ہیرس کی کامیابی ایک بڑا سرپرائز ؟
قادر خان یوسف زئی
جیسے جیسے 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات قریب آ رہے تھے، ریاستہائے متحدہ میں سیاسی منظرنامہ ایک انتہائی غیر یقینی اور مقابلہ جاتی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔5نومبر کا دن امریکی تاریخ کے ایک ایسے لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کے اثرات امریکہ کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوں گے۔ اس دوڑ میں نمایاں امیدواروں میں، نائب صدر کملا ہیرس ایک ایسی شخصیت کے طور پر ابھری جن کے سامنے کئی چیلنجز اور مواقع موجود ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کملا ہیرس، ڈونلڈ ٹرمپ جیسے متنازع اور معروف سیاستدان کو شکست دے سکیں گی؟ کیا وہ ووٹرز کی حمایت پر بھروسہ کر سکتی ہیں؟ اور کیا وہ ہلیری کلنٹن جیسی تجربہ کار سیاستدان کی شکست کے بجائے تاریخ کو کامیابی میں بدل سکتی ہیں؟ اگرچہ ان سوالات کے جوابات فی الحال واضح نہیں ہیں، تاہم یہ امر عیاں ہے کہ اگر ہیرس کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ ایک بڑا سرپرائز ہوگا، خاص طور پر اس امر کے پیش نظر کہ پچھلے تین برسوں میں ان کی چمک کافی مدھم رہی ہے۔
آج5نومبر 2024ء کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کی تیاریوں میں دونوں امیدواروں، ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس، کے درمیان ایک دلچسپ اور سنجیدہ مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں، مختلف پولنگ اداروں نے ٹرمپ اور ہیرس کے درمیان ہونے والے ممکنہ مقابلے کے بارے میں اپنی پیش گوئیاں جاری کی ہیں۔ اس وقت، ٹرمپ کی حمایت میں کافی اضافہ نظر آ رہا ہے، جس کی وجہ ان کی مقبولیت میں اضافے کو قرار دیا جارہا ہے۔ اگرچہ ہیرس بھی اپنی مہم کے دوران کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں، لیکن عمومی طور پر ان کی حمایت میں باریک کمزوری کا احساس بھی نمایاں نظر آرہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کر دئیے والے مہم نے حالیہ دنوں میں مخالفین کے بیانیہ میں اپنی گرفت اور صلاحیت کو اجاگر کیا ہے، معیشت، مہنگائی، اور قومی سلامتی میں ’’ سب سے پہلے امریکہ ‘‘ جیسا مضبوط بیانیہ شامل ہے۔ ان کی سیاسی حکمت عملی کا ایک بڑا حصہ ان کی روایتی حامی ووٹر بیس کو مزید مستحکم کرنا رہاہے۔ ٹرمپ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے حامیوں کے ساتھ گہرے تعلقات بناتے ہیں اور ان کے مسائل کو براہ راست پیش کرتے ہیں۔ وہ ہیرس کے خلاف ایک مضبوط حریف کے طور پر ابھرے ہیں۔ گو کہ وہ امریکی تاریخ کے متنازع ترین صدر و امیدوار بھی بن کر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ۔
دوسری جانب، کملا ہیرس نے اپنی مہم میں عوامی مسائل کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائی ہے۔ ان کی توجہ سوشل انصاف، صحت کی دیکھ بھال، اور اقتصادی مواقع فراہم کرنے کے وعدوں پر مرکوز رہی ہے۔ حالیہ پولز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خواتین، نوجوانوں، اور اقلیتوں کے ووٹروں میں ایک مضبوط بنیاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم، ان کی حمایت میں کمی بیشی سے انہیں چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ جیسے جیسے انتخابی دن قریب آتا گیا، دونوں امیدواروں کی مہمات کی حکمت عملی اور تند و تیز بیانات میں بھی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی۔ ٹرمپ کی مہم نے اپنی توانائی کو اپنی بنیاد کو مستحکم کرنے میں صرف کیا ہے، جبکہ ہیرس کو ممکنہ طور پر اپنے پیغام کی وضاحت اور عوامی رابطے کو بڑھانے کی کوشش کرتی نظر آئیں۔
5 نومبر کا انتخابی دن ایک ایسے لمحے کی عکاسی کرے گا جہاں عوامی تائید، پولنگ کے نتائج، اور سیاسی حکمت عملیوں کا اثر واضح طور پر سامنے آئے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان یہ مقابلہ نہ صرف ان کے مستقبل کے لیے اہم ہوگا، بلکہ یہ بھی ظاہر کرے گا کہ امریکی ووٹرز کی موجودہ صورتحال اور ترجیحات کیا ہیں۔ نتیجے کے طور پر، 5نومبر کا دن ایک اہم موقع ہے جہاں ووٹرز اپنی پسند کے امیدوار کا انتخاب کریں گے، جو امریکہ کی سمت کا تعین کرے گا۔ اس روز کی سیاسی محفل میں کون کامیاب ہوگا، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ انتخابی دوڑ ایک نئی سمت کی طرف لے جا سکتی ہے۔ صدارتی انتخابات کے تناظر میں سیاسی ماحول انتہائی متحرک ہے۔ ٹرمپ کی صدارت کے اثرات ابھی بھی محسوس ہو رہے ہیں، اور ووٹرز ایک ایسے منظرنامے میں چل رہے ہیں جو گہرے سیاسی اختلافات، اقتصادی عدم یقینی، اور سماجی مسائل سے بھرپور ہے جو مسلسل بحث و مباحثے کا سبب بن رہے ہیں۔ ٹرمپ کا اثر و رسوخ اب بھی مضبوط ہے، اور ان کا پیروکار طبقہ ان کی پالیسیوں اور طرز حکمرانی پر ایمان رکھتا ہے۔
دوسری جانب، کملا ہیرس، جو 2021سے نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں، کو ایک پیچیدہ سیاسی حقیقت کا سامنا ہے۔ ایک ایسے ملک کی پہلی خاتون نائب صدر ہونے کے ناطے، ہیرس نے اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ تاہم، ان کا دور اقتدار تنازعات سے پاک نہیں رہا۔ امیگریشن پالیسی، معیشت، اور جرائم جیسے مسائل نے انہیں دونوں سیاسی دھاروں کی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کردار اکثر صدر جو بائیڈن کی قیادت اور وسیع تر ڈیمو کریٹک ایجنڈے کے سائے میں دب گیا ہے، جو ان کی امیدوار کی حیثیت سے نظر آنے میں مشکل پیدا کرتا ہے۔ ہیرس کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ رہا کہ ان کی حیثیت ایک امیدوار کے طور پر کم نظر آ ئی۔ بائیڈن کے 2020ء کے انتخابی مہم کے برعکس، جس میں انہیں ایک مضبوط قومی موجودگی حاصل تھی، ہیرس کی چمک اس قدر زیادہ نہیں رہی کہ وہ لوگوں کے دلوں میں ایک مضبوط تاثر قائم کر سکیں۔ ہیرس کو عوامی تاثر کے دوہرے چیلنج کا سامنا ہے۔ انہیں نہ صرف سیاسی تجربے کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنا تھے بلکہ اپنے قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں بھی قیاس آرائیوں کا سامنا رہا۔ اگرچہ ان کے پاس سینیٹر اور اٹارنی جنرل کی حیثیت سے اہم کامیابیاں ہیں، لیکن ایک امیدوار کے طور پر ان کی قابلیت کے بارے میں خدشات باقی رہے۔
کئی لحاظ سے، کملا ہیرس کی صورتحال ہلیری کلنٹن کی 2016ء کی امیدوار کی حیثیت سے کیمپین سے مشابہت رکھتی ہے۔ کلنٹن، جو امریکی سیاست میں ایک معروف شخصیت ہیں، کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں جنس کی تفریق اور پاپولزم کا ابھار شامل ہے۔ اگرچہ ہلیری کلنٹن کے پاس وسیع سیاسی تجربہ تھا، ان کی امیدوار کی حیثیت بھی کافی شک و شبہات کا شکار رہی، اور ان کی شکست نے امریکی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ کا اشارہ کیا۔ اگرچہ یہ اب بھی غیر یقینی ہے کہ کیا کملا ہیرس ڈونلڈ ٹرمپ جیسے طاقتور حریف کے خلاف کامیابی حاصل کر سکیں گی، ان کی امیدوار کی حیثیت ایک ایسی مثال ہے جو امریکی سیاست کی ترقی پذیر نوعیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر ہیرس کامیاب ہوتی ہیں تو یہ واقعی ایک بڑا سرپرائز ہوگا۔