Column

ایک سیکرٹری اور پوری اسمبلی

میری بات
روہیل اکبر
جب الیکشن آتے ہیں تو ہمارے تقریبا ہر سیاستدان کے پوسٹر، سٹکر اور بینر پر ایک لفظ لازمی لکھا ہوا تا ہے بے داغ ماضی روشن مستقبل اور واقعی ہمارے سیاستدانوں نے ابھی تک تو مل جل کر اپنے ماضی کو بے داغ اور مستقبل روشن ہی رکھا ہوا ہے حالانکہ ان میں سے اکثر پر کرپشن کے الزامات ہیں اور بہت سے سیاستدان جیلوں میں بھی رہ آئے ہیں اگر ہم انکی دولت کا اندازہ لگائیں تو سیاست میں آنے سے پہلے اور اب ان کے اثاثوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور انہی کی دیکھا دیکھی ہمارے بیوروکریٹ بھی انہی کے نقش قدم پر گامزن ہیں اگر کسی کے اندر ملک و قوم کا درد ہوتا ہے تو وہ اس درد کو اپنی سانسوں میں بسا کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے لیکن اند ہی اندر وہ تڑپ رہا ہوتا ہے کہ میرے ملک کے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے اگر یہ ظلم کسی کی برداشت سے باہر ہو جائے اور وہ وزیروں اور مشیروں کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کر دے تو پھر اسے نشان عبرت بنانے کے لیے پورا گھر اکٹھا ہو جاتا ہے کہ یہ سب سے الگ کہاں سے آگیا ملک کے برباد ہونے اور لوگوں کے اجڑنے کا درد اسی کے اندر ہوگا جس نے پاکستان کو بنتے دیکھا جس کے خاندان نے قربانیاں دی اور تقسیم کے وقت جنکے سامنے معصوم بچوں کو نیزے کی انیوں پی اچھالا گیا مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں لوٹی گئی اور ملک کی محبت میں بہن بھائیوں، والدین اور بچوں سے جدا ہونا پڑا قربانیوں کی ایک طویل مسافت طے کرنے کے بعد پاکستان پہنچنے والے پھر بھی خوش تھے کہ اب اپنا ملک ہے جہاں ہر طرف خوشحالی ہوگی اور اب کسی کو ذلیل و رسوا نہیں ہونا پڑے گا ہر کسی کو حق اس کی دہلیز پر ملے گا یہ ایسا ملک ہوگا جہاں ہر کام میرٹ پر ہوگا جہاں ایماندار کو سزا نہیں بلکہ انعام ملے گا اور ملک لوٹنے والوں کو الٹا لٹکا دیا جائے پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جہاں غربت کے ہاتھوں تنگ آکر کوئی خود کشی نہیں کرے گا کوئی کسی وڈیرے، جاگیر دار اور حکمران کے ظلم سے تنگ آکر مظلوم نہیں بنے گا پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جہاں تھانوں میں جھوٹے مقدمات درج نہیں ہونگے اور کرپشن میں ڈوبے ہوئے پولیس والے نہیں ہونگے ہمارا نظام انصاف ایسا نہیں ہوگا کہ ہم دنیا کے آخری نمبروں میں ملک سکیں اور ہمارا نظام تعلیم طبقاتی نہ ہو جہاں امیر کے لیے تعلیم کا پیمانہ اور ہو اور غریب کے لیے اور ہمارا نظام حکومت ایسا نہ ہو جیسا اب بن چکا ہے کہ ایک ایماندار، محب وطن اور درد دل رکھنے والے سیکرٹری کے خلاف پوری اسمبلی مل جائے اور باقاعدہ افسروں کو دکھانے کے لیے اسے سزا دیدی جائے تاکہ باقیوں کو کان ہو جائیں، بابر امان بابر جیسے افسر ہماری بیورو کرسی کی نہ صرف شان ہیں بلکہ وہ اس گندے اور جلے سڑے نظام میں امید کی کرن اور روشن صبح کی چنگاری ہیں جن کے حوصلے سے بہت سے اور لوگ بھی ہمت پکڑیں گے شائد ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے آج تک پاکستان ہم جیسوں کے لیے بھی محفوظ ہے ورنہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والا کب محفوظ رہتا ہے بابر امان بابر کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کیا گیا یہ ایک لمبی داستان ہے اس پھر تفصیل سے لکھوں گا ابھی تو ملک میں آلودگی کا موسم چل رہا ہے اور لاہور نے تو تاریخ رقم کردی گندگی کے حوالے سے جو پورے پنجاب سے یہاں پہنچی ہوئی ہے اور اسی فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے ہماری وزیر اعلیٰ بھی پرفضا مقام یعنی بیرون ملک چلی گئی ہیں محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ ایک طرح سے سمجھدار خاتون ہیں جو ملکی معاملات کی خاطر کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتیں۔ موصوف وزیر معدنیات شیر علی گورچانی کی جب لینے دینے کے معاملہ پر مبینہ ویڈیو لیک ہوئی تو اس پر وزیر اعلیٰ نے کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن انہوں نے وزیر صاحب کی شکایت پر سیکرٹری معدنیات کو بھی تبدیل نہیں کیا لیکن جیسے ہی وزیر اعلیٰ ملک سے باہر گئی تو اسمبلی کے ذریعے سیکرٹری معدنیات کو ہٹا دیا گیا بات پھر وہی پر آگئی خیر سے ہمارے سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی سوئٹزرلینڈ میں ہیں جو علاج کرانے کی غرض سے گئے ہیں مگر علاج شائد بینک اکائونٹ یا اثاثوں کا ہے ورنہ انسانی علاج تو کئی دوسرے ممالک میں ہو جاتا اگر مال و دولت کا علاج ہو یا بہت زیادہ دولت بڑھ گئی ہو تو پھر سوئٹزر لینڈ ہی جانا پڑتا ہے کیونکہ دنیا بھر کے ایسے لوگوں کی دولت یہی ہوتی ہے جو غیر قانونی طریقے سے کماتے ہیں ہمارے حکمران اور لیڈر تو ماشاء اللہ ویسے بھی خاندانی امیر ہیں انہیں کرپشن کرنے کی ضرورت ہی نہیں اپنے پیسے سے دنیا گھومیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اعتراض اس وقت ہوتا ہے جب کچھ لوگ ہمارے حکمرانوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتے ہیں ہماری چیف منسٹر صاحبہ باہر اپنے والد صاحب کے ساتھ تھیں کسی نے جملے کسے اور فارم سنتالیس کی وزیر اعلیٰ کہا میں بطور ایک انسان اس بات کی مذمت کرتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے ہم انسان ہیں غلطیاں کر جاتے ہیں یہاں پر تو ایک پٹواری سے لیکر اوپر تک سبھی عام لوگوں کے کپڑے اتارنے میں مصروف ہیں ہاں کپڑوں سے یاد آیا کہ ہمارے وزیر اعظم نے بھی اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو خوشیاں دینے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ خوشیاں ہم سے روٹھ چکی ہیں ہر طرف مہنگائی اور جبر کا موسم تو تھا ہی ساتھ میں یہ آلودہ فضا نے ہمارا جینا مشکل کر دیا ہے سموگ نے عام شہریوں کی عمریں 7سال کم کردی ہیں اور اس کے تدارک کے لیے حکومتی کارروائیاں صفر نظر آتی ہیں ہاں اگر کسی سیکرٹری کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہو تو پھر اس کے لیے پنجاب اسمبلی میں سبھی بڑے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب معاملہ عام لوگوں کی صحت کا ہو تو پھر اس پر کوئی عملی کام کرنے کی بجائے لمبی لمبی تقریریں کرکے عوام کو تسلی ضرور دی جاتی ہے اور رہی بات بے داغ ماضی اور روشن مستقبل اسکی زندہ مثال اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ بابر امان بابر کو دیکھ لے۔
علامہ اقبالؒ کا جنم دن تھا تو انہی کا ایک شعر سب پڑھنے والوں کی نظر
اللہ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button