیلیجنس ایجنسیاں، اور عوام کے اتحاد سے یہ جنگ جیتی جا رہی ہے۔ دہشتگرد تنظیموں کے عزائم کو خاک میں ملا کر بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا رہا ہے۔ بلوچ عوام کے لیے پیغام واضح ہے کہ ’’ مل جل کر قدم بڑھائیں، اور دشمنوں کے منصوبے ناکام بنائیں‘‘۔

جواب دیں

Back to top button