Column

IMFکو خط، 9مئی، عمرانی حماقتوں کا ہمالہ

راجہ شاہد رشید
ہم کب سے منتظر ہیں یہ سوچ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کب ہوگا وہ سبز امن سویرا جب کلیاں کھلیں گی اور پھول پھوٹیں گے، ہر سو ہریالی ہوگی خوشحالی ہوگی، کب ہوگا اُس نئی سحر کا طلوع آخر کب۔؟ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ ایک کام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔ اپنے بہتر مستقبل کی خاطر کچھ خواب لے کر غربت و افلاس کے مارے بے روزگار نوجوان بیرون ملک بھاگ رہے ہیں، جی ہاں یہ غمٍ روزگار ہی ہے جو انہیں اپنے گھر پاکستان میں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تو یہ بے چارے کشتیوں سے لٹک کر قسمت سنوارنے کا سوچتے ہیں اور اپنی جانیں تک دے گزرتے ہیں ، ایسے لوگوں کی کوئی سیاسی جماعت ہوتی ہے نہ جلسہ و جلوس اور نہ ہی انتخابات اور ووٹ کے لین دین سے ہی انہیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے بس دو اور دو چار روٹیاں ہی سوچتے ہیں یہ بھوکے ننگے لوگ مٹی رنگے لوگ ، ان بے چاروں کا کوئی چارہ نہیں ہے اس غریب قوم و ملک کا خدا کے سوا کوئی سہارا نہیں ہے ، کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ وسائل ختم ہو رہے ہیں اور مسائل بڑھتے ہی چلے جا رہے ، غریب عوام کو غربت کی گہری دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ڈیزل ، پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، اشیائے خورد و نوش آٹا، گھی، چاول، چینی، چنے، مرغی، دالیں اور سبزیاں سب روز مرہ کے استعمال کی چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔
بھوک پھرتی ہے مرے دیس میں ننگے پائوں
رزق ظالم کی تجوری میں چُھپا بیٹھا ہے
ان حالات میں دھاندلی کی تحقیق کے بغیر حکومتٍ پاکستان سے بات چیت نہ کرنے اور آئندہ قرض نہ دینے کے حوالے سے عمران خان کے خط کو میں سہہ نہیں سکتا اور اسے عمرانی حماقتوں کا ہمالہ یا عمرانی حماقتوں کی انتہا کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتا ، یہ ہے ان کی پاکستانیت، وفائیں، محبتیں اور ہمدردیاں اس سوھنی دھرتی دیس کے ساتھ ۔ اب آپ ہی مجھے بتلائیں کہ آپ اٍن انصافیوں کی اس انوکھی ’’ وطن دوستی اور وفا‘‘ کے ساتھ ہیں یا پھر اپنے پیارے پاکستان اور پاکستان کی بقا کے ساتھ ہیں، مدتوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ہی یہ سوہنا دیس پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور ہمارے بزرگوں نے حصول پاکستان کی خاطر تحریکٍ پاکستان میں بڑی بے مثال اور لازوال قربانیاں دی تھیں اسی لیے کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے یہ وطن سے محبت ہمارے خون و خمیر میں شامل ہے اور ہم اہل پاکستان وطن کی محبت سے سرشار، وفادار و حُبدار ہی رہتے ہیں کیونکہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں اور اپنے پیارے پاکستان سے آگے ہمیں کچھ بھی نہیں ہے، آپ کی ریڈ لائن کوئی کھلاڑی ہوگا یا پھر ’’ کپتان‘‘ ہوگا جبکہ ہماری ریڈ لائن ہمارا پاکستان ہے ۔ جانتا ہوں میں نے خان کے اس خط کو حماقتوں کی انتہا کہا ہے اور یہ کالم پڑھنے کے بعد PTIکے ’’ ناانصافین‘‘ مجھے گالیاں دیں گے، سوشل میڈیا محاذوں پر بھانت بھانت کی بولیوں اور طعنوں کے تیر چلائیں گے معلوم نہیں کیا کچھ کہیں گے لیکن کوئی بات نہیں کسی کے کچھ اُلٹا سیدھا کہنے سے سچائی و حقائق کبھی بدل تو نہیں جایا کرتے، کہنے والے تو کہتے ہی رہتے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ:
سچ کو تمیز ہی نہیں بات کرنے کی
جھوٹ کو دیکھو کتنا میٹھا بولتا ہے
میں نے ماضی میں جب قطری خط کو صدی کا سب سے بڑا جھوٹ کہا تھا تو تب بھی کہنے والے بہت کچھ کہتے رہ گئے تھے، میں نے اقوام عالم میں اور سارے عالم میں پاک فوج کے نمایاں نام و مقام کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی سلامتی و تحفظ کے ضامن سب سے سر بلند اور منظم و متحرک ادارے کی خدمات کو دیکھ کر متعدد بار پاک فوج کو سلام کہا لکھا تو کئی جاہلوں نے میرے بارے میں یہاں تک بھی کہہ دیا تھا کہ یہ راجہ شاہد رشید فوج کے پے رول پر ہیں تو میں نے جواباً پہلے بھی کہا تھا اور آج ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ آپ جہاں کہیں بھی مجھے جوڑتے موڑتے رہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر کسی بھی ادارے یا سیاسی جماعت سے میں نے کچھ حاصل کیا ہو یا پھر کسی نے کہیں میرے لیے کوئی سہولت کاری کی ہو تو اسے سامنے لائیں اور مجھے بھی بتلائیں میں ہار مان لوں گا یہ چیلنج ہے میرا ، باقی میں سچ لکھنے سے کبھی بھی باز نہیں آئوں گا میں تو آج بھی کہہ رہا ہوں اپنے ایک شعر کی صورت میں کہ:
ایک مسلم سا کسی کا اُوج نہیں ہے
پاک فوج جیسی کوئی فوج نہیں ہے
آئی ایم ایف کو خط لکھنے والوں سے بصد ادب میرا یہ سوال ہے کہ کیا آپ IMFکی ادارہ جاتی شرائط و طریقہ کار اور قواعد و ضوابط کو کچھ جانتے سمجھتے بھی ہیں اور کیا IMFنے ایڈ لینے والے ممالک کے لیے پہلے سے ایسی کوئی شرط رکھی ہوئی بھی ہے یا نہیں۔؟ اگر نہیں رکھی ہوئی تو پھر آپ کس حیثیت سے انہیں یہ سمجھا رہے ہیں اور سکھلا رہے ہیں، اگر آپ کو کوئی یہ کہہ دے کہ یہ منہ اور مسو کی دال ، یا پھر ایسا بول دے کہ ’’ چل سکدی نئیں تے ناں دوڑنی‘‘ تو پھر آپ کی کیا عزت رہ جائے گی۔ میں نے عمران خان کے باری میں کبھی کہا تھا کہ :
اندھیرے جتنا زور لگائیں سورج چڑھ کر رہتا ہے
میری آس امید عمران خان ہر پاکستانی کہتا ہے
میں نے اس شعر میں عمران خان کے مخالف صاحبانِ سیاست کو اندھیرے کہا تھا جبکہ عمران کو مقبول اور بلا شبہ حالیہ الیکشن میں عوام نے عمران خان کا ساتھ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک مقبول لیڈر ہیں لیکن عمران خان شاید اپنی اس جیت کو بھی ہار میں تبدیل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ، وہ اپنے پائوں پر مزید کلہاڑے مار کر اپنی عوامی مقبولیت کو کھونے بلکہ ڈبونے کے در پے ہیں بس اپنی جہالتوں اور حماقتوں کی بدولت۔ عمران خان کے لیے میرا یہ نیک مشورہ بالکل مفت ہے کہ اس الیکشن میں عوام نے جو آپ کو مینڈیٹ دیا ہے اس کا احترام اس طرح فرمائیں کہ اپنی PTIکو حقیقی معنوں میں ایک سیاسی جماعت بنائیں اور منوائیں پھر اسے قومی ادارے میں لائیں ان سُنی اتحاد کونسلوں کے وسیلے سے آپ کو کبھی کوئی راستہ ملے گا اور نہ منزل و مقام ، خدارا ان حسرتوں ، مسرتوں اور مروتوں کو بھول کر آپ اپنی پارٹی میں موجود بڑوں سے کچھ سیکھیں اور سمجھیں پلیز نکلیں اس سوشل میڈیا کے ڈراموں اور پتلی تماشوں سے ، آپ کی پارٹی میں پرویز الٰہی، شاہ محمود اور لطیف کھوسہ سمیت درجنوں سینئر اور تجربہ کار لوگ ابھی بھی موجود ہیں بس اب بالغ ہو جائیں تھوڑے بڑے ہو جائیں۔ IMFکو خط لکھ کر اور سانحہ 9مئی سے کیا ملا ہے آپ کو سوائے رسوائی اور شرمندگی کے ، حکومت کسی کی بھی ہو IMFسے اگر ایڈ آتی ہے تو وہ کسی پارٹی یا PDMکے لیے نہیں آئے گی بلکہ پاکستان کے لیے ہی آئے گی جو ہمارا گھر ہے ، چاہے کرتا دھرتا کوئی بھی ہو گھر تو آخر اپنا ہے اور آپ اس کے خلاف خط لکھتے ہیں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ، GHQکے گیٹ پر اور کور کمانڈر ہائوس PTIکے ورکرز اور رہنما کیا پھول پھینکنے گئے تھے یا یادگارٍ شہداء پہ شمعیں روشن کرنے گئے تھے۔؟ معافی مانگنے سے مسلم بے توقیر نہیں ہوتا بلکہ باوقار ہوتا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ سانحہ 9مئی کے ضمن میں عمران اعلانیہ معافی مانگیں کیونکہ:
ایک مسلم سا کسی کا اُوج نہیں ہے
پاک فوج جیسی کوئی فوج نہیں ہے

جواب دیں

Back to top button