ترجیحات میں غلطی
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پُر امن احتجاج کرنا جمہوری روایات کا حصہ قرار دیا جاتا ہے چاہے کوئی بھی ہو احتجاج، مظاہرہ یا پھر دھرنا دیا ہو اسے جمہوری حق سمجھا جاتا ہے ، لیکن جب یہ احتجاج اپنے اثرات میں معاشرے کے دیگر پہلوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دے تو اس کے مقصد اور اہمیت پر سوال تو ضرور اٹھیں گے، بالخصوص ا ن حالات میں کہ جب اہم مہمانوں یا وفود کی آمد ہو یا پھر کوئی اہم تقریب منعقد کی جا رہی ہو اور عالمی میڈیا کی نگاہوں کا مرکز پاکستان بنا ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کی جانب سے جاری مظاہرے کا تسلسل سے ہونا، سوالیہ نشان اٹھاتا ہے بلخصوص اسے وقت جب ان کے اثرات سے عام آدمی سے لے کر معیشت، سماجی نظم و ضبط، اور قومی ساکھ تک ہر سطح پر محسوس کیے جا رہے ہوں۔ ان مظاہروں کے دوران سڑکوں کی بندش، دکانوں اور کاروبار کے بند ہونے، اور عام زندگی کے متاثر ہونے کا سب سے زیادہ نقصان بھی انہی لوگوں کو ہو رہا ہے جن کے حقوق کے نام پر یہ احتجاج کیا جا رہا ہے۔ دیہاڑی دار مزدور، جو دن بھر کام کر کے اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں، ان مظاہروں کی وجہ سے بے روزگار ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف، وہ شہری جو بیماروں کو ہسپتال لے جانے کے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں یا ضروری کاموں کے لیے باہر نکلنا چاہتے ہیں، احتجاج کی وجہ سے روکے جانے والے راستوں میں پھنس جاتے ہیں۔
ملک کی معیشت پُر تشدد مظاہروں کی وجہ سے شدید دبا کا شکار ہوجاتی ہے۔ صنعت اور زراعت جیسے اہم شعبے، جو پہلے ہی معاشی بحالی کے نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں، مزید مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں کی بندش اور غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاروں کے لئے بڑا امتحان ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں بھی ان سب کا نتیجہ براہ راست عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، جنہیں پہلے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں معیشت پہلے ہی بحرانوں کا شکار ہے، احتجاجی سرگرمیوں کی موجودہ روش ملک کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت کے خلاف بار بار کی جانے والی احتجاجی تحریکوں نے نہ صرف عوامی زندگی کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے بلکہ سرکاری وسائل پر بھی بھاری بوجھ منتقل کیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک کرنا، سیکورٹی کے انتظامات کرنا، اور عوامی مقامات کو محفوظ بنانا ریاستی خزانے پر اضافی دبا ڈال دیتا ہے۔
سیاسی پیچیدہ صورتحال میں، قانون نافذ کرنے والے ادارے، پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز، انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کام نہ صرف مظاہروں کو قابو میں رکھنا ہے بلکہ عوام کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی ہے۔ حکومت مظاہروں کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کرتی ہے، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات ہی اس لئے ہوتی ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ ملک دشمن عناصر نہ اٹھالیں۔ ان اہلکاروں کی کوشش ہوتی ہے کہ پرتشدد مظاہرین کو اس طرح قابو میں رکھا جائے کہ عوامی زندگی پر کم سے کم اثر پڑے۔ لیکن یہ کام آسان نہیں ہوتا۔ مظاہروں کے دوران جھڑپیں ہوتی ہیں، پتھرائو کیا جاتا ہے، اور بعض اوقات صورتحال پر قابو پانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو کس حد تک ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ؟ طاقت کے استعمال میں اعتدال اور مظاہرین کے ساتھ انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت پیش آنا نہایت اہم ہے۔ لیکن مظاہرین کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے احتجاج کا مقصد اگر عوام کے حقوق کا تحفظ ہے تو انہیں عوام کی زندگی کو مزید مشکل نہیں بنانا چاہیے۔ پر تشدد مظاہروں میں زخمی ہونے والے اہلکار اور مظاہرین، دونوں یکساں متاثر ہوتے ہیں۔ اہلکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کریں اور کسی بھی ممکنہ خطرے کو روکتے ہوئے ملکی امن کو بحال رکھیں۔ مظاہروں کے دوران، وہ طویل گھنٹوں تک ڈیوٹی دیتے ہیں، اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر نظم و ضبط قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ امر بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عوام ان کی حفاظت کے محتاج ہیں، اور ان کے اقدامات مظاہروں کو مزید پرتشدد بنانے کے بجائے مسئلے کے حل کی طرف لے جانے والے ہونے چاہئیں۔
مہذب معاشروں میں احتجاج جمہوری نظام کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن ان کے لیے ایسا نظام اور طریقہ کار وضع کیا جانا جو عام شہریوں کی زندگی کو متاثر نہ کرے۔ اس سے ایک طرف مظاہرین کو آزادی ملتی ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں، تو دوسری طرف عوام کو ان مظاہروں کے منفی اثرات سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ٹریفک جام، کاروباری سرگرمیوں کی بندش، اور روزمرہ کی زندگی میں خلل جیسے مسائل ان معاشروں میں تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور احتجاج کو آخری حل کے طور پر استعمال کرنے سے گریز کریں۔ احتجاج سے پہلے، مسائل کے حل کے لیے مذاکرات اور بات چیت کے راستے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ اگر مظاہرہ ناگزیر ہو بھی جائے، تو اسے اس طرح منظم کیا جائے کہ یہ معاشرتی اور معاشی نقصان کا سبب نہ بنے۔ حکومت کو بھی اپنی پالیسیوں میں ایسی گنجائش پیدا کرنی ہوگی جو عوامی شکایات کا فوری اور موثر حل پیش کرے تاکہ احتجاج کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اس کے ساتھ ساتھ، مظاہرین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف وہ مسائل حل ہونے میں تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ عام عوام کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ دھرنا اور احتجاج کے مقامات عوامی نقل و حرکت اور کاروباری سرگرمیوں سے دور ہونے چاہئیں، اس طرح کے اقدامات شہری زندگی کو درہم برہم ہونے سے بچا سکتے ہیں اور سیکورٹی فورسز کو غیر ضروری طور پر متحرک کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔
پرامن احتجاج جمہوریت کی خوبصورتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے لیے پورے ملک کو مفلوج کر دیا جائے۔ مظاہروں کے لیے ایک منظم اور مہذب طریقہ کار ہی عوام، حکومت، اور مظاہرین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ سیاستدانوں، سول سوسائٹی، اور عوام کو مل کر اس سمت میں قدم اٹھانے ہوں گے تاکہ احتجاج ایک تعمیری سرگرمی بن سکے۔ تمام فریقین بشمول حکومت، اپوزیشن، اور عوام ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس بحران کا حل تلاش کریں۔ مظاہروں کا مقصد عوام کے حقوق کا تحفظ ہے، لیکن جب یہ مظاہرے خود عوام کی زندگی کو اجیرن بنانا شروع کر دیں، تو یہ سوچنا ضروری ہو جاتا ہے کہ کہیں ہم اپنی ترجیحات میں غلطی تو نہیں کر رہے؟ ۔