بلاگ

دہشتگردی اور پاکستان

تحریر: کنول زہرا

وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق دہشت گردی کا سر کچلے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا ہے، انہوں نے کہا دہشت گردی کے ناسور کو کچلنے کےلیے سب کو اکٹھا ہونا ہوگا اور ایک پیج پر آنا ہوگا، وزیراعظم کا یہ پیغام انتہائی مثبت اور دوٹوک ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اقتدار کے لالچ میں ملک کے وقار کو داؤ پر لگانے کی مشق ستم چلتی رہتی ہے، جس سے ملک کا امن تہہ و بالا ہونے کے ساتھ معاشی معاملات بھی ابتر ی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں طالبان کی دوبارہ انٹری عمران خان کے دور میں ہوئی ، ان ہی کے دور میں کالعدم جماعتوں کے بڑے بڑے دہشتگردوں کو رہا ئی کا پروانہ ملا، دہشتگردانہ تربیت کی وجہ سے ہی نو مئی 2023 کا وحشت زدہ دن رونما ہوا، بعد ازاں مخصوص جماعت کے پے در پے احتجاجوں نے ملک کے لئے مزید مشکلات کھڑی کردی ہیں۔

ترجمان پاک آرمی جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق گذشہ سال پاک آرمی نے ہزار سے زائد دہشتگردوں کو واصل جہنم کیا جبکہ 383 جوان شہید ہوئے۔

دہشتگردی کے حوالے سے صوبہ بلوچستان اور پارا چنار پاکستان کے متاثر ہ علاقے ہیں، گذشتہ سال بلوچستان میں 563 کے لگ بھگ دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کا بنیادی ہدف عام شہری، مزدوراور مسافر ہیں۔ دہشت گرد گاڑیوں کو ویرانے میں روک کر مسافروں پر حملے، ترقیاتی سر گرمیوں کے کارکنوں اور کوئلے کی کانوں کے محنت کشوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر واقع دو ممالک پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور سازشوں کا مرکز بن چکے ہیں۔ امریکا، بھارت اور دیگر ممالک کے اس خطے کے حوالے سے مفادات کسی سے پوشیدہ نہیں، بھارت کی پاکستان دشمنی پوری دنیا پر عیاں ہے وہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں پوری طرح ملوث ہے جس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔
بھارت اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے پاکستان میں دہشت گردوں کی ہر قسم کی معاونت کر رہا ہے، اس بارے اقوام متحدہ میں پاکستان کا پیش کردہ ڈوزیئر موجود ہے جس میں تمام تفصیلات شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ درج ہیں لیکن افسوس ابھی تک اقوام متحدہ نے بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جب کہ وہ آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔

پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز 1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران ہوا، افغان جہاد کے بعد پاکستان بھر میں مختلف شدت پسند تنظیموں نے منظم شکل اختیار کی، نو، گیارہ کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو خود کش حملوں ،بم دھماکوں اور مسلح کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔جس نے نہ صرف ملکی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا یابلکہ ہزاروں معصوم جانیں بھی ضائع ہوئیں۔

اعدادو شمار کے مطابق 2001ء سے لیکر 2019ء تک پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ سے تقریبا 65 ہزار افراد جاں بحق ہوئے جن میں7 ہزار کے قریب سکیورٹی اداروں کے اہلکارشامل تھے۔ 2001ء سے 2023ء تک پاکستان کو ایک محتاط اندازےکے مطابق 127بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔
2020ء کے قریب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ملک میں دہشتگردی پر قابو پالیا تھا لیکن 2021 میں پاکستان نے افغانستان کے جیلوں سے ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کو رہا کر وایا گیا،جنہوں پاکستان آکر ملک کا امن تہہ وبالا کیا، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
دوسری جانب پارا چنار جو کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا علاقہ ہے، وہاں فرقہ وارانہ فسادات اور حکومت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے صحت کے مراکز کی ناقص صورتحال کی بدولت 150 سے زائد معصوم بچے جان بلب ہوئے ہیں کیونکہ صحت کے مراکز میں ادویات اور ڈاکٹرز کا فقدان ہے جبکہ فرقہ واریت کے باعث 100 سے قریب افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں مگر کے پی کے کی حکومت کو ذرا سی بھی پرواہ کا اظہار نہیں کر رہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ان کے پاس رقم نہیں ہے۔
حالیہ آڈٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں 152 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، جس میں 13.2 کروڑ روپے کی فراڈ ادائیگیاں شامل ہیں، ہیرا پھیری کرتے ہوئے فرضی کمپنیاں بنا کر اشتہارات کی مد میں پیسہ سوشل میڈیا ٹیم کو دیا جارہا ہے جو ریاست مخالف بیانیے کو فروغ دیتے ہیں، مرکزی حکومت کی جانب سے ملنے والے صوبائی بجٹ کی رقم میں سے 84 ارب کی رقم وفاق پر چڑھائی کے لیے استعمال ہوئی ہے، مگر پارا چنار لہو لہو ہے ، بلوچستان کی طرح وہاں بھی حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آرہی ہے۔

اگرچہ پارا چنار کے ضلع کرم میں عدم استحکام کی یہ صورتحا ل نئی نہیں ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی طرف سے اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے اب تک ایسی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی ہے، جسکے نتیجے میں وہاں قیام امن کا تاحال نافذ نہیں ہوسکا ہے، اس علاقے میں عسکریت پسندی ،قبائلی تنازعات اور فرقہ واریت نے ایسا ماحول پیدا کر رکھاہے جسکی وجہ سے مقامی لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں ۔کرم کے لوگ اس عدم استحکام سے تنگ ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مسائل پر توجہ دیں اور ان کا مستقل حل تلاش کریں ورنہ دہشتگردی اور مہنگائی عوام کا جینا تو محال کر ہی چکی ہے، زندہ رہنا بھی دوبھر کردے گی۔

حکومت کو دہشتگردی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی، جہاں دہشتگردوں کو "ہیرو” بناکر پیش کیا جاتا ہے، کسی حد تک قابل اطمینان بات یہ ہے کہ دنیا پر کسی حد تک یہ واضح ہوچکا ہے کہ پاکستان دہشتگرد نہیں بلکہ دہشتگردی سے متاثر ملک ہے، دہشتگردی کے حوالے سے اس جنگ میں ہماری قربانیوں کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جارہا ہے، مگر یہ اعتراف کافی نہیں ہے، ہمیں اپنے بچاو کے لئے سخت قوانین اور حکمت عملی مرتب کرکے انہیں فوری نافذ العمل بناکر ان پر عمل پیرا ہونا ہوگا، یہ ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button