تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

پاکستانی غزہ کی بلوچ خواتین سڑکوں پر سراپا احتجاج کیوں ہیں ؟

عبدالرحمن ارشد:

گزشتہ چند دنوں سے ہزاروں کی تعداد بلوچ خواتین اپنے ہاتھوں میں اپنے گمشدہ عزیزوں کی جبری گمشدی اور بازیابی کے لیے بلوچستان سے دارلحکومت اسلام آباد کی طرف ہزاروں کی تعداد میں مارچ کر رہی ہیں ۔

اس کی کچھ جھلکیاں سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں اور سوشل صارفین کی جانب سے اس مظاہرے کے حق میں کافی رد عمل دیکھنے کو آیا ہے ۔

آئیے ہم جانتے ہیں کہ آخرکار بلوچ خواتین اپنے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصاویر لیے درالحکومت کی جانب مارچ کیوں کر رہی ہیں ؟

پاکستان کے ایک صحافی و اینکر پرسن کے مطابق کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب 20 نومبر 2023 بالاچ بلوچ نامی ایک شخص کے گھر میں سی ٹی ڈی کے کچھ مسلح اہلکار گھستے ہیں اور بالاچ بلوچ نامی شخص کو گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔ سی ٹی ڈی کے مطابق بالاچ بلوچ سے 5 کلو گرام بارودی مواد برآمد کیا جاتا ہے ۔

سی ٹی ڈی 21 تاریخ کو عدالت میں پیش کر کے 10 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کروا لیتی ہے ۔ جبکہ 23 تاریخ کو یہ خبر گردش کرتی ہے کہ ایک مقابلہ "encounter”
کی مد میں 4 لوگوں کو مار دیا گیا ہے ۔ 24 تاریخ کو بالاچ بلوچ کے اہل خانہ کو ان کی لاش ملتی ہے۔

سینیئر صحافی کے مطابق اس پورے جادوئی واقعے میں کسی ایک پولیس اہلکار کو ایک زخم تک نہیں آیا ۔
ان کو مزید کہنا تھا کہ فلسطین کے مسائل اور حل پر ہم سب بات کرتے ہیں لیکن پاکستانی فلسطین( بلوچستان ) کے مسائل پر ہم خاصی توجہ نہیں دیتے ۔

بالاچ بلوچ کے ماورائے عدالت قتل پر اہل خانہ ایف آئی آر درج کروانے گۓ تو پہلے پولیس نے آئیں بائیں کی لیکن پھر جب لواحقین نے ایف آئی آر میں مقامی ایس ایچ او کو نامزد کروانا چاہا تو ایس ایچ او کا نام غلط درج کر دیا گیا تا کہ کل کو ایس ایچ او کے خلاف کاروائی نہ کی جا سکے ۔

ایک خبر رساں ادارے کے مطابق بالاچ بلوچ کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک معصوم انسان تھے اور یہ ایک جعلی مقابلہ تھا ۔

جبکہ اس مارچ کی قیادت ہیومین رائٹس ایکٹویسٹ مہرنگ بلوچ کر رہی ہیں انہوں نے اپنی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‏ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم اسلام آباد میں کوئی امید لیکر نہیں جارہے ہیں کیونکہ وہاں انصاف نہیں بلکہ محکوم اقوام کےاستحصال کی پالیسیاں بنتی ہے بلکہ ہم اقوام عالم کو جگانےجارہے ہیں،ہم بلوچ نسل کشی کے حوالے سے پوری دنیا کو آگاہ کرنے جارہے،اس جدوجہد میں ہمیں پوری دنیا کی مدد کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button