Column

عبادت اور استعانت

تحریر : صفدر علی حیدری
یہ آیت سورہ حمد کا حصہ ہے ۔ ایک نمازی مسلمان دن میں کئی بار اس ایمانی عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ جس کے آگے سر جھکاتا ہے ہاتھ بھی صرف اسی کے آگے پھیلائے گا۔ شاید اس سے بڑھ کر اظہار عبدیت کا اور کوئی انداز ہو نہیں سکتا ۔ اس سے بڑھ کر توحیدی کلمات ممکن ہی نہیں ہیں۔ اس سے بڑھ کر خود سپردگی کا حسین انداز ناممکن ہے۔ ظاہر ہے جب یہ کلمات خود خدا نے ارشاد فرمائے ہیں اور یہ چاہا ہے کہ اس کی بار برا تکرار کی جائے تو ان کا خوب صورت ترین ہونا لازم ہے ۔
سورہ حمد کی تلاوت ہر رکعت میں ضروری قرار دینا بھی اسی وجہ سے ہے کہ ایک مسلمان کو ہر گھڑی اپنا یہ ایمانی عزم یاد رہے کہ عبادت اور استعانت فقط اللہ ہی سے منسوب ہے اور وہی وہ واحد ذات ہے جو سزاوار ثنا ہے ۔ امید کا مرکز بھی وہی ہے ۔ نفع کو نقصان کا مالک بھی وہی ہے۔ عزت و ذلت دینے والا بھی وہی ہے ۔ اور تو اور نیکی کرنے کی سعادت اور گناہ سے بچنے کی طاقت بھی وہی دیتا ہے ۔ اگر بغور دیکھا جائے تو توحید کے تمام تر لوازمات اسی سورہ میں موجود ہیں ۔ ایک مومن اس سورہ کی تلاوت سے اس کے رب ہونے کا ، اس کے رحمٰن و رحیم ہونے کا، اس کے معبود و مددگار ہونے کا برملا اعلان کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے ۔ اس سورہ کے آخر میں وہ انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنے اور مغضوب اور ضالین کے راستے سے بچنے کی دعا کرتا دکھائی دیتا ہے۔
عبادت و استعانت کا اظہار کرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ اے اللہ تو مجھے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا رہ ۔ مجھے اس پر چلا۔
مسافر کو قدم قدم پر بھٹکنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ایسے میں اس کو مسلسل ہدایت کی کہ ضرورت رہتی ہے ۔ جیسے کسی ہوائی جہاز کا ٹاول سے مسلسل رابطہ رہتا ہے کہ کہیں وہ بھٹک کر دور نہ جا نکلے ، بالکل اسی طرح نماز میں سورہ حمد کی یہ آیت اسی بات کا اظہار ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سالک بھٹکنا نہیں چاہتا ۔ وہ منزل تک قریب ترین راستے سے جانا چاہتا ہے۔ اور فزکس میں ہم ڈس پلیسمنٹ پڑھتے ہیں جو دو نقاط کے درمیان کم از کم فاصلے کو کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کم از کم فاصلہ ایک سیدھا خط یعنی صراط مستقیم ہی ہو سکتا ہے ۔ اسی بات کو جناب رسالت مآب نے زمین پر لکیریں کھینچ کر سمجھایا تھا ۔ ٹیڑھی میڑھی لکیروں کے درمیان ایک سیدھی لکیر کھینچ کر سمجھایا کہ سیدھا رستہ ہی مستقیم ہوتا ہے۔
اس سورہ میں حمد کو بھی اسی ذات احدیت کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے کہ حمد صرف ہے ہی اسی سے مخصوص ۔ یعنی وہ سراسر سراپا ثنا ہے ۔ اگر اس کے کسی بندے کی یا اس کی کسی خوبی کی یا اس کی تخلیق کردہ کسی بھی چیز کی تعریف دراصل اسی ذات کی تعریف ہے جو موجودات کا خالق و مالک ہے ۔ گویا حمد کی بازگشت اسی کی طرف ہے ۔
کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ہو سکتے ہیں۔
کمال، احسان، احتیاج اور خوف۔ اللہ تعالیٰ کی پرستش و عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ہیں۔
کمال : اگر کسی کمال کے سامنے ہی سر تعظیم و تسلیم خم ہونا چاہیے تو اس عالم ہستی میں فقط اللہ تعالیٰ ہی کمال مطلق ہے ، جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نہیں ۔ تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ اسی کی ذات ہے ۔ آسمانوں اور زمین میں بسنے والے اسی کمال مطلق کی عبودیت میں اپنا کمال حاصل کرتے ہیں ’’ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمٰن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا‘‘ ( سورہ مریم )
احسان : اگر کسی محسن کی احسان مندی عبادت و تعظیم کا سبب بنتی ہے تو یہاں بھی اللہ کی ذات ہی لائق عبادت ہے ، کیونکہ وہی ارحم الراحمین ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر رکھا ہے ’’ تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے ‘‘ ( سورہ انعام )
احتیاج : عبادت کا سبب اگر احتیاج ہے تو یہاں بھی معبود حقیقی اللہ ہی ہے ، کیوں کہ وہ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ وہ علت العلل ہے اور باقی سب موجودات معلول ہیں اور ظاہر ہے کہ علت کے مقابلے میں معلول مجسم احتیاج ہوتا ہے : ’’ اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے ‘‘ ( سورہ فاطر خوف : اگر وجہ تعظیم و عبادت خوف ہے تو خداوند عالم کی طرف سے محاسبے اور مواخذے کا خوف انسان کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دن اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا: ’’ جو نیکی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے ، پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جائو گے ‘‘ ( سورہ جاثیہ )
رحمٰن و رحیم ، رب العالمین اور روز جزاء کے مالک پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی ہو ، کیونکہ سابقہ آیات میں عبادت کے تمام عوامل بیان ہو چکے ہیں۔
الحمدللہ سے کمال خداوندی کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ یعنی خداوند عالم کمال کی اس منزل پر ہے کہ تمام حمد و ثنا صرف اسی کے شایان شان ہے ۔
رب العالمین سے عبادت کا دوسرا عامل ’’ احتیاج‘‘ سمجھ میں آتا ہے ۔ یعنی خدا ساری کائنات کا مالک ، مربی اور پالنہار ہے ۔ باقی سب اس کی تربیت کے محتاج ہیں ۔
الرحمٰن الرحیم سے تیسرا عامل’’ احسان‘‘ آشکار ہوتا ہے ۔ یعنی خدا کا احسان عام ہے اور ہر چیز کو شامل ہے ۔
مالک یوم الدین کے ضمن میں چوتھا عامل ’’ خوف‘‘ بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی قیامت کا یقین اللہ کے عدل سے خوف کا باعث بنتا ہے ، ورنہ ذاتِ الٰہی سے خوف کا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ وہ تو رحیم و غفور ہے ۔ بنابریں ہر اعتبار سے عبادت صرف ا سی کی ہو سکتی ہے : ’’ اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ‘‘ ( سورہ اسراء )
عبادت کی تعریف اور مفہوم کے بارے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے اور عبادت کی یہ تعریف کرتے ہیں ۔’’ کسی کے تقرب اور اس کی شفاعت کے حصول کے لیے قلبی تعلق قائم کرنا ‘‘اس تعریف میں قلبی تعلق اور تعظیم کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور اس غلط تعریف کی بنیاد پر یہ لوگ اکثر مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ہیں ، جبکہ قرآن میں غیر خدا سے قلبی تعلق اور تعظیم کرنے کی ترغیب موجود ہے : ’’ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے‘‘ ( سورہ شوری )
والدین کے بارے میں فرمایا: ’’ اور مہر و محبت کے ساتھ ان ( والدین) کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو‘‘ ( سورہ بنی اسرائیل )
عبادت کی صحیح تعریف قرآنی شواہد کی روشنی میں اس طرح ہے : کسی کو خالق یا رَب تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا ۔
خود لفظ ’’ عبادت‘‘ سے اس کی تعریف نکل آتی ہے ۔ چناں چہ عبد مملوک کو کہتے ہیں۔ العین میں آیا ہے : العبد المملوک اور مملوک اسے کہتے ہیں جس کا کوئی مالک ہو۔ چناں چہ رب مالک کو کہتے ہیں۔
العین میں آیا ہے: جو کوئی کسی چیز کا مالک بنتا ہے وہ اس کا رَب کہلائے گا اور بغیر اضافہ کے مطلق رب صرف اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے۔
لہٰذا عبادت رب کی ہوتی ہے ۔ اگر کوئی رب نہیں ہے تو کوئی اس کا عبد بھی نہیں ہو گا اور جب عبد نہیں ہے تو عبادت بھی نہیں ہو گی ۔ اس مطلب کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے: ’’ بے شک اللہ میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا تم اس کی بندگی کرو ، یہی سیدھا راستہ ہے ‘‘۔
ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے ’’ چوں کہ اللہ ہی تمہارا رَب ہے لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو ‘‘۔
ان سب آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت رَب کی ہوتی ہے۔ چناں چہ بت پرست اپنے بتوں کو رب مانتے تھے پھر ان کی پرستش کرتے تھے، اس لیے مشرک قرار پائے۔ اسی طرح کسی کو اپنا خالق تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا بھی عبادت ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اللہ ہی تمہارا پروردگار ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ہر چیز کا خالق ہے ، لہٰذا اس کی عبادت کرو ‘‘ ( سورہ انعام )
وایاک نستعین ، چونکہ کائنات کا مالک وہی ہے او ر ہر چیز پر اسی کی حاکمیت ہے، آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا جب مومن طاقت کے اصل سر چشمے سے وابستہ ہوتا ہے تو تمام دیگر طاقتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور کسی دوسری طاقت سے مدد لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ۔
غیر اللہ سے استمداد کا مطلب یہ ہوگا کہ سلسلہ استمداد اللہ تعالیٰ پر منتہی نہ ہو اور اس غیر اللہ کو اذن خدا بھی حاصل نہ ہو ۔ لیکن اگر یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ پر منتہی ہوتا ہو تو یہ اللہ سے براہ راست استمداد کے منافی نہیں ۔ کیوں کہ مخلوقات جس طرح اپنے وجود میں خالق حقیقی سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ، اسی طرح اپنے افعال میں بھی مستقل نہیں ہیں ۔ ان کا ہر عمل فیض الٰہی کا کرشمہ ہوتا ہے ۔ بنا بریں اگر خدا نے اپنے خاص بندوں کو وسیلہ بننے کی اجازت دے رکھی ہے تو ان سے استمداد درحقیقت خدا سے استمداد ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے ‘‘ ( سورہ نساء )، یعنی اللہ سے طلب مغفرت کے لیے رسول ؐ کے دربار میں حاضر ہو کر انہیں وسیلہ بنانا اور وسیلہ بن کر رسولؐ کا ان کے لیے استغفار کرنا ہمارے مدعا کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔
نیز فرمایا : ’’ اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہوجاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی‘‘۔ ( سورہ توبہ )
نیز فرمایا : اور انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان ( مسلمانوں) کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے ( سورہ توبہ)
’’ بہت کچھ عنایت کرنے‘‘ اور ’’ دولت سے مالا مال کرنے‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسولؐ کا اس طرح ذکر کرنا کہ ’’ اللہ اور رسولؐ نے بہت کچھ دیا ہے‘‘ اور ’’ اللہ اور رسولؐ نے دولت سے مالا مال کر دیا‘‘ ، شرک نہیں ہے ، کیوں کہ یہ عطا و بخشش اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر نہیں ہے کہ شرک کے زمرے میں چلی جائے بلکہ یہ تو مِن فَضلِہ کے ذیل میں آتی ہے۔
لہٰذا قرآنی تصریحات کے مطابق جب یہ کہنا درست ثابت ہوگیا کہ ’’ اللہ اور اس کے رسولؐ نے دولت سے مالامال کر دیا‘‘ تو یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ’’ اے رسولؐ خدا ! ہمیں دولت سے مالا مال فرما دیں‘‘۔
لہٰذا جس طرح اللہ تعالیٰ سے حصول فیض میں وسائل اور وسائط کار فرما ہوتے ہیں ، اسی طرح اللہ سے طلب فیض کے لیے بھی اس کے مجاز وسائل اور واسطوں کا ہونا ثابت ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مخلوق سے مدد طلب کرنا شرعاً جائز ہے
جیسا کہ قرآن نے فرمایا ہے: تم طاقت کے ساتھ میری مدد کرو
نیز فرمایا : نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو
تو صرف اللہ سے مدد مانگنے کا مطلب کیا ہوا؟
اس کا ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد توفیق ہے اور توفیق کسی فعل کے انجام دینے کے لیے تمام اسباب کی فراہمی کو کہتے ہیں اور صرف اللہ تمام اسباب فراہم کر سکتا ہے ۔ اس لیے ہر مدد کو توفیق نہیں کہتے ، بلکہ ہر توفیق مدد ہے ۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد بدنی طاقت ہے جو صرف اللہ سے حاصل ہوتی ہے ۔ تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جو مدد غیر خدا سے لی جاتی ہے وہ درحقیقت اللہ سے ہے ، چوں کہ وہ اللہ کی مخلوق ہے اور اس نے جو کچھ مدد دی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ چوتھا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد دینے والا خود اپنی ذات ، اپنے وجود ، اپنے افعال میں اللہ کا محتاج ہے ، لَا حَول وَ لَا قُو اِلاَّ بِاللّٰہ کا یہی مفہوم ہے ، لہٰذا اس سے مدد لینا خود اللہ سے مدد ہے ۔
اہم نکات
1۔ جس کی بندگی کی جاتی ہے، مدد بھی اسی سے طلب کی جاتی ہے۔
2 ۔ استعانت الٰہی کے بغیر عبادت بھی ممکن نہیں ہے۔
3۔ عبادت اور استعانت کا حقیقی محور صرف ایک ہی کامل ذات ہے۔
4۔ حرف خطاب ’’ ک‘‘ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت و استعانت کے وقت بندہ خود کو بارگاہ خدا میں حاضر دیکھے۔
5۔ نعبدو سے اجتماعی عبادت کا تصور ملتا ہے۔
6۔ نستعین سے پہلے نعبدو کے ذکر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بندے کو استعانت سے پہلے عبودیت کی منزل پر فائز ہونا چاہیے ۔
7۔ استعا نت دلیل احتیاج ہے ۔
استفادہ ( الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 1، صفحہ 205)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button