ستارہ ہوں مگر ڈوبا ہوا ہوں
شہر خواب
صفدر علی حیدری
لوگ کہتے ہیں کامیابی صرف محنت سے ملتی ہے مگر ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اسے خوش قسمتی سے جوڑتے ہیں ۔
شاعر نے بھی تو کہا ہے
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
گویا جو خوش قسمت ہوتے ہیں، ان کو یونہی چلتے چلتے منزل مل جاتی ہیں اور جو خوش نصیب نہیں ہوتے ان کے ہونٹوں پر یہ خواہش مچلتی رہتی ہے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
مگر شاید ان کی عمر سفر میں گزر جاتی ہے اور منزل انھیں مل نہیں پاتی ۔ آج یہ فرض کیے دیتے ہیں کہ کامیابی محنت سے زیادہ خوش قسمتی سے ملتی ہے ۔ سو آج قسمت کے حوالے سے کچھ لوگوں کا ذکر کرتے ہیں ۔
کرکٹ کے کچھ ایسے کھلاڑیوں کا ذکر کیا جائے جو خوش قسمت تو تھے ہی کہ قومی ٹیم کے دروازے ان کے لیے کھل گئے مگر وہ بد قسمت بھی تھے ۔ کرکٹ کے افق پر چمکے ضرور مگر بوجوہ اتنا روشن نہ سکے جتنا ان میں اہلیت تھی، ان میں سب سے پہلا نمبر محمد آصف کا ہے ۔ محمد آصف ایک ایسے بائولر تھے جن کی بائولنگ کی تعریف مخالف ٹیم کے کپتان بھی کیے بنا نہ رہ سکے۔ عظیم کھلاڑی عمران خان ، وسیم اکرم ، وقار یونس ، شعیب اختر اس کی تعریف میں رطب اللسان نظر آئے مگر افسوس وہ جس قدر تیزی سے دنیائے کرکٹ کے افق پر ابھرا اتنا ہی تیزی سے ڈوب گیا۔ اس کا کیرئیر تنازعات کی دلدل میں ایسا پھنسا کہ پھر وہ کبھی اس دلدل سے باہر نہ آ سکا۔ قسمت کی دیوی ابھی پوری طرح مہربان بھی نہ ہوئی تھی کہ آصف ڈوپنگ سکینڈل میں جکڑے گئے۔ انہیں پہلے تو ایک سال کی پابندی کی سزا ملی تاہم اپیلیٹ ٹریبونل کی مہربانی سے یہ سزا ختم ہوئی لیکن 2008ء میں انڈین پریمیر لیگ کھیل کر بھارت سے واپس آتے ہوئے وہ دبئی میں منشیات رکھنے کے جرم میں پکڑے گئے اور کئی روز وہاں پابند رہنے کے بعد سفارتی کوششوں سے ان کی واپسی ہوئی۔ انڈین پریمیر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں جب پہلی بار کھلاڑیوں کی نیلامی کی بات ہوئی تو کچھ کرکٹ حلقوں نے اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ جب اس سے پوچھا کہ نیلامی تو بے جان چیزوں کی ہوتی ہے، آپ کو اپنے لیے نیلامی کا لفظ آپ کو برا نہیں لگا تو محمد آصف کا جواب تھا کہ نہیں، انہیں اس لفظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی ان کے نزدیک پیسے کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ اس کے لیے ان کو نیلام ہونا بھی گوارا تھا ۔ اس کے بعد بھی بد قسمتی نے اُن کا پیچھا نہ چھوڑا اور آئی پی ایل میں لیے گئے ڈوپ ٹیسٹ میں وہ ایک بار پھر ممنوعہ دوا کے استعمال میں مثبت پائے گئے اور اس بار معاملہ چونکہ گھر میں نہیں بلکہ دوسرے ملک میں تھا اس لیے انہیں ایک سال کی پابندی کی سزا ملی۔ اس سزا کو بھگتنے کے بعد 2009ء میں ان کی ٹیم میں واپسی تو ہوئی لیکن چونکہ ان پر متحدہ عرب امارات میں داخلے پر پابندی تھی اس لیے وہ پاکستان کے لیے وہاں کھیل نہیں سکتے تھے۔ کرکٹ میں دوبارہ آئے ابھی سال بھی نہیں ہوا تھا کہ انگلینڈ میں جولائی 2010ء میں ہونے والا لارڈز ٹیسٹ ان کا آخری میچ ثابت ہوا ۔ اتنی بار قسمت سے دھوکہ کھانے والے محمد آصف نے نو بال کراتے ہوئے ایک بار بھی نہ سوچا ہو گا کہ یہ بری قسمت پھر ان کے آڑے آئے گی اور اس بار تو ان کا سب کچھ اُجڑ جائے گا اور واپسی کے تمام راستے مقفّل ہو جائیں گے ۔ آصف کرکٹ کے کھیل میں تو ہمیشہ متنازعہ رہے ہی کرکٹ کے باہر بھی ان کی ذاتی زندگی کئی طرح کے سکینڈلز میں الجھی رہی جن میں اداکارائوں کے ساتھ سکینڈل اور اسی سلسلے میں کچھ لوگوں سے ہاتھا پائی تک کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ فلموں اور ٹی وی کی فنکارہ وینا ملک سے ان کے مبینہ نکاح نے بھی ان سے متعلقہ خبروں کو گرم رکھا ۔ وینا ملک نے ان پر ایک خطیر رقم ہتھیانے کا الزام بھی عائد کیا۔ وینا نے آصف سے قطع تعلق کے بعد کئی بار نجی طور پر اور کئی بار آن ریکارڈ ان کے غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے انکشافات کیے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا یا بگاڑتا ہے۔ محمد آصف کے معاملے میں ان کی قسمت تو نا مہربان تھی ہی لیکن خود آصف نے بھی خود کو ہر طرح کے مسئلوں میں الجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ یوں ایک باکمال کھلاڑی صرف تئیس ٹیسٹ ( 106وکٹیں ) ، اڑتیس ون ڈے ( 46وکٹیں ) اور گیارہ ٹی ٹونٹی ( 13وکٹیں ) ہی کھیل سکا۔ ایک اور مثال محمد زاہد کی ہے جو شعیب اختر کی طرح تیز رفتار بائولر تھا۔ جس نے لارا جیسے کھلاڑی کو للکارا کے آئوٹ کیا ۔ یہ ستارہ بھی اپنی چمک دمک نہ دکھا سکا اور کمر کی تکلیف میں مبتلا ہو کر کرکٹ کی دنیا سے باہر ہو گیا ۔ گم نامی کے بادلوں نے اس کے گرد گھیرا ڈال لیا ۔ یوں یہ مایہ ناز بائولر صرف پانچ ٹیسٹ اور گیارہ ایک روزہ میچ کھیل کر کرکٹ کے میدانوں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا ، اس فہرست میں ایک اور نام کے پی کے سے تعلق رکھنے والے یاسر حمید کا ہے۔ جس نے اپنے پہلے ہی میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف سنچری سکور کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی قومی ٹیم کا لازمی حصہ بن گئے ۔ اٹھان بتاتی تھی کہ وہ مستقبل کا سپر سٹار بنے گا مگر وہ صرف 25ٹیسٹ اور 56ون ڈے ہی کھیل پایا اور کرکٹ کے میدانوں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ آج کل وہ کوچنگ کورسز کر رہا ہے۔ زاہد فضل بھی اس فہرست کا حصہ ہیں جن کے بارے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ انضمام الحق سے بھی بڑا کھلاڑی ہے اور بہت جلد اس کو پیچھے چھوڑ جائے گا مگر ۔۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ شارجہ میں ایک میچ کے دوران جب اس کا سکور اٹھانوے رنز ہوا تو وہ ان فٹ ہو گیا۔ اسے سٹریچر پر اٹھا کر میدان سے باہر لے جایا گیا اور پھر وہ دوبارہ کھیل کے میدان میں واپس نہ آ سکا۔ وہ اپنے مختصر سے کیرئیر میں صرف 9ٹیسٹ اور 19ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیل سکا۔ مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ پاکستان کا سب سے بہترین فیلڈر کون ہے تو میں بلا جھجھک کہوں گا عمران نذیر۔ اس کے جسم میں بلاشبہ بجلی بھری ہوئی تھی۔ وہ ایک شان دار جارح مزاج بلے باز بھی تھا مگر وہ زیادہ عرصہ نہ کھیل سکا۔ اس نے اپنے مختصر سے کیرئیر میں کل 8ٹیسٹ، 79ون ڈے اور 25ٹی ٹونٹی میچ ہی کھیل سکا۔14سال اور 233 دن کی عمر میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے حسن رضا کو دنیا کے کم عمر ترین ٹیسٹ کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہی اس کا وائس عالمی ریکارڈ ہے۔ ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کا دل کرتا ہے جس نے ایک نوجوان کے کیرئیر کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ جب بیس بائیس کا ہوا تو بہت اچھی بیٹنگ کرنے لگا تھا مگر تب تک کرکٹ کے دروازے اس پر بند ہو چکے تھے۔ وہ صرف 7ٹیسٹ اور 19ون ڈے کھیل سکا۔ وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ان کی موجودگی میں ساڑھے پانچ سال تک کوئی اور کھلاڑی ٹیسٹ میں پانچ وکٹ نہ لے سکا۔ ایک دن اچانک ایک نئے کھلاڑی نے پانچ وکٹ لے کر سب کو حیران کر ڈالا۔ یہ عامر نذیر تھا۔ اس نے برائن چارلس لارا کو ایک سے زیادہ بار بولڈ کر تہلکہ مچا دیا۔ کرکٹ کے پنڈٹ اس کے روشن مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے لگے مگر یہ ستارہ بھی جلد ڈوب گیا۔ وہ بس 6ٹیسٹ اور 9ون ڈے کھیل پایا۔ گورے کسی ایشیائی کھلاڑی کو ابھرتا دیکھیں تو انھیں پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں، سو وہ مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے اس کو میدان سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ مرلی دھرن دعا دے رانا ٹنگا کو جو احتجاجاً اپنی ٹیم کو باہر لے گیا اور یوں مرلی کا کیرئیر بچ گیا۔ پاکستان کے سعید اجمل مگر بدقسمت کھلاڑی ثابت ہوئے۔ ان کو اپنے عروج میں کرکٹ کے میدانوں کو چھوڑنا پڑا۔ ایک بڑا کھلاڑی دنیا کو اپنے کمالات نہ دکھا پایا اور جلد کرکٹ کا میدان چھوڑ گیا ۔ 35ٹیسٹ میچوں میں 178وکٹیں اور 113ون ڈے میچوں میں 184وکٹیں اس کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 20ویں ٹیسٹ میں، اجمل 100ء ٹیسٹ وکٹیں لینے والے تیز ترین پاکستانی ہیں۔ پاکستان ٹیم 1987میں انڈیا کے دورے پر تھی کہ ٹیم کے کپتان نے ایک اسپنر کو انڈیا بلوا لیا۔ یہ اعجاز فقیہہ تھے جنہوں نے پہلے ہی اوور میں نہ صرف وکٹ لی بلکہ اس ٹیسٹ میں سنچری بھی اسکور کر ڈالی۔ وہ اگلے میچ میں ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ پھر کبھی ہم نے انھیں کھیل کے میدان میں پاکستان کی نمائندگی کرتے نہیں دیکھا ۔ وہ اپنے کیریئر میں محض 5ٹیسٹ اور 27ایک روزہ میچ ہی کھیل سکے۔ قاسم عمر اور یونس احمد بھی ان بدقسمت کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو منزل پر آ کر بھی اپنا نقش تا دیر قائم نہ رکھ سکے ۔ باسط علی اور راشد لطیف بھی بوجوہ زیادہ عرصہ نہ کھیل سکے۔ باسط علی میں میدان کا رنگ نمایاں تھا جبکہ راشد اور معین خان میں ٹائی پڑ گیا تھا۔ راشد کیپنگ میں بہتر تھے تو معین خان بیٹنگ میں ۔ دانش کنیریا ، سلمان بٹ ، محمد عامر ایسے کھلاڑی تھے جنہیں میچ فکسنگ لے ڈوبی۔ ہمارا بورڈ نوجوان کھلاڑیوں کی اخلاقی تربیت پر کوئی توجہ دیتا تو ملک کو اس قدر بدنامی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ،آخر میں میں سعید انور کا ذکر ضرور کروں گا جو میرا فیورٹ کھلاڑی تھا ۔ ایک مایہ ناز کھلاڑی۔ پاکستان کی آل ٹائم ٹیسٹ اور ون ڈے الیون منتخب کی جائے تو وہ دونوں ٹیموں کا حصہ ہو گا۔ وہ دنیا کا مایہ ناز کھلاڑی تھا مگر انیس سو چھیانوے میں آسٹریلیا میں اسے وائرل انفیکشن ہوا جو اس کے کیرئیر کو دھندلا گیا۔ وہ فٹنس کے لحاظ سے اپنے ساتھی کھلاڑیوں میں سے سب آخری نمبر پر تھا۔ کاش وہ فٹ رہتا تو ٹیسٹ اور ون ڈے کے سبھی ریکارڈ اس کے نام ہوتے ( کم از کم پاکستان کی حد تک )، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔