ColumnQadir Khan

لڑکیوں کی تعلیم: ایک دردناک حقیقت

قادر خان یوسف زئی
یہ ایک تلخ حقیقت ہے، ایک گہرا زخم جو ہر روز ہمارے دلوں کو زخمی کرتا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت صرف ایک ملک کی نہیں، بلکہ پورے مسلم دنیا کی ہے۔ جب بات آتی ہے لڑکیوں کی تعلیم کی، تو اس موضوع پر کبھی بھی سنجیدہ توجہ نہیں دی جاتی۔ عالمی تنظیمیں میٹنگز اور کانفرنسز کا انعقاد کرتی ہیں، مگر یہ سب کچھ ایک دکھاوا بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ایک بے شمار سوالات کے درمیان، ایک سنگین حقیقت ہے،مسلم دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد۔ یہ جدوجہد ایک المیہ نہیں بلکہ ایک دیرینہ المیہ بن چکی ہے، جہاں تعلیم کا حق ایک لوٹنے والے خواب کی مانند بن چکا ہے، جسے مذہب کے نام پر، ثقافت کے نام پر، اور کبھی کبھار تو سیاست کے پردے میں دبا دیا گیا ہے۔ ایک طرف وعدے ہیں، دوسری طرف ان وعدوں کا خون بہاتا ہوا راستہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
پاکستان سمیت مسلم دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم پر نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ ایک طرف عالمی برادری دعوے کرتی ہے کہ لڑکیوں کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا جائے گا، تو دوسری طرف خود ساختہ قوانین، ثقافتی جبر، اور مذہبی تفسیرات انہیں اس حق سے محروم کر دیتی ہیں۔ مسلمان ممالک، جنہوں نے خود کو علم و فضل کا علمبردار سمجھا ہے، وہاں لڑکیوں کی تعلیم کا حق اب ایک خواب بن چکا ہے۔ ہر جگہ لڑکیوں کی تعلیم ایک سیاسی، مذہبی اور سماجی مسئلہ بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ یہ ایک قوم کا خاندانی مسئلہ بن چکا ہے، جسے روزمرہ کی سیاست اور مذہب کے پردے میں چھپایا جاتا ہے۔
پاکستان میں یہ صورتحال اتنی گہری اور دردناک ہو چکی ہے کہ اگر آپ26 ملین بچوں کو اسکول سے باہر دیکھ کر ان کے چہروں کو بغض اور مایوسی سے دیکھیں، تو آپ یہ سوال کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ جب خواتین کی شرح خواندگی کی بات ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ترقی کر رہے ہیں، بلکہ یہ صرف ایک حقیقت کو چھپانے کی کوشش ہے کہ ہم ایک فریب کی صورت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک جملہ ہمارے معاشرے میں گھومتا ہے کہ ’’ لڑکیوں کی تعلیم خاندان کے لیے اہم نہیں، لیکن وہی لڑکیاں کل کے دن ملک کے لیے اہم بن سکتی ہیں‘‘، مگر ہم اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اور پھر افغانستان، جس کا ذکر کرنا شاید درد کے اوپر نمک پاشی کے مترادف ہو۔ کیا یہ وہی دنیا ہے جو اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں لڑکیوں کے حق میں قراردادیں پاس کرتی ہی؟ کیا یہ وہی دنیا ہے جو حقوقِ نسواں کے نام پر ہر سال مارچ میں بڑے بڑے اجتماعات کرتی ہے؟ لیکن جب بات آتی ہے ان حقوق کو عملی طور پر نافذ کرنے کی، تو ہر آواز خاموش ہو جاتی ہے۔ افغان عبوری حکومت نے عالمی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے یہ ثابت کیا کہ دنیا کی کسی بھی آواز کو سننا ان کی سیاست کا حصہ نہیں۔ یہ ایک خاموشی ہے، جو جابرانہ سیاست کی لگان کا حصہ بن چکی ہے۔ اسلام آباد کی حالیہ عالمی کانفرنس میں بھی ہم نے دیکھا کہ افغانستان، جو لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں سب سے زیادہ پسپائی کا شکار ہے، اس عالمی آواز کا حصہ نہیں بن سکا۔ عالمی سطح پر آواز اٹھائی گئی، لیکن افغان حکومت نے اس میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ظاہر کیا۔ کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے یا پھر اس کا پیچھے کوئی اور حقیقت چھپی ہوئی ہے؟ کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ جب افغان طالبان نے افغانستان میں حکومت سنبھالی، تو اس کے بعد سے 1.4ملین لڑکیاں سیکنڈری تعلیم سے محروم ہو گئیں؟ کیا یہ صرف ایک سیاسی فیصلہ تھا یا اس کے پیچھے ایک اور سماجی، مذہبی، اور ثقافتی جبر کی کہانی چھپی ہوئی تھی؟۔
یہ خاموشی ایک سوال پیدا کرتی ہے، کیا عالمی برادری واقعی لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت دیتی ہے؟ کیا یہ صرف ایک نعرہ ہے، جو ہر سال کسی عالمی دن پر بلند کیا جاتا ہے اور پھر دفن ہو جاتا ہے؟ کیا حقیقت میں ہماری حکومتیں، ہمارے ادارے اور ہمارے رہنما اس مسئلے کو حقیقت میں حل کرنا چاہتے ہیں؟ یا یہ محض ایک کھچا کھچ کا کھیل ہے، جس میں ہر ایک اپنے آپ کو دکھانے کی کوشش کرتا ہے؟ ۔ ہم کبھی بھی اس مسئلے کا حقیقی حل نہیں نکال پائیں گے۔ جب تک ہمیں اپنی سیاست، مذہب اور ثقافت کے جبر سے نجات نہیں ملتی، ہم ان لڑکیوں کو ان کے حق سے محروم رکھیں گے۔ ہم ان کے خوابوں کو روندتے رہیں گے اور ان کے مستقبل کو تباہ کرتے رہیں گے۔
افغانستان میں، جہاں لڑکیوں کو صرف تعلیم کا حق نہیں، بلکہ انہیں صحت کی سہولتوں، آزادی اور معاشرتی ترقی کے تمام امکانات سے محروم کیا جا رہا ہے، ہم سب اس امر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ ایک انسانیت کا بحران ہے، نہ کہ صرف ایک سیاسی معاملہ۔ پاکستان، جو کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہمیشہ بیانات دیتا رہا ہے، وہاں بھی یہ بات کہیں نہ کہیں چپکے سے دفن ہو چکی ہے۔ کیا ہمارے سیاستدانوں، مذہبی رہنماں، اور سماجی کارکنوں کے لیے یہ اتنا مشکل ہے کہ وہ اس مسئلے کو ایک حقیقی چیلنج کے طور پر تسلیم کریں؟ کیوں ہمارے معاشرتی جبر اور مذہبی عقائد اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم کا حق دیا جائے؟۔
یقیناً یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اور ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے صرف عالمی اداروں کی کوششیں کافی نہیں ہیں۔ حکومتیں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کریں، معاشرتی ذہنیت کو بدلنا ہوگا، اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے حقوق کو اہمیت دینی ہوگی۔ جب تک ہم اپنے معاشرتی اور ثقافتی جبر سے آزاد نہیں ہوتے، اور جب تک ہم لڑکیوں کی تعلیم کو ایک آئینی حق کے طور پر نہیں تسلیم کرتے، اس وقت تک یہ مسائل ہمارے معاشرے کا حصہ بنے رہیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس سماجی ظلم کا خاتمہ کریں، جو لڑکیوں کی تعلیم کو ہم سے چھین رہا ہے۔ یہ صرف مسلم دنیا کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالمی سوال ہے۔ جب تک دنیا میں ہر لڑکی کو تعلیم کا حق نہیں ملتا، ہم اس معاشرتی جبر کا شکار رہیں گے۔ یہ ایک سنگین سوال ہے، اور اس کا جواب ہمیں اپنے معاشرتی جبر اور سیاست میں ملتا ہے۔ اس وقت تک ہم اس سچ کو تسلیم نہیں کریں گے، جب تک ہم نہ خود اس درد کا سامنا کریں گے اور نہ ہی اس پر آواز اٹھائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button