Column

قوم کی عظیم بیٹی ارفع کریم کو بچھڑے 13برس ہو گئے

رفیع صحرائی
بہت سے لوگ پیدا ہونے کے بعد زندگی ’’ گزارتے‘‘ ہیں اور تھوڑے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندگی ’’ جیتے‘‘ ہیں۔ بڑے کارنامے آخرالذکر ہی انجام دیتے ہیں کہ جیون کا حق موڑنے والے یہی ہوتے ہیں۔ جو زندگی ’’ جیتے‘‘ ہیں زمانہ انہیں مرنے نہیں دیتا۔ وہ اپنے کارناموں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ دلوں میں بھی اور دماغوں میں بھی۔ تاریخ کے اوراق میں ایسے لوگ امر ہو جاتے ہیں کہ ہمارے درمیان نہ رہ کر بھی وہ ہمارا موضوعِ گفتگو بنے رہتے ہیں۔
قوم کی قابلِ فخر بیٹی ارفع کریم بھی انہی نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ایک تھی جو اپنے کارناموں کی بدولت نہ صرف خود امر ہو جاتے ہیں بلکہ ملک و قوم کا سر بھی فخر سے بلند کرتے ہیں۔ ارفع کریم نے مختصر عمر پائی لیکن ایسے ایسے کارنامے انجام دے گئی جن کارناموں کے طویل عمر پانے والے خواب ہی دیکھتے ہیں اور اکثر تو محض سوچ کر ہی رہ جاتے ہیں۔ شاید اسے جانے کی بہت جلدی تھی کہ محض 17سال کی عمر میں اس نے ستر برس جتنا کام انجام دے ڈالا۔ اس نے اپنے عزم، حوصلے، عمل اور جذبے سے پوری دنیا کو باور کرا دیا کہ اگر مناسب مواقع میسر ہوں تو پاکستانی خواتین دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ صرف چولہے اور ہانڈی کی ماہر نہیں ہیں، انہیں مواقع دئیے جائیں تو ہر شعبے میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
علم و ذہانت کا خوبصورت شاہکار ارفع کریم نے 2فروری 1995ء کو فیصل آباد کے ایک گائوں چک نمبر 4ج۔ ب رام دیوالی کے ایک چھوٹے سے گھر میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد امجد عبدالکریم رندھاوا ایک آرمی آفیسر تھے۔ والد نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں ذہانت کی چمک دیکھتے ہی اس کو کامیاب مستقبل دینے کا عزم کر لیا۔ تین سال کی عمر میں ارفع نے سکول جانا شروع کر دیا تھا جبکہ اس کی ہم عمر بچیاں ابھی فیڈر سے چپکی ہوئی تھیں۔ اسے کمپیوٹر میں خصوصی دلچسپی تھی۔ والد نے اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جس کی بدولت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اس کی دلچسپی بڑھتی گئی اور 2004ء میں صرف نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کر کے اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ وہ دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کے اعزاز کی مستحق بن کر اپنا ہی نہیں، پاکستان کا نام روشن کرنے کا بھی سبب بن گئی۔ بل گیٹس کی قائم کردہ مائیکرو سافٹ کارپوریشن کی خصوصی دعوت پر 2005ء میں ارفع کریم اپنے والد کے ہمراہ امریکہ پہنچی جہاں آئی ٹی کے بے تاج بادشاہ بل گیٹس سے اس نے مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کی سند حاصل کی۔ بل گیٹس کے سامنے ارفع کا اعتماد دیدنی تھا۔ یہ ایسی صورتِ حال تھی کہ جس کا سامنا کرتے ہوئے بڑے بڑے کوالیفائیڈ لوگوں کی زبانیں لکنت زدہ ہو جاتی ہیں مگر اس دس سالہ بچی نے مختلف پوائنٹس پر بل گیٹس سے اس قدر بھرپور انداز میں گفتگو کی کہ وہ مبہوت ہو کر اسے دیکھتا رہ گیا۔
قبل ازیں پاکستان کے بارے میں یہ تصور تھا کہ وہاں عورتوں کو تعلیم کے زیادہ مواقع میسر نہیں۔ اس دورے میں ارفع کریم کو پاکستان کے دوسرے چہرے کا نام دیا گیا۔ ارفع کو اس کے بعد دو ہفتے کے لیے دوبئی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی جانب سے مدعو کیا گیا جہاں انہیں مختلف تمغہ جات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ دوبئی میں ہی ایک فلائنگ کلب میں ارفع نے صرف دس سال کی عمر میں ایک طیارہ کامیابی سے اڑا کر پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔
2005 ء میں ہی ایک اور اعزاز ارفع کا منتظر تھا۔ ایسا اعزاز کہ جس کے حصول کے لیے لوگ پوری زندگی وقف کر دیتے ہیں مگر محض چند لوگ ہی اس اعزاز کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اسے ’’ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی‘‘ ( پرائڈ آف پرفارمنس) سے نوازا گیا۔ صدرِ مملکت جناب پرویز مشرف نے اسے یہ ایوارڈ عطا کیا۔ ارفع کو ’’ مادرِ ملت فاطمہ جناح‘‘ طلائی تمغہ بھی حکومت کی طرف سے ملا اور ’’ سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ‘‘ سے بھی اسے نوازا گیا۔
مائیکروسافٹ نے 2006میں بارسلونا میں تکنیکی ڈویلپرز کانفرنس منعقد کی جس کا موضوع تھا ’’ دنیا سے دو قدم آگے‘‘ ۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے پانچ ہزار سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی۔ پاکستان سے صرف ارفع کریم کو اس کانفرنس میں شرکت کا اعزاز ملا۔ اسے رول ماڈل کے طور پر مدعو کیا گیا تھا جو بجائے خود ایک بڑا اعزاز تھا۔ بلا شبہ ارفع کریم اپنی عمر سے بڑھ کر کام کرنے والوں میں سب سے آگے، سب سے نمایاں تھی۔ اس کے بعد انٹر نیشنل سطح پر بہت سے ادارے ارفع کو اپنے ہاں مدعو کرتے رہے جہاں وہ اپنے ملک کی بھرپور نمائندگی کرتی رہی۔ اسے بیرونِ ملک سے بہت سی آفرز ملیں کہ ان کے ہاں اپنی تعلیم مکمل کرے مگر جس مٹی سے اس کا خمیر اٹھا تھا اور جس وطن سے اسے عزت ملی تھی اسے چھوڑنا ارفع کے لیے ممکن نہ تھا۔ اس نے تمام آفرز کو شکریے کے ساتھ واپس کر دیا۔
وہ مختصر سے وقت میں نوجوانوں کی آئیڈیل اور ہیرو بن گئی تھی۔ ہر دم مستعد، با حوصلہ اور ہمہ وقت مصروف رہنے والی ارفع کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ بہت جلد اپنے پیارے پاکستانیوں کو روتا چھوڑ جائیگی۔
21 دسمبر 2011ء کی ایک سرد رات کو اس نے سر درد کی شکایت کی تو ماں نے حد سے زیادہ پڑھائی اور کمپیوٹر استعمال کرنے پر ڈانٹتے ہوئے دوائی دے کر آرام کرنے کے لیے لیٹا دیا۔ مگر کسے خبر تھی کہ اس کے بعد وہ کبھی اٹھ نہیں سکے گی۔ اگلی صبح ہارٹ اٹیک اور برین ہیمرج کے باعث اسے جلدی سے سی ایم ایچ لاہور پہنچا دیا گیا جہاں وہ 22روز تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہی۔ پاکستان کے ہر گھر میں اس کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں۔ بل گیٹس نے بھی اس کی حالت کے پیشِ نظر نہ صرف اس کے لیے بہترین معالجین کا بندوبست کیا جو ویڈیو
لنک کے ذریعے پاکستانی ڈاکٹروں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے بلکہ علاج کے تمام اخراجات کا ذمہ بھی لیا۔ مگر علاج بیماری کا ہوتا ہے، موت کا کوئی علاج نہیں۔ 14جنوری کی رات ارفع کریم ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ارفع کا دماغ شدید متاثر ہوا تھا۔ جس کا علاج ممکن نہ تھا، کم از کم پاکستان میں تو بالکل ہی نہ تھا مگر وہ ننھی پری تو آئی ہی مختصر عرصے کے لیے تھی۔ اس مختصر عرصے میں بڑے بڑے کارنامے انجام دے کر وہ پریوں کے دیس سدھار گئی۔
حکومت نے بعد ازمرگ لاہور کے ایک آئی ٹی پارک اور کراچی کے آئی ٹی سینٹر کو ارفع کریم کے نام سے منسوب کیا۔ اس کے گائوں کو بھی ارفع کریم کا نام دیا گیا جبکہ وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے 2012ء میں ارفع کریم کے نام پر ڈاک کا یادگاری ٹکٹ جاری کرنے کی منظوری دی۔
واقعی اکثر لوگ محض زندگی گزارتے ہیں جبکہ ارفع کریم جیسے چند لوگ زندگی جیتے ہیں۔ اور یہی لوگ تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button