Column

ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہی ہوتا ہے

تحریر: رفیع صحرائی
اگر کسی کے ذہن میں اب بھی یہ خیال موجود ہے کہ جناب علی امین گنڈاپور اور محترمہ بشریٰ بی بی نے اسلام آباد پر چڑھائی عمران خان کی رہائی کے لیے کی تھی تو اسے اپنے اس خیال یا یقین پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ علی امین گنڈا پور نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد بار بار کوشش کی کہ حسبِ سابق وہ لوگوں کے ہجوم سے نکل کر کے پی ہائوس میں ’’ ریسٹ‘‘ کرنے کے لیے پہنچ سکیں مگر ان کے اردگرد محترمہ بشریٰ بی بی کے متعین کردہ نگرانوں نے انہیں ہلنے بھی نہیں دیا۔ جناب گنڈا پور نے قسمیں کھا کر یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ وضو کرنے کے لیے جانا چاہتے ہیں مگر لوگ ان کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور سالارِ قافلہ ہوتے ہوئے بھی قافلے والوں کے ہاتھوں محصور اور یرغمالی تھے۔ ان کا محاصرہ کرنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر اب علی امین نے بھاگنے کی کوشش کی تو وہ انہیں گولی مار دیں گے۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ یہ فائنل کال ’’ مس کال‘‘ میں کیسے تبدیل ہوئی۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جناب علی امین گنڈا پور ایک عرصہ سے وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے علاوہ ورکرز بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ یہ علی امین کی خوبی اور مہارت ہے کہ اس کے باوجود وہ اس وقت پارٹی میں سب سے معتبر لیڈر ہیں۔ اس میں ان کی شخصیت اور لیڈرانہ صفات سے زیادہ ان کے عہدے کا کمال ہے۔ وہ پارٹی کی ضرورت ہیں۔ اپنی مشکوک سرگرمیوں اور ملاقاتوں کے باوجود پارٹی کے لیے ناگزیر ہیں کہ پختونخوا کے سرکاری وسائل ان کی دسترس میں ہیں۔ پارٹی کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں کہ بڑے پیمانے پر ریلیوں اور احتجاج کو سپانسر کر سکے۔ مقامی ڈونرز نے منہ پھیر لیا ہے جبکہ بیرونِ ملک سے ورکرز کی فنڈنگ بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ لیڈرشپ اپنی جیب سے کچھ خرچ کرنے کو تیار نہیں ہے لہٰذا علی امین گنڈا پور کو تحفظات کے باوجود قبول کرنا مجبوری ہے۔ اسی پوزیشن کا علی امین فائدہ اٹھاتے آ رہے ہیں۔ وہ کوئی بھی ایونٹ منعقد کرنے کے بعد چند گھنٹوں کے لیے منظر سے ہٹ کر سب کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں اور اپنی ’’ پرفارمنس‘‘ کی داد یا بے داد وصول کرنے کے بعد اچانک نمودار ہو جاتے ہیں
محترمہ بشریٰ بی بی کو گزشتہ دنوں جب رہائی ملی تھی تو بہت باتیں ہوئی تھیں۔ بہت سے حلقے اس ڈھیل کو ڈیل کہہ رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے اندر سے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن معصوم ورکرز بشریٰ بی بی کو کلین چٹ دے چکے تھے۔ جب بشریٰ بی بی نے سنگجانی کے مقام پر دھرنا دینے سے انکار کر کے ڈی چوک ہی پہنچنے پر اصرار کیا تو وزیرِ اعلیٰ گنڈاپور کے ترجمان بیرسٹر سیف نے میڈیا کو بتایا کہ جناب عمران خان سنگجانی کے مقام پر دھرنا دینے کی بات مان چکے ہیں۔ شیر افضل مروت نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ میں اور علی امین گنڈاپور ڈی چوک میں احتجاج کے حق میں نہیں تھے‘‘۔ مبینہ طور پر عمران خان نے بیرسٹر گوہر کے موبائل فون میں یہ ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کروایا کہ سنگجانی کے مقام پر دھرنا دیا جائے مگر بشریٰ بی بی نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے سنگجانی کے مقام پر تنبو لگانے اور دو ہفتے تک بیٹھنے کی پیشکش کو ٹھکرانے کے پیچھے کیا عوامل تھے؟ پی ٹی آئی کے ورکرز آنسو گیس کے شیل برداشت کرتے ہوئے، ڈنڈے کھاتے اور رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے بھوکے پیاسے اسلام آباد تک آن پہنچے تھے۔ سنگجانی میں انہیں آرام مل جاتا۔ کچھ کھانے پینے کا بندوبست بھی ہو جاتا اور وہ آرام کر کے تازہ دم بھی ہو جاتے۔ مگر یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی گئی۔ ان ورکرز کو انسان سمجھنے کی بجائے استعمال ہونے والی چیز سمجھ کر برتا گیا۔ ڈی چوک میں ان کے لیے معمولی انتظام بھی نہیں کیا گیا تھا۔ انہیں تھکاوٹ کے باوجود بھوکے پیاسے سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے بٹھانے کے پیچھے کیا عوامل تھے؟ یہ سوال ایک لمبا عرصہ اٹھتے رہیں گے۔
عملی طور پر احتجاجی مظاہرے کی قیادت بشریٰ بی بی کے ہاتھ میں تھی۔ احتجاج میں شامل لوگ کسی اور لیڈر کی بات نہیں مان رہے تھے۔ بشریٰ بی بی نے عمران خان کی رہائی سے کم پر کوئی بات بھی ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے شروع ہوتے ہی سب سے پہلے بھاگنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جو علی امین گنڈاپور کو ہلنے بھی نہیں دے رہے تھے۔
حکومت کی جانب سے دوپہر کو دعویٰ کیا گیا تھا کہ آج رات کو بشریٰ بی بی اور علی امین کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ بظاہر یہ ایک واضح ٹارگٹ تھا لیکن حیرت انگیز طور پر آپریشن شروع ہوا تو بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور آسانی کے ساتھ’’ فرار‘‘ ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ سوال تو بنتا ہے کہ سب سے زیادہ مطلوب شخصیات کیسے فرار ہوئیں؟ مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں فرار ہوتے بھی کسی نے نہیں دیکھا۔ کوئی ویڈیو یا فوٹیج سامنے نہیں آئی۔ یہاں سابقہ سکرپٹ ہی دہرایا گیا اور فرار کے چند گھنٹے بعد دونوں ہستیوں کی رونمائی ہو گئی۔
اب لاکھ تاویلیں گھڑی جائیں۔ پی ٹی آئی ورکرز کو الف لیلوی کہانیاں سنائی جائیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ محترمہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کی فائنل کال کو بڑی کامیابی سے مس کال میں تبدیل کیا ہے۔ جناب علی امین گنڈاپور نے بھی ان کا ساتھ بخوبی نبھایا ہے۔ بدلے میں دونوں ہی فائدے میں رہیں گے۔ علی امین گنڈاپور کی وزارتِ اعلیٰ مزید محفوظ ہو جائے گی۔ ان پر قائم مقدمات بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے بشریٰ بی بی بھی اپنے مقدمات ختم کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔ پارٹی کی قیادت بھی فی الوقت انہی دونوں کے ہاتھ میں ہے۔ علیمہ خان کو بشریٰ بی بی نے نہایت ذہانت کے ساتھ اس احتجاج سے دور ہٹا دیا تھا۔ لیڈرشپ میں صرف وہی ایسی ہیں جو واقعی عمران خان کی رہائی چاہتی ہیں۔ باقی تمام لیڈرشپ عمران خان کو کیش کروا کر مراعات حاصل کر رہی ہے۔ رہے پی ٹی آئی کے وہ ورکرز جو اس ایڈونچر میں زخمی ہوئے یا جان سے گئے تو ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہی ہوا کرتا ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ مرکزی قائدین بذاتِ خود یا ان کی فیملیز اس احتجاج کا حصہ کیوں نہیں بنیں؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button