Column

اتائی راج

تحریر : صفدر علی حیدری
ایک خاندانی حکیم اپنے خاندان کی ناقابل فراموش طبی خدمات بیان فرما رہے تھے
’’ اللہ بخشے دادا حضور فن طب میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ انہیں بزرگوں کی عطا تھی۔ کبھی کتاب کو ہاتھ نہ لگایا لیکن ناڑی کو ہاتھ لگا کر ہر مرض بوجھ لیا کرتے تھے ۔ پھر جوش خطانت میں ہوش کا دامن چھوڑ کر بولے، سبحان اللہ ! کیا کہنا ان کی مسیحائی کا ، یہ قریبی قبرستان انہوں نے آباد کیا ہے ‘‘، شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان کے فن کے تمام چشم دیدگواہ اب قریبی قبرستان میں آن بسے ہیں۔
اچھا ہوتا اگر یہ حکمت نما اتائیت صرف اسی ایک شعبے تک محدود رہتی مگر اس کا حلقہ اثر تو اس قدر پھیل گیا ہے کہ ہماری زندگی کا کوئی میدان اس کی دستبرد سے بچ نہیں پایا ۔ کسی بھی علم کو غیر علمی اور غیر منطقی انداز میں لینے( اور نااہلوں کے ہتھے چڑھنے) سے اتائیت جنم لیتی ہے۔ اتائی سوچ نے کئی ایک فکری قبرستان آباد کر چھوڑے ہیں جبھی تو حکمت سے لے کر ادب تک اور صحافت سے لے کر مذہب تک تقریبا سبھی شعبوں میں اس کے اثرات با آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اتائیت کے فروغ میں کس کا کردار زیادہ گھنائونا ہے ؟
اتائیوں کی موقع پرست اور موقع شناس سوچ کا یا ہمارے جینوئن لوگوں کی مجرمانہ غفلت اور مصلحت آمیز خاموشی کا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو میری رائے سے اختلاف ہو مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس میں زیادہ ہاتھ جینوئن لوگوں کا ہی ہے ۔
مذہبی حلقوں کی طرح ہر شعبے میں دنیا بیزار زہاد کی ہرگز کوئی کمی نہیں جو دنیاوی جھنجھٹ میں وقت ضائع کرنا اپنے نام نہاد زہد کے خلاف سمجھتے ہیں اور یوں ان کا پیدا کردہ خلا اتائیت کی حامل موقع شناس ابن الوقت سوچ پر کر کے معاشرے کی جڑوں تک میں نفوذ پذیر ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریبا ہر شعبے میں یہ سوچ بتدریج بڑھتی اور پروان چڑھتی جا رہی ہے۔ یہ غیر علمی و غیر منطقی نان پروفیشنل افراد ترقی پذیر معاشروں میں با افراط پائے جاتے ہیں ۔ سو ایسے معاشروں میں اتائی راج چھایا نظر آتا ہے۔ زہاد کی خاموشی تا حال برقرار ہے سو اس راج کو دور دور تک کوئی خطرہ نہیں ۔ چونکہ یہ ایک بہت وسیع موضوع ہے۔ سو چند ایک شعبوں کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ طب، تعلیم، صحافت، عدلیہ ، سیاست اور مذہب کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ شعبے ہر فرد کی زندگی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔
طب: عموما ًجب بھی اتائیت کا ذکرِ خیر ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر طب کا شعبہ مراد لیا جاتا ہے۔ خاص طور پر یونانی ، ہومیو اور ڈسپنسرز اس پر اس قدر لکھا گیا ہے کہ مزید لکھنا علمی جگالی کے مترادف ہو گا۔ راقم کو تو اس ایلوپیتھی طریقہ علاج پر لکھنا ہے جس کے بارے میں برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ ان لوگوں کو بندے مارنے کا لائسنس دے دیا جاتا ہے اور یہ کہ ایسے لوگ سائنسی آدمی ہرگز نہیں ہوتے ۔ میڈیا پر آئے روز جعلی کلینکس پکڑے جانے، سیل ہونے اور ہفتے عشرے بعد دوبارہ کھل جانے اور کھل کر پوری دیدہ دلیری سے وہی کام شروع کیے جانے کی خبریں تواتر سے آتی رہتی ہیں ۔ بھاری فیس کے چکر میں مریضوں کو کوٹھی پر آنے کا مشورہ کیا اتائیت نہیں ہے۔ میرے ایک دوست کے بقول ، جو میڈیکل سٹور پر کام کرتے ہیں، ایک مشہور ڈاکٹر کا نسخہ آتا ہے تو ہم لوگ آنکھ بند کر کے ایک مخصوص دوائی اٹھا لیا کرتے ہیں کیوں کہ اس کا نسخے میں پایا جانا از بس ضروری ہے۔ کیا یہ اتائیت کی بد ترین مثال نہیں ۔ اپنی من پسند لیبارٹریوں ( یا اپنی قائم کردہ) میں مریضوں کو ریفر کرنا اور ابتدئی مرحلے میں ہائی پوٹینسی ادویات کا استعمال کرانا ( گویا توپ چلا کر چڑیا مارنا ) کیا اتائیت کے ذیل میں نہیں آتا ؟
تعلیم: تعلیم کے ساتھ جو سلوک ہمارے ملک میں ہو رہا ہے ایسا تو کوئی اپنے بد ترین دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کرتا سرکاری سکول سفید ہاتھی بنا دئیے گئے ہیں جو بھوت بنگلوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ انگریزی تعلیم ( جو انسانی نفسیات کے سراسر خلاف ہے) کو لازمی قرار دے کر معصوم ذہنوں کو غلامی کا درس دیتے ہوئے ان پر مشق ستم جاری و ساری ہے۔ نجی تعلیمی ادارے کسی سرطان کی طرح پھیل کر غریبوں تک تعلیم کی رسائی کو دشوار سے دشوار کرتے جا رہے ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کے نام پر کروڑوں کمائے جارہے ہیں۔ کیا یہ اتائیت کی بد ترین مثال نہیں ۔ چند روز پہلے ایک تحصیل کے ہائی سکول جانے کا اتفاق ہوا۔ جتنا خوش کروڑوں روپے کی نو تعمیر شدہ عمارت کو دیکھ کر ہوا اس سے کہیں زیادہ دکھ اندر کے حالات دیکھ کر ہوا۔ ہر کلاس میں پائے جانے والے آٹھ دس رنگ برنگے دانے ( مختلف رنگ کے کپڑوں میں ملبوس) گویا محکمہ تعلیم کی بے حسی پر ماتم کناں تھے۔ ستم بالائے ستم اساتذہ کا رویہ تھا۔ کچھ منہ کھولے اونگھ رہے تھے۔ کچھ موبائل سے کھیل رہے تھے اور کچھ بے زار آواز کے ساتھ سبق بچوں کو رٹوا رہے تھے۔ ہر طبقے کیلئے الگ نصاب کیا اتائیت کی بھونڈی مثال نہیں ہے۔ ایسا ظلم تو انگریز بھی نہ کر پائے تھے۔ ادھر مدرسوں کا حال ان سے برا ہے جہاں غریب کے بچوں کو بھیک منگوانے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ نصاب پڑھایا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلوں تک میں تعصب کا یہ زہر ٹپکایا جاتا رہے۔ یہ فیکٹریاں دھڑا دھڑ ایسے مولوی پیدا کر رہی ہیں جو خود کو معاشرے میں مس فٹ پا کر اپ سیٹ ہوتے اور معاشرے کو اپ سیٹ کرتے ہیں۔ جب ہم اس طبقے کو ڈس اون کریں گے تو اس کا کچھ نہ کچھ اجر تو ہمیں ضرور ملے گا۔
صحافت: آج کے دور کو یقینا میڈیا کا دور کہا جا سکتا ہے۔ معلومات اور خبروں کے ’ سونامی‘ میں اعلیٰ اقدار بدنامی کی طرح منہ چھپاتی پھرتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی اثر پذیری محتاج بیان نہیں۔ اور تو اور تصور کو حرام کہنے والے بھی اب اس تواتر سے اپنی شکلیں دکھانے لگے ہیں کہ بیزاری ہونے لگتی ہے۔ پیالی میں طوفان اٹھانے والے ٹاک شوز ( جن میں بعض دفعہ دھوئیں کی بجائے پیالیاں اڑتی ہیں)۔ شوبز کے حوالے سے افواہوں پر مبنی پروگرام، جرم و سزا کی حیرت انگیز ڈرامائی تشکیل پر مبنی پروگرام، مختلف قسم کے عطائی حکیموں، ستارہ شناسوں اور مقدس لاکٹوں کے پروگرام کیا اتائیت کو تقویت نہیں دیتے۔
عدلیہ: عدلیہ کو ایک سازش کے تحت سیاسی معاملات میں الجھا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جتنی تنقید عدلیہ پر ( ہارنے والوں کی طرف سے) ہو رہی ہے ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اور تو اور سابق جسٹس صاحبان چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ ماضی قریب میں کئی چیف جسٹس صاحبان بارہا ماتحت عدلیہ کی تطہیر میں ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں ۔ جانے کب غریب کو سستا انصاف مل پائے گا آج عدالتوں کی صورتحال یہ ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں کون سا جج کیا؟
سیاست: سیاست میں تو اتائیت سب شعبوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ ہمارے سیاستدان سیاسی مداریوں اور کاغذی مشیروں کا ایک ایسا ٹولہ ہیں جن سے وفا کی امید عبث ہے۔ کبھی جرنیل اتائی بن کے آتے ہیں تو کبھی اس سیاسی کھیل میں سیاستدان اپنا حصہ بقدرجثہ وصولنے آ جاتے ہیں۔ نان ایشوز کی سیاست کیا اتائیت کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟ بال کی کھال اتارنے والے یہ ظالم لوگ کبھی حقیقی ایشوز پر بات نہیں کریں گے۔ یہ کھال اتارنا انہوں نے شاید عوام پر ظلم کے نتیجے میں سیکھا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال کالا باغ ڈیم کی ہے۔ جس پر سبز باغ دکھانے والے کچھ لوگ اب آنکھیں چراتے ہیں اور زیادہ تر آنکھیں دکھاتے ہیں۔ مسائل کا وجود ہی توان سیا ستدانوں کی بقاء کی ضمانت دیتا ہے۔مذہب: جتنا نقصان مذہب کو اتائیوں کے ہاتھوں ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر باریش آدمی کو مولوی سمجھنے کی روش اتائیت کے فروغ کی واضح مثال ہے۔ بے سمت گامزن مدرسوں سے نکلنے والے متشدد لوگ مولوی بن کر، معاشرے کو فرقہ واریت میں دھکیل دیتے ہیں اور اپنی معاش کی صورت نکالتے ہیں۔ جبکہ حقیقی معنوں میں جو صاحبان علم ہیں ان سے تعارف ہی تب ہوتا ہے جب اس جہان فانی سے ان کی رحلت کی سنگل کالمی خبر شائع ہوتی ہے۔ ان کی موت سے زیادہ حیرت ان کی درجن بھر کتابوں پر ہوتی ہے۔ اتائی مولوی معاشرے میں ان بحثوں کو فروغ دیتے ہیں جن کا انسان مکلف ہی نہیں۔ نور اور بشر کی بحث، حاضر ناظر کی بحث، معراج جسمانی و روحانی کی بحث، فرقوں کو اسلام سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونے کی بات، اسی اتائیت کی چند مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں ایک بھی مدرسہ ایسا نہیں جہاں جامعہ ازہر مصر کی طرح ہر مسلک کے تحت تعلیم دی جاتی ہو۔ ان تمام مسائل اور اتائی راج کے خاتمے کیلئے جینوئن لوگوں کو اپنا نام نہاد زہد کا چولا اتارنا ہو گا۔ اپنے اردگرد کھڑی خانقاہی فصیلیں گرا کر رسم شبیری ادا کرنا ہو گی کیونکہ
جہل خرد نے یہ دن ہیں دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
اور یہی آج کے عہد کا جہاد اکبر ہے ( اتائیت کی بد ترین مثال روحانیت میں اتائیت ہے جس پر روشنی ڈالنا کم از کم میرے بس میں تو ہرگز نہیں کہ یہ تو ایک ضخیم آرٹیکل کا متقاضی ہے جس کا راقم تاحال متحمل نہیں ہو سکتا ہاں کوشش ضرور ہو گی کہ کبھی اس پر لکھ کر قرض اتار دیا جائے ۔ ان شاء اللہ)
اور پیارے پڑھنے والے جہاں میرٹ دیکھا جاتا ہو نیت نہیں، جہاں نام پر نظر ہو کا م پر نہیں، جہاں اہلیت کو قرابت پر قربان کر دیا جائے اور جس جگہ چرب زبانی سچ بیانی پر غالب آجائے وہاں صرف ایک ہی راج ہوتا ہے اور وہ ہے اتائی راج جس کو آج دور دور تک کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ ہرگز نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button