اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے
اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے ، اس دن کو منانے مقصد مسلمانوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر رواداری کو فروغ دینا ہے۔
اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن آج منایا جارہا ہے، پاکستان نے اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کی اور 15 مارچ 2022کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس سے متعلق قرارداد بھی پیش کی ، پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر متعارف کروانے کی پیشکش کی گئی۔
اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کا مقصد مسلمانوں اور انسانی حقوق کے حوالےسےبین الاقوامی سطح پر رواداری کو فروغ دینا ہے ، پاکستان کی پیش کردہ قرارداد میں دہشتگردی کو کسی بھی مذہب اور قومیت سے منسوب نہ کرنے پر بھی زور دیا گیا۔
15 مارچ 2022 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلاموفوبیا سے نمٹنےکےعالمی دن کی قرارداد کو 55 ممالک کی حمایت کے ساتھ منظور کیا گیا تاہم اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی قرارداد کی مخالفت کرنیوالےممالک میں بھارت سر فہرست تھا جو مسلمانوں کیخلاف انتہاء پسندی، تشدد، ظلم و جبر میں نمایاں تاریخی کردار رکھتا ہے۔
اسلامو فوبیا مسلمانوں کےخلاف خوف،تعصب اورنفرت کا نام ہے، جوآن لائن اورآف لائن دنیا میں مسلمانوں کےخلاف اشتعال، دشمنی اورعدم برداشت کو ہوا دیتا ہے جبکہ اسلاموفوبیانظریاتی،سیاسی،مذہبی دشمنی،ساختی اورثقافتی نسل پرستی کےذریعے مسلمانوں کی خصوصی علامتوں اورتعلیمات کونشانہ بناتی ہے۔
اسلامو فوبیا کونسل پرستی سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے، جس کے تحت اسلامی مذہب،روایت اور ثقافت کو مغربی اقدار کے لیے ‘خطرہ’ کےطورپرتصورکیاجاتا ہے، دنیا بھر میں مسلمان اسلاموفوبیا کے باعث بیشمار تکالیف اور پرتشدد واقعات کا شکار ہو چکے ہیں۔
اسلام بھارت میں دوسرا بڑا مذہب ہے، بھارت کی ڈیڑھ ارب کی کل آبادی میں چودہ فیصد مسلمان ہیں جنہیں تعلیم، ملازمت، بنیادی ضروریاتِ زندگی اور سیاسی نمائندگی کے حصول میں انتہاپسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بھارتی تاریخ مسلمانوں کیخلاف ظلم و ستم سےبھری پڑی ہے، 1992 میں بابری مسجد، 2002 میں گجرات فسادات، 2013 میں مظفرنگر، 2020 میں دہلی، 2021 میں ہریدوار فسادات اسلاموفوبیا کے اہم واقعات ہیں ، مسلمانوں کی مساجدکوشہید کرکےمندر تعمیر کرنا انتہا پسند ہندؤوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے، جس کی مثالیں بابری مسجد، نواپی مسجد، شاہی مسجد و دیگر مساجدشامل ہیں جوکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں پرمبنی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری نشر کی جا چکی ہے جبکہ 2002 کے گجرات فسادات کے ذمہ دار انتہا پسند مودی پر دوسری ڈاکیومنٹری کو نشر ہونے کو تیار تھی جس کو مودی نے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
2014 میں مودی کے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی میں انتہائی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا، گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی محض 5 فیصد رہ گئی ہے جبکہ حکومتی جماعت بی جے پی میں ایک بھی مسلمان کارکن یا رہنما شامل نہیں۔
جینواسائیڈ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں اسلاموفوبیا اب محض امتیازی سلوک نہیں رہا بلکہ باضابطہ ریاستی نظریہ بن چکا ہے اور بی جے پی نے 192 ملین مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا کے ذریعے پرتشدد پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔
رمضان کے مقدس مہینے کے دوران کشمیر میں معصوم مسلمانوں کے خلاف بھارتی فورسز کی غیر انسانی کاروائیوں میں سنگین حد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔
کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35Aکی منسوخی کے بعد مودی سرکار کے کشمیریوں پر ظلم اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ کسی مسلمان کا قتل، جنسی زیادتی یا اغوا جیسے بڑے جرائم بھی قابل سزا نہیں ٹھہرائے جاتے۔
دنیا میں مسلمان اسلاموفوبیا کے شکار ہیں مگر دیگر خطوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور بھارت میں ہونے والے مظالم کا موزانہ کیا جائے بھارت میں ہونے والے مظالم کی فہرست بہت طویل ہے، بھارت میں انتہا پسند ہندوتوا کے کارکنوں کی جانب سے آئے روز مسلمانوں اور دیگر اقلیتیوں پر حملے جاری رہتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت میں موجود مسلمان کسی طور پر بھی محفوظ نہیں ہیں۔