اگلا امریکی صدر کون؟ فیصلہ آج ہوگا
امریکہ کے صدارتی انتخابات کے چرچے ساری دُنیا میں انتہائی شدومد سے ہوتے ہیں، کیونکہ امریکا کی صدارت کا منصب سنبھالنے والی شخصیت کو دُنیا کی بااثر ترین ہستی قرار دیا جاتا ہے۔ پچھلے کافی دنوں سے ساری دُنیا میں امریکا کے انتخابات موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ ان سے متعلق مختلف آرا دیکھنے میں آرہی ہیں۔ بعض ماہرین اپنی آرا میں ڈیموکریٹک امیدوار کے فاتح ہونے کی پیش گوئی کر رہے تو کچھ ری پبلکن امیدوار کی جیت کے امکانات ظاہر کررہے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہورہا، ہر مرتبہ امریکا کے انتخابات کے موقع پر یہی صورت حال ہوتی ہے۔ آج امریکا کے صدارتی انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ ری پبلکن کی جانب سے صدارتی امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جب کہ ڈیمو کریٹ کی امیدوار کملا ہیرس ہیں۔ ان دونوں کے حق اور مخالفت میں آج 24کروڑ رائے دہندگان ووٹ کاسٹ کریں گے۔ لگ بھگ ساڑھے سات کروڑ لوگ قبل از ووٹنگ میں اپنے ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں۔ ابھی تک دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک کی حتمی جیت سے متعلق کچھ وثوق سے ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ امریکا مہاجرین کی سرزمین ہے اور یہاں پر ایشیائی، عرب، افریقی، سینٹرل اور ایسٹرن یورپ سمیت دنیا بھر کے باشندے کثیر تعداد میں رہتے ہیں۔ کملا ہیرس کی مہم کا مختصر احاطہ کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہے کہ کملا اور بائیڈن انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کیلئے کام کررہے ہیں، کملا کبھی کبھی فلسطینیوں کے تحفظ اور حق خودارادیت کے بارے میں بھی اظہار کر ڈالتی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ بھی مشی گن سمیت دیگر ریاستوں میں عرب ووٹرز کو قائل کرنے کی کوشش کرتے دِکھائی دیتے ہیں، حالانکہ جب وہ صدر امریکا تھے تو انہوں نے عرب اور مسلمان مخالف امیگریشن پالیسی اپنائی تھی، ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں کوئی جنگ نہیں ہوئی اور اگر وہ برسرِاقتدار ہوتے تو مشرقِ وسطیٰ اور یوکرین کی جنگیں کبھی نہ ہوتیں، حالانکہ مشرق وسطیٰ میں جب امریکی پالیسی کی بات آتی ہے تو ٹرمپ اور کملا میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، یہ پالیسی اسرائیل کی حامی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کرتی ہے۔ بہرحال آج فیصلہ ہوجائے گا کہ کون امریکا کا اگلا صدر بنتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب کا حتمی مرحلہ آج (منگل کو) ہوگا۔ اس سلسلے میں گہما گہمی عروج پر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کامیابی کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو 5جبکہ ان کی مخالف ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو 2ریاستوں میں برتری حاصل ہے۔ قبل از وقت (ارلی) ووٹنگ میں سات کروڑ، 36لاکھ سے زائد شہری حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔ سوئنگ اسٹیٹس کی اہم ریاست شمالی کیرولینا میں ووٹرز ٹرن آئوٹ 55فیصد رہا۔ دوسری طرف دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کردی ہے۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کیرولینا میں اپنی جیت کا دعویٰ کیا ہے۔ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے ملکی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ صدر منتخب ہوا تو ملک سے مہنگائی ختم کردوں گا جب کہ ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق امریکا میں صدارتی الیکشن کی گہما گہمی عروج پر پہنچ گئی ہے، قبل ازوقت ووٹنگ میں 7کروڑ 36لاکھ سے زائد ووٹ کاسٹ ہوچکے۔ سات سوئنگ اسٹیٹس میں سے پانچ میں ٹرمپ کو جب کہ دو میں کملا ہیرس کو برتری حاصل ہے۔ ایریزونا، جارجیا، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پنسلوانیا میں ٹرمپ کو جب کہ مشی گن، وسکونسن میں کملا ہیرس کو برتری حاصل ہے۔ رپورٹس کے مطابق نیواڈا اور پنسلوانیا جیسی اہم ریاستوں میں دونوں امیدواروں کی جیت کا امکان برابر ہے۔پاکستان کی جانب سے امریکا کے صدارتی انتخابات سے متعلق یہ اظہار سامنے آیا ہے کہ ٹرمپ جیتیں یا کملا، ہمارے لیے دونوں برابر ہیں۔ امریکی انتخابات پر وہاں متعین پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کا کہنا تھا کہ کملا ہیرس جیتیں یا ڈونلڈ ٹرمپ، ہمارے لیے سب برابر ہیں، دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ مجھے ایک ملاقات کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پوچھا کہ بتائیں ٹرمپ یا کملا ہیرس میں سے کس کو امریکی صدر دیکھنا چاہتے ہیں، جس پر میں نے کہا کہ امریکی انتخاب چاہے کوئی بھی پارٹی جیت جائے، کملا ہیرس جیتیں یا ٹرمپ، ہم ان سب کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں، ریاست کا ریاست سے تعلق ہوتا ہے جس کو مزید مستحکم بنایا جائے گا، امید ہے آنے والے دنوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے، ہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے فروغ پر کام کر رہے ہیں۔ آج دیکھنا یہ ہے کہ امریکی عوام کس کو اپنا اگلا صدر منتخب کرتے ہیں۔ امریکا کے صدارتی انتخابی دنگل کا فاتح جنوری 2025ء سے 4برس کے لیے صدارت کے منصب پر متمکن ہوگا۔
آبی قلت کا اندیشہ، اقدامات ناگزیر
وطن عزیز کے طول و عرض میں سالہا سال سے پانی کی قلت کے حوالے سے صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر ہے۔ ہمارے شہریوں کی اکثریت عرصۂ دراز سے پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے۔ ملک کے تمام صوبوں کے مختلف شہروں میں آبی قلت کے حوالے سے اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔ شہری برتن اُٹھائے پانی کی تلاش میں در در مارے پھرتے ہیں۔ دُنیا کے بہترین دریائی و نہری نظام کے حامل ملک میں پانی کی اس حد تک قلت یقیناً کسی المیے سے کم نہیں۔ یہاں آبی ذخائر موجود تو ہیں، لیکن پچھلے چار عشروں سے کوئی نیا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا جاسکا ہے۔ آبی وسائل کے حوالے سے ہم تاحال 40سال پیچھے چل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سال کافی بارش ہوتی ہے اور یہ ڈیمز نہ ہونے کے سبب پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے۔ جب کبھی ماضی میں کسی نئے ڈیم کی تعمیر کا معاملہ اُٹھا تو اُسے سیاست کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھا گیا۔ ملک و قوم کی ضروریات کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا۔ سب اپنی سیاست چمکاتے نظر آئے۔ مخالفت برائے مخالفت کی روش اختیار کرتے ہوئے کسی نئے بڑے آبی ذخیرے کے منصوبے کو شروع ہونے سے قبل ہی بند کروادیا گیا۔ اس کا نتیجہ آج ہم پانی کی شدید قلت کی صورت بھگت رہے ہیں۔ 40سال قبل تعمیر کیے گئے آبی ذخائر میں سے اکثر میں ریت بھری پڑی ہے، اُن کی گنجائش وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتی چلی جارہی ہے، بعضے اپنی مدت پوری کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں کے بھی منفی اثرات ہمارے ملک پر پڑرہے ہیں۔ اس باعث اگلے برس شدید آبی قلت کے خدشے منڈلارہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث آئندہ سال پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا رہے گا۔ وزارتِ آبی وسائل کی دستاویز میں چونکا دینے والا انکشاف سامنے آگیا۔ رپورٹ کے مطابق پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے پانی کی قلت کا سامنا ہے، پانی کی قلت معیشت اور پائیدار ترقی کی راہ میں سنجیدہ خطرہ ہے۔ پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے جنگی بنیادون پر کام کرنا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق پانی کے بحران کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے، پانی کا بہتر استعمال اور ضیاع بچانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جائے۔ دستاویز کے مطابق کراچی کے لیے کے فور منصوبہ مکمل نہ ہونے سے پانی کی قلت برقرار رہے گی، کے فور منصوبہ فروری 2024میں مکمل ہونا تھا، 50فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا، کراچی کے لیے منظور شدہ پانی کا موجودہ کوٹہ آبادی کے لیے ناکافی ہے۔ صرف سندھ اور کراچی پر ہی کیا موقوف، ملک بھر میں آبی قلت کے سلسلے دراز رہتے ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے وفاق، صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر راست اقدامات یقینی بنائے جائیں کہ پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔ دوسری جانب انتہائی ناگزیر ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں کہ زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر کی تعمیر کے منصوبے ناصرف بنائے جائیں، بلکہ انہیں ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرکے بروئے کار بھی لایا جائے، اس حوالے سے اب کسی قسم کی کوتاہی، تاخیر کی چنداں گنجائش نہیں۔ پہلے ہی کافی دیر ہوچکی ہے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، آبی ذخائر کے منصوبے بنائے جائیں، ان پر تیزی کے ساتھ تعمیر کا آغاز کیا جائے، انہیں ریکارڈ مدت میں مکمل کروایا جائے، اس ضمن میں وفاق و صوبائی حکومتیں اور عوام کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے حکمراں اپنا فعال کردار ادا کریں۔