ColumnTajamul Hussain Hashmi

قومی اسمبلی کے فیصلے

تجمل حسین ہاشمی
موجودہ قومی اسمبلی نے 29فروری کے پہلے اجلاس سے لے کر 10ماہ کے عرصے میں 28حکومتی اور7نجی بل منظور کیے۔ جب کہ 14آرڈیننس پیش کیے گئے۔ ان دس ماہ کے دوران پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے مجموعی طور پر 36بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بنے۔ اختتام پذیر ہونے والے سال 2024ء کے دوران قومی اسمبلی نے آرمی چیف ، نیول اور ایئر فورس چیف کی مدتِ ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کے تین ترمیمی بل منظور کیے۔ اس ساتھ ساتھ ریڈ زون اسلام آباد میں دھرنوں پر پابندی کا قانون بھی منظور کیا گیا ۔ سال 2024ء کے دوران اسمبلی میں حکومتی ارکان کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور حکومت نے عدلیہ کے متعلق متعدد بل منظور کرائے۔ 26 ویں آئینی ترمیم میں آئینی معاملات کو دیکھنے کے لیے آئینی عدالتوں کا قیام عمل میں لانے کے لیے منظوری بھی دی گئی۔ ایک ماہ کے لگ بھگ مولانا کو اس ترمیم کے لیے حکومت مناتی رہی، جس کے بعد کچھ شرائط تسلیم کرانے کے بعد مولانا فضل الرحمان کی پارٹی نے بھی اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ ترمیم کے لیے چھٹی کے دن بھی اجلاس طلب کیے گئے اور رات دیر تک بھی کارروائی دیکھنے میں آئی، سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد کو بڑھانے کے لیے بھی بل منظور کیے گئے ۔ الیکشن ایکٹ اور اسلام آباد بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کے بل بھی منظور کرائے گئے۔ 29فروری سے آج تک ایک مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس اور قومی اسمبلی کے 11سیشن ہو چکے ہیں جن کے دوران مجموعی طور پر 79دنوں کے اجلاس ہوئے ہیں، قومی اسمبلی کی حاضری کے ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں وزیر اعظم شہباز شریف کی شرکت کم رہی۔ 79دنوں کے اجلاسوں میں سے وزیرِ اعظم صرف 17اجلاسوں میں شریک ہوئے اور باقی 62اجلاسوں میں غیر حاضر رہے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف 79اجلاسوں میں سے صرف پانچ اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ جب کہ 74اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صرف 10اجلاسوں میں شریک ہوئے اور 69اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 18اجلاسوں میں شریک اور 61اجلاسوں میں غیر حاضر رہے اس طرح پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر 72اجلاسوں میں شریک اور صرف سات اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب 65اجلاسوں میں شریک اور 14اجلاسوں میں غیر حاضر رہے۔ غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے انٹر نیشنل میڈیا کو بتایا کہ اسمبلی نے پچھلی اسمبلی کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ قانون سازی کی ہے۔ اسمبلی نے 10ماہ میں 37قوانین منظور کیے ہیں جبکہ اس اسمبلی میں پچھلی اسمبلی کے مقابلے میں آرڈیننس بھی زیادہ پیش ہوئے ہیں جن کی تعداد 13ہے۔
سوال یہ ہے کہ زیادہ قانون سازی سے کیا ملک میں معاشی ، سیاسی اور معاشرتی مسائل میں کمی ہو گی، عام شہریوں کو تحفظ فراہم ہو گا ، بنیادی سہولتوں میں بہتری ممکن ہو گی ، گزشتہ سالوں سے اور انتخابات کے بعد جو کچھ چلتا رہا ماضی کے 76سالوں میں ایسا نہیں ہوا ۔ قانون سازی بدلتے وقت کی ضرورت ہے لیکن اگر قانون سازی کے سیاسی مقاصد اور ذاتی مفادات ہوں تو پھر ملک و قوم کیلئے اس سے بڑا نقصان نہیں ہو سکتا۔ قانون سازی سے زیادہ اہم قانون کا نافذ ہے۔ قومی چوروں کو جس طرح قانونی سازی سے ریلیف دیا جاتا رہا یہی تو انصاف کا قتل ہے۔ اس پر تو سوالات ہیں، ایسی صورتحال میں ریاستی اداروں کا امتحان ہے ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کمزور ہوئے کیوں کہ وہ سیاسی زیر اثر ہیں۔ گزشتہ 6ماہ کے ٹیکس محصولات میں 386ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق 5فیصد لوگ اربوں روپے کی ٹیکس ناہندہ ہیں، ان 5فیصد افراد نے ہر دور میں عسکری قیادت کے آگے شکایات کے انبار لگائے ہیں۔ حقیقت میں ٹیکس شارٹ کے ذمہ دار بھی یہی طاقتور ہیں۔ عسکری ادارے ملکی سلامتی کیلئے دن رات کوشاں ہیں، مائوں کے جوان بیٹے دن رات ملکی حفاظت پر مامور ہیں، سیاسی کشمکش بارڈر پر مامور جوان کیلئے مزید خطرات پیدا کر رہی ہے، ملک میں اندرونی خطرات میں اضافہ ہے۔ یونیورسٹی، ایئر پورٹ جیسے خود کش حملے سلامتی کیلئے خطرناک ہیں۔
ہمیں بحیثیت قوم اور سیاسی قیادت کو سوچنا ہو گا کہ کیا ملک اس طرح چلانا ہے تو پھر معاشی صورت حال بہتر ہوتی نظر نہیں آتی، ایسی صورتحال میں قیادت کو مل بیٹھنا ہو گا۔ رانا ثنا اللہ کی تجویز کو اہمیت دی جانی چاہئے۔ تینوں رہنما ایک ساتھ بیٹھ کر ملک کو اس صورتحال سے باہر نکالیں۔ پاکستان کیلئے یہ ایک اہم موقع بھی ہے اس وقت ہمارا حریف دشمن بھارت تنہائی کا شکار ہے ، بھارت سے سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ باہر نکلنا شروع کر دیا ہے ، بھارت اس وقت شدید انٹر نیشنل تنہائی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہے۔
امجد چودھری کی حالیہ پبلش ہونے والی امّت اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاروں نے 2ارب کی انوسٹمنٹ نکال لی ہے اور امریکا نے بھی نریندر مودی سے فاصلے اختیار کے لیے ہیں ، امریکا اس وقت پاکستان کے ساتھ کاروباری شراکت داری کیلئے بھر پور تعاون کیلئے تیار ہے۔ پاکستان کیلئے یہ انتہائی اہم موقع ہے کہ وہ اپنے اندرونی سیاسی معاملات کو بہتر کرے اور ملک کیلئے سب ایک پیج پر آ کر اپنا سفر شروع کریں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔

جواب دیں

Back to top button