بارہ سال بعد انصاف
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
شاید 1999ء کی بات تھی جب بھائی ارشد اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے ہاں کراچی آیا۔ مجھے بالکل بھی یاد نہیں کہ اس کے کتنے بچے تھے لیکن ایک بات جو میرے دماغ میں نقش رہی وہ اس کا اخلاق، محبت، خلوص تھا، جو آج تک مجھے یاد ہے ، مجھ سے گپ شپ لگائی اور کہنے لگا میں تمہیں بھی وہاں اپنے پاس بلا لو گا، تمہارے تعلیمی اخراجات میں کروں گا۔ میں بہت خوش تھا کہ میری لاٹری نکل آئی، لندن جائوں گا، اعلیٰ تعلیم حاصل کروں گا، بس زندگی کا کیا بھروسہ ، ہمارے آبائو اجداد کا مقبوضہ کشمیر سے تعلق تھا، مسلمان تھے، عالم دین تھے، پھر ہمارے چند عزیز کراچی میں آباد ہوئے، ان کے طفیل دوسرے فیملی ممبرز نے بھی کراچی کا رخ کیا۔ یقینا کراچی غریبوں کی ماں ہے، سب کچھ لٹا کر پاکستان آئے۔ کراچی میں روزگار اچھا مل جاتا ہے۔ بھائی ارشد انتہائی ملن سار پیارا انسان تھا۔ وہ فیملی سمت لندن واپس چلا گیا۔ دوران تعلیم میں نے پرائیویٹ نوکری بھی شروع کر دی، پھر ایک دن ارشد بھائی کے لندن میں قتل ہونے کی خبر آئی، پورے خاندان کو صدمہ ہوا۔ پاکستانی میڈیا نے اس قتل کو کور کیا، اس کی ڈیڈ باڈی سیالکوٹ لائی گئی، جنازے میں دور دراز سے لوگوں نے شرکت کی، گائوں کے گائوں جنازے میں شریک ہوئے، بھائی ارشد کی والدین نہایت بہادر اور نفیس انسان تھے ۔ وقت گزرتا گیا اور بھائی ارشد کی خدمات کی کہانیاں کھلتی گئیں۔ بھائی ارشد نے اپنی حیات میں کئی لوگوں کی خدمت کی۔ گائوں کے جس بندے نے عمرے کا کہا فورا اس کا انتظام کرایا، کئی خاندانوں کی کفالت کرتا رہا ، جس نے مدد کا کہا کبھی انکار نہیں کیا، بھائی ارشد لندن میں ٹیکسی چلاتا تھا، ایک ٹیکسی سے اپنی فیملی، اپنے والدین اور رشتہ داروں کا سہارا تھا، ایک دن اس کی ٹیکسی کو سفید پوش گورے لڑکے نے ہاتھ دیا، جس جگہ سے وہ گزر رہا تھا وہ جگہ کتوں کو گھمانے کیلئے مختص تھی، وہاں عام طور پر اندھیرا ہوتا ہے، لڑکا جب گاڑی میں بیٹھا تو وہاں پر ایک بوڑھی عورت اپنے کتے کو گھوما رہی تھی، اس وقت وہاں کوئی دوسرا بندہ موجود نہیں تھا، اللّہ خوب جنتا ہے کہ گاڑی میں ان دونوں کے درمیان کیا بات ہوئی کہ سفید پوش نے اس پر چاقو سے حملہ کر دیا، اس نے بھائی ارشد کی گردن پر حملہ کیا۔ چاقو آر پار ہو گیا، جس سے ارشد بھائی کی موت ہو گئی، یہ خبر پاکستانی میڈیا پر بریکنگ بن گئی، والدین کو کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی، جن کا جوان بیٹا دنیا سے چلا گیا، ان کو لندن کے قوانین کہاں پتہ تھے، وہ کیسے اپنے بیٹے کا قاتل ڈھونڈتے۔ لندن پولیس نے اپنی کارروائی شروع کی۔ پولیس کو مشکلات کا سامنا تھا ، موقع پر موجود اسی سالہ بوڑھی عورت تھی جو اس قتل کی گواہ تھی۔ وہاں کیمرے بھی نہیں تھے، عورت کو بھی اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آیا لیکن اس عورت نے قانون کے ساتھ ہر طرح تعاون کیا، لندن پولیس کو قاتل پکڑنے کیلئے 12سال لگ گئے، آخر ایک دن ارشد بھائی کا قاتل پکڑا گیا اور کورٹ نے اس کو سزا سنا کر کیس کی فائل بند کر دی، ان بارہ سال میں لندن حکومت نے بھائی ارشد کی فیملی کو ہر طرح کی سہولت دی، اس کے بچوں کے مستقبل کو مد نظر رکھا۔ فیملی کو لندن پولیس کی طرف سے کوئی شکایت نہیں تھی، پولیس نے کیس پر توجہ نہیں دی یا کسی سفارش کے زیر اثر ہونے سے تفتیش کا رخ بدل دیا ہو، ایسا کچھ نہیں ہوا۔ لندن پولیس نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے قتل کو انجام تک پہنچا۔ انصاف میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی۔
ہزاروں قتل ہمارے ہاں رپورٹ ہیں، قاتل بھی پکڑے جاتے ہیں لیکن فیصلوں میں انصاف نہیں ملتا، کراچی میں ایک دن کے اندر سو، سو لوگ قتل ہوئے ، زندہ لوگوں کو جلایا گیا ، گھروں کو آگ لگا دی گئی، دن دیہاڑے عورتوں کی عصمت دری کی گئی، ہزاروں لوگ لا پتہ ہیں، حال میں ہی ایئر پورٹ پر دھماکہ ہوا، خود کش پورا شہر گھومتا رہا، لیکن قانون بے خبر رہا، ہمارے ہاں ہزاروں کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے، میں حیران ہوں، ایک نہیں تین، تین بار حکمران بنے، اب ان کی اولادیں حکمران ہیں، اربوں روپے کی کرپشن، لاکھوں ڈالر کے سکینڈلز پر مٹی ڈال دی جاتی ہے، چند جماعتیں مل کر اسمبلی سے قانون پاس کروا کر آزاد ہو جاتے ہیں، کوئی احتساب نہیں ہے۔ طاقتور کو حصہ دو اور جس طرح چاہو لوٹ مار کرو۔ قانون خاموش رہے گا۔ ملک ڈوب رہا ہے اور ان کے کاروبار ترقی کر رہے ہیں، جمہوریت والے ناکام ہیں تو 31سال آمریت والے بھی ناکام رہے۔ اس ناکامی کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ جو بولے گا مار دیا جائے گا۔ 76سال بعد آج بھی بچے سکولوں سے باہر ہیں، صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، کرپٹ سیاستدان اسمبلیوں کا حصہ ہیں، اداروں میں سیاست کی پرورش ہے، ہر کوئی اپنا ڈنڈا چلا رہا ہے، قانون نافذ کرنے والے ہی قانون کی پامالی کر رہے ہیں، جھوٹے بیانوں نے ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے، غیر منصفانہ انتخابات ملک کی کمزوری کا باعث ہیں، سب سے بڑھ کر اقتدار سے زیادہ اختیار کی جنگ سے معیشت کمزور ہے۔ یہ سب کچھ کس نے سیدھا کرنا ہے، قوم اس مسیحا کی تلاش میں ہے، خان کو بھی مسیحا سمجھا لیکن حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوئے۔ وہ گیلانی صاحب کا شکوہ یاد آ گیا ، یوسف رضا گیلانی صاحب جب پہلی دفعہ وزیر بنے تو پیر پگاڑا سائیں نے ان کو ایک کام دیا، گیلانی صاحب نے سائیں سے شکوہ کیا کہ آپ نے مجھے استعمال کیا تو سائیں نے کہا ہاں میں نے استعمال کیا ہے۔
ہمارے ہاں سب استعمال کئے جاتے ہیں۔ غیر سیاسی افراد ملک کی ریڈ بنے بیٹھے ہیں ، حکومت سب کچھ اچھا کہ رہی ہے لیکن کہیں اچھا نظر نہیں آرہا، انصاف میں تیزی کیلئی 26ویں ترمیم آ چکی لیکن مقدمات میں کمی کیلئے ملکی حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے، جو کہ نظر نہیں آ رہے۔