سپیشل رپورٹ

کیا صدر مملکت کے انکار پر سپیکر نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتے ہیں؟

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے متعلق وفاقی حکومت کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری کو بنا منظور کیے واپس بھیج دیا ہے۔

ایوان صدر کے ایک سینیئر اہلکار نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ صدر مملکت نے اِس بنیاد پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری منظور نہیں کی کیونکہ ابھی تک الیکشن کمیشن کی جانب سے سُنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی گئیں ہیں، چنانچہ تکنیکی اعتبار سے یہ ایوان ابھی نامکمل ہے۔

دوسری جانب نگراں وفاقی حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ صدر کی جانب سے اس پیش رفت کے بعد نگراں وزیر اعظم ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری صدر مملکت کو بھجوائیں گے اور اگر ایوان صدر سے دوبارہ ایسا ہی ردعمل آتا ہے تو پھر آئین کے تحت قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سُنی اتحاد کونسل کی طرف سے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے دائر کردہ درخواست پر 27 فروری (کل) کی صبح دس بجے اوپن کورٹ میں سماعت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کا پانچ رکنی بینچ اس درخواست پر سماعت کرے گا اور سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں صحافیوں کو بھی رسائی دی جائے جو دلائل اور ریمارکس کی کوریج کر سکیں گے۔

اس صورتحال میں پاکستان کے سوشل اور روایتی میڈیا پر یہی بحث جاری ہے کہ اگر صدر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کرتے تو آگے کیا ہو گا اور کیا سپیکر قومی اسمبلی قانون کے مطابق یہ اجلاس طلب کرنے کے مجاز ہیں؟

سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے بتایا کہ بظاہر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اِس وقت ایک پارٹی کی لائن پر چل رہے ہیں اور اُمور مملکت کو ترجیح نہیں دے رہے ہیں تاہم، اُن کے مطابق، صدر مملکت کے پاس یہ آئینی اختیارات موجود ہیں کہ وہ اس سمری پر فیصلہ کرنے کی ضمن میں اپنا وقت لیں، اسے مسترد کریں یا منظور کیے بغیر واپس بھیج دیں۔

خالد رانجھا کے مطابق سپیکر کے پاس ایسے کوئی آئینی اور قانونی اختیارات نہیں ہیں، کہ وہ صدر کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکیں۔

خالد رانجھا کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کی طرف سے دی جانے والی ڈیڈ لائن میں فہرست جمع کراتی ہیں تاہم ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ابتدائی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد بھی مخصوص نشستیں سیاسی جماعتوں کو دی گئیں۔ خالد رانجھا نے کہا کہ مگر یہ الیکشن کمیشن کی صوابدید ہے کہ وہ اس بار کیا فیصلہ کرتا ہے۔

خالد رانجھا کے مطابق جب ادارے کسی جماعت کو رعایت دینا چاہیں تو پھر اس کے لیے بھی گنجائنش نکال لی جاتی ہے اور اگر کسی خاص جماعت سے اچھا تجربہ نہ رہا ہو تو پھر سختی سے ایک ضابطہ کار پر ہی عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے ایک سینیئر اہلکار نے  بتایا کہ ان انتخابات میں متعدد ایسے مواقع آئے کہ جو اپنی نوعیت کے ایسے واقعات تھے کہ جن سے اس سے قبل الیکشن کمیشن کو واسطہ نہیں پڑا۔

الیکشن کمیشن کے اہلکار کے مطابق صدر مملکت کا اختیار ہے کہ وہ اجلاس طلب کریں، تاہم اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر آئین خاموش ہے اور سپیکر کو بھی کہیں اس طرح کا اجلاس طلب کرنے کی اجازت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پہلے مخصوص نشستوں سے متعلق ایسا تنازع بھی کھبی پیدا نہیں ہوا جو اس دفعہ سامنے آیا ہے۔ یوں یہ صدر مملکت کی طرف سے اپنی نوعیت کا پہلا اعتراض ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی کی کمپوزیشن ہی مکمل نہیں ہے۔

اُن کے مطابق 27 فروری کو اب الیکشن کمیشن اس پر حتمی فیصلہ دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button