Column

نیا چاند چڑھنے پر جشن

تحریر : سیدہ عنبرین
ماہ شوال کا چاند نظر آنے کے سلسلے میں ابہام تھا کہ کب نظر آئے گا اور کب عید الفطر ہو گی، کوششیں جاری تھیں کہ سوموار کو چاند نظر آ جائے گا اور منگل کو عید ہو جائے ایسا نہ ہو سکا، آخر چاند کو بھی اپنی مرضی کرنے کا اختیار ہے وہ چاہے تو نظر آ جائے نہ چاہے تو بدلیوں کی اوٹ سے ہی نہ نکلے اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ ماہ شوال کا چاند لیٹ ہو گیا لیکن لامحدود اختیار رکھنے والوں نے ایک نیا چاند چڑھا دیا۔ یہ چاند بہاولنگر میں چڑھایا گیا جس کی تفصیلات سامنے آتے ہی ملک بھر میں خوشیاں منانے کا سلسلہ شروع ہو گیا، خوشیاں یوں تو ملک کے کونے کونے میں منائی گئیں لیکن ان کا زور پنجاب میں کچھ زیادہ تھا اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ جو چاند چڑھایا گیا وہ صوبہ پنجاب میں چڑھایا گیا تھا یوں اہل پنجاب نے اس معاملے میں بازی لے جانا اپنا حق سمجھا خوشیاں منانے کیلئے کہیں باضابطہ تقریب تو منعقد نہیں ہوئی لیکن جو بھی ایک دوسرے کو ملتا وہ نیا چاند چڑھنے پر قہقہہ لگا کر ایک دوسرے کو چاند چڑھنے کی مبارک دیتا۔ سیاسی کارکنوں، وکلاء برادری، ڈاکٹروں، نرسوں، سکول ٹیچروں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے تعلق رکھنے والوں اور بالخصوص مزدور پیشہ افراد نے بڑھ چڑھ کر خوشیاں منائیں۔ نئے چاند کیلئے خیر مقدمی کلمات ادا کئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی انہیں ہر ماہ ایسے ہی چڑھے چاند دیکھنے کی توفیق عطا ہو۔
چاند چڑھانے والے سبز پوش تھے جو سارا سال بلکہ سال کے 365دن چاند چڑھاتے ہیں لیکن بیشتر چاند منظر عام پر نہیں آتے ان پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے یوں قوم ان کی چاندنی کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ سکتی۔ عیدین کے موقع پر چڑھنے والے چاند چھپے نہیں رہ سکتے۔ عام ایام میں جسے رشوت طلب کرنا کہتے ہیں عیدین سے پہلے اسے عیدی کا نام دے دیا جاتا ہے اور اس کیلئے ملک کے کونے کونے میں سبز پوش ناکے لگائے جاتے ہیں ناکے لگانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ناکے جرائم پیشہ افراد کو پکڑنے کیلئے لگائے جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ناکوں کے ذریعے آج تک سنگین جرائم میں ملوث کوئی مجرم کبھی گرفتار نہیں ہوا، ہمیشہ معصوم شہری ان ناکوں پر عذاب کا نشانہ بنتے دیکھے گئے ہیں جبکہ بڑے مجرم سبز پوشوں کے سامنے دندناتے پھرتے ہیں یا اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کی قبل از وقت اطلاع پا کر انہی سبز پوشوں کے تعاون سے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔
بہاولنگر میں عیدی مہم جاری تھی ناکہ پر روکے گئے افراد میں سے ایک قابو نہ آ سکا سبز پوش اس کے تعاقب میں اس کے گھر میں گھس گئے۔ سوشل میڈیا پر موجود کلپ میں واضع طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے گھر میں گھس کر خواتین کے سر سے چادریں اور دوپٹے چھینے لباس تار تار کئے ان پر لاٹھیاں برسائیں انہیں لہولہان کر دیا۔ اہل محلہ اکٹھے ہو گئے انہوں نے ان لوگوں کو پہلے باتوں سے سمجھایا پھر نہ سمجھنے پر وہ زبان استعمال کی جو ان کی سمجھ میں آ گئی، اہل محلہ کو سزا دینے کیلئے مزید نفری منگوائی گئی اور مردوں عورتوں پر مزید ظلم ڈھائے گئے جو دیکھے جا سکتے ہیں۔ تشدد کا نشانہ بننے والوں کا حکام بالا سے ایک ہی سوال تھا کہ جس ملک کے دفاع کیلئے وہ برف پوش پہاڑوں تپتے ہوئے ریگزاروں میں ڈٹے ہوئے ہیں تخریب کاروں کی گولی کے نشانے پر رہتے ہیں اس ملک میں ان کے گھر ان کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں، سبز پوش جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں بغیر کسی وارنٹ بغیر کسی ثبوت کے گھر میں گھس جاتے ہیں اور دہشت گردی شروع کر دیتے ہیں پھر ہر قسم کی درندگی کے بعد ایک جھوٹی لولی لنگڑی ایف آئی آر کاٹ کر اپنے آپ کو بچانے کا سامان کرتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ سبز پوش معمول کے گشت پر تھے ایک مشکوک شخص کا پیچھا کرتے ہوئے ایک گھر میں چھاپہ مارا جہاں سے اسلحہ، بارود، منشیات اور جانے کیا کیا برآمد ہوا چھاپہ مارنے والوں کو ایک سے زائد گواہ غیبی مدد کے طور پر مل جاتے ہیں جو بیان ریکارڈ کراتے ہیں کہ وہ اپنی بیمار والدہ کی دوا لینے جا رہے تھے کہ دیکھا ایک شخص سبز پوشوں پر فائرنگ کرتے کرتے ایک گھر میں گھسا ہے جس کے تعاقب میں سبز پوش بھی اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے داخل ہو گئے پھر انہوں نے اس شخص کو گرفتار کر لیا اور اسلحہ و منشیات برآمد کر لیں، کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان کے کچھ ساتھی فرار ہو گئے ۔ اس مرتبہ بھی ایسی ہی ایف آئی آر کاٹی گئی جو اپنے پائوں پر کھڑی ہونے کے قابل نہ تھی کہیں فیصلہ ہوا کہ غیر قانونی ہتھکنڈوں کا موثر علاج دائرہ قانون میں موجود نہیں لہٰذا دیسی نسخہ استعمال کیا جائے تاکہ مریض کو قرار واقعی قرار نصیب ہو، نسخہ برتا گیا جس کا بہترین اثر ہوا ہے، اندھا دھند لاٹھیاں برسانے والوں پر لاٹھیاں برسائی گئی ہیں، ٹھڈے مارنے والوں کو ٹھڈے پڑے ہیں دست درازی کے مرتکب افراد کی وہ چھترول ہوئی ہے جو وہ زندگی بھر یاد رکھیں گے لیکن یہ سب کچھ ناکافی ہے سبز پوشی میں جرائم پیشہ افراد موجود ہیں انہیں معطل کرنا مسئلے کا حل نہیں ملازمت سے ہمیشہ کیلئے نکالنا ضروری ہے صرف ایک مچھلی نہیں ہے جو جل کو گندا کر رہی ہے گندی مچھلیوں سے تالاب بھرا پڑا ہے مکمل صفائی ضروری ہے، کچھ مگر مچھ بھی ہیں جو ہر مرتبہ جال توڑ کر نکل جاتے ہیں انہیں بھی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ پنجاب میں سبز پوشوں کے سربراہ آج کل ٹک ٹاک سٹار بنے ہیں اس سے قبل وہ ڈاکٹر تھے، وہ جتنے ناکام ڈاکٹر تھے اتنے ہی ناکام سربراہ ہیں وہ اپنے ماتحتوں کی صفائی پیش کرنے اور ان کے کارنامے گنوانے کیلئے آئے روز ایک نیا کلپ ریکارڈ کرا کے مارکیٹ کرتے ہیں نیا چاند چڑھانے کے معاملے پر بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ان سے صرف ایک ہی سوال ہے اگر مان لیا جائے کہ ان کے ماتحت سب کے سب آب زم زم سے غسل کرتے ہیں، رزق حلال کماتے ہیں فرائض دیانتداری سے انجام دیتے ہیں تو ملک میں گزشتہ 70برس سے موجود قحبہ خانے، جوئے خانے اور منشیات فروشی کے اڈے بند کیوں نہیں ہوئے ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ وہی ایس ایچ او جو کرونا زمانے میں نہایت کامیابی سے بازار بند کرا دیتے تھے، جرائم کے اڈے بند نہیں کرا سکتے، تاریخ گواہ ہے وہ جرائم ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں انہیں پھلتا پھولتا دیکھ کر آنکھیں بند کرنے پر یقین رکھتے ہیں ان کا تمام زور معصوم اور بے گناہوں پر چلتا ہے وہ صرف انہی کے گھروں کی دیواریں پھاند سکتے ہیں انہی پر تشدد کر سکتے ہیں انہی سے مال بٹور سکتے ہیں مگر اس مرتبہ تو لینے کے دینے پڑ گئے۔ عید کی چھٹیاں ٹکور کرتے گزر گئیں، عیدی بھی خوب ملی، خدا دینے والوں کی توفیق میں اضافہ کرے، عید گزر گئی نئے چاند کا جشن جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button