اختلافات میں شدت پسندی کیوں؟
تجمّل حسین ہاشمی
لوگوں کو ماضی کی محبتیں آج بھی یاد ہیں لیکن شدت پسندی میں مسلسل اضافہ ہے، کسی کی بات برداشت نہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے وفا چاہتا ہے لیکن خود بے وفائی کا ماسٹر ہے۔ اپنے عمل پر نظرثانی کیلئے تیار نہیں۔ پھر بھلا دوسروں کے رویہ سے شکایت کیسی جب کہ خود دوسرے کے مال و عزت کی کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے یاد ہے میرے گائوں میں جب کسی کی شادی ہوتی تو دور دراز علاقوں سے مہمان کئی روز پہلے آنا شروع ہو جاتے۔ بارات، ولیمہ کے دن ہر گھر سے چار پائی (منجی) اور بسترا اکٹھا کیا جاتا تھا، صبح سویرے ہر گھر سے دودھ دہی اکٹھا کیا جاتا، شادی پر آئے مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کی جاتی تھی۔ روزمرہ مہمان کیلئے زندہ مرغی ادھار مل جاتی تھی۔ زندگی مل بانٹ کر گزارتے۔ لوگ ایک دوسرے کے دکھوں کا مداوا کرتے تھے۔ کسی کی طبیعت خراب ہو جاتی تو کئی کلومیٹر پیدل چار پائی پر ڈال کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتے تھے۔ کسی کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ محبت، ہمدردی، بھائی چارا اور اپنائیت کا احساس تھا۔ کسی طرح کی کوئی تقسیم، تفرقہ نہیں تھا۔ سب گھر ایک دوسرے کے احساس مند تھے۔ دکھ اکٹھا بانٹا جاتا۔ لوگوں ایک دوسرے کے حق میں دعا کرتے۔ اپنے پرکھوں، ابائواجداد کی رسوم و رواج کو یاد رکھتے۔ بڑوں کی عزت کو مقدم رکھا جاتا تھا۔ ڈیروں، درگاہوں اور خانگاہوں پر مسافروں کے آرام و طعام کا بندوبست ہوتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنتے، ایک دوسرے کے قریب رہنا چاہتے تھے، تعلق کو اہمیت دیتے لیکن تعلیم و ترقی اور تیز ترین ٹیکنالوجی نے آج لوگوں کو ڈس آرڈر کر دیا ہے جس سے قوم، معاشرہ کئی حصوں میں بٹ چکے ہیں۔ پہلے وقتوں کے اصول، سب طور طریقے تبدیل ہوچکے ہیں، آج لوگوں نے خود کو کمروں میں بند کرلیا ہے، بند کمروں میں رہنا چاہتے ہیں، بیمار انسان بھی کمرہ میں بند چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں زیادہ نقصان ترقی پذیر ممالک کا ہے، جہاں تیز رفتاری سے انسانی دوری میں اضافہ کے باعث روزمرہ کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے سخت نظام عدل کے ساتھ ساتھ انسانی تربیت پر کام کیا ہے، وہاں کے معاشرہ میں فرد کے چہروں پر مسکراہٹ ہے۔ وہاں ریاست ذمہ دار ہے۔ وہاں سیاسی نعروں سے لوگوں مشتعل نہیں ہوتے، جھوٹے بیانیوں پر انتخابات منعقد نہیں ہوتے۔ وہاں حقوق پامال نہیں ہوتے۔ وہاں لیڈر کرپٹ نہیں ہوتے۔ ترقی پذیر ممالک اور خاص کر ہمارے جیسے ملک میں سیاست نے بغاوت کو جنم دیا ہے، توڑپھوڑ اور مرنے مارنے والی تقریروں نے شدت پسندی جیسے رجحانات کو بڑھاوا دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کی آبیاری کیلئے معاشرہ کو تقسیم کیا ہے۔ غیرملکی طاقتوں کی دراندازی میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں تقسیم اور تفریق کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن ہمارے ہاں ادارے بھی اس کام میں پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے بھی عدل و انصاف کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے بانی نے اس معاشرتی تفریق و تقسیم کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ اس وقت لوگوں میں دوریاں ہیں۔ یہ دوریاں ان سیاسی لیڈروں کی پیدا کردہ ہیں۔ اب یہ سیاسی میدانوں سے نکل کر گھروں، خاندانوں تک پہنچ گئی ہیں۔ اب سیاسی جیالے خودکش بن چکے ہیں۔ اپنے مطلب کی بات سنانا اور کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورتحال پیدا ہونے میں کار فرما عوامل میں عدل و انصاف کا نہ ہونا ہے، قانون کی عمل داری پر سوالات ہیں۔ آج خان، نواز اور بی بی کا جیالا مرنے مارنے کے نعرے لگا رہا ہے۔ یہ جماعتیں ایسی سوچ کے حامل جیالوں کو کیسے بدل سکیں گی، حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے بانی ملک سے باہر جا چکے ہیں اور ساتھ میں ان کی بیٹی وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہمراہ ہیں، ایسے دورے قابل تنقید ہیں کیوں کہ نجات ہندہ کہلوانے کیلئے آپ کو عوامی مشکلات کے ساتھ کھڑے رہنا پڑے گا۔ اپنی آسانی کیلئے لندن علاج اور ووٹر ہسپتالوں کے فرش پر بے بس پڑے ہیں۔ عوام نے تو اپنے ووٹ سے فیصلہ دیدیا تھا لیکن فارم 47والوں کو ان منتخب نمائندوں سے کوئی بڑی عوامی خدمات لینے کا پروگرام تھا لیکن پچھلے ڈیڑھ سال سے کوئی اہم معاشی پلان سامنے نہیں آیا، دن بدن سٹاک ایکسچینج میں اضافہ اور شرح سود میں کمی کے بعد بھی مارکیٹ جمود کا شکار ہے۔ حل تجویز کرنیوالے کے پاس فی الحال کو پلان نہیں ہے جس کا برملا اظہار وزیر خزانہ کر چکے ہیں کہ ملک قرضوں سے نہیں چلتے بلکہ ٹیکسز سے چلتے ہیں لیکن محترم جناب وزیر خزانہ تھوڑی ہمت کریں تو ان طاقتوروں کے گوشوارے ہی پبلش کرکے دکھا دیں۔ جب ملک میں ایسی صورتحال ہو گی کہ آپ صرف باتیں بنا کر وقت گزاری کریں گے تو پھر حالات کیسے بہتر ہوں گے؟ فیصلہ ساز خود کو تبدیل کرنا نہیں چاہتے تو پھر غریب کی تبدیلی سے کیا ہوگا؟ جس کے پاس روزگار نہیں، بجلی کے بل کے پیسے نہیں۔ پچوں کی سکول کی فیس نہیں ہے، حکومتی پالیسیوں اور انصافیوں سے شدت پسندی ہٹ دھرمی میں اضافہ پیدا ہوا ہے۔ کوئی خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہے، ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں پڑ گیا ہے، اسیی صورتحال ملک کے جی ڈی پی کی گروتھ میں کمی کا موجب بنے گی۔