ColumnQadir Khan

غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین

قادر خان یوسف زئی
حالیہ مہینوں میں، پاکستان غیر قانونی امیگریشن کے پیچیدہ مسئلے سے دوچار ہے، غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں بالخصوص پڑوسی ملک افغانستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے نہ صرف امیگریشن قوانین کے نفاذ کے بارے میں بلکہ پاکستان میں پناہ لینے والے غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کی قسمت کے بارے میں بھی تشویش ہے۔ چونکہ اس بار حکومت غیر دستاویزی تارکین وطن کے بارے میں سخت موقف اپنایا ہے، لہذا افغان مہاجرین کو درپیش انوکھے چیلنجوں اور ان کی مشکلات کو دونوں جانب سے گفت و شنید تو بعض افغان طالبان رہنمائوں و حکومتی عہدے داروں کی دھمکیوں نے ماحول میں کشیدگی کی فضا پیدا کردی جو روز بہ روز کشیدہ ہورہی ہے۔ افغانستان کئی دہائیوں سے جاری تنازعات، عدم تحفظ اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ نتیجے کے طور پر، لاکھوں افغان شہریوں نے پڑوسی ممالک میں پناہ حاصل کی ہے، اس میں پاکستان قانونی اور غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کی سب سے بڑی آبادی میں سے ایک کی میزبانی کرتا ہے۔ برسوں سے، یہ پناہ گزین اپنے وطن سے بھاگ کر پاکستان میں آزادانہ نقل و حرکت کر رہے ہیں۔ غیر قانونی امیگریشن کے جاری معاملے کے جواب میں پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ملک کی امیگریشن پالیسی میں اہم تبدیلی کا اعلان کیا۔ تاریخی طور پر، پاکستان نے پناہ گزینوں کے لیے کھلے دروازے کی پالیسی برقرار رکھی تھی، جس کے تحت انہیں پاسپورٹ یا رسمی دستاویزات کے بغیر ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم عندیہ دیا گیا ہے کہ یکم نومبر سے افغان مہاجرین سمیت کسی بھی ملک کے شہریوں کو پاسپورٹ کے بغیر پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مزید برآں، غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افراد کو اپنے آبائی ممالک واپس جانے کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ پالیسی میں یہ تبدیلی پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے لیے ایک اہم چیلنج ہے اور مباحث میں الجھے ان گروہوں کو سمجھنا چاہے کہ حکومت غیر قانونی طور پر مقیم ان غیر ملکیو ں کے لئے سخت پالیسی لا رہی ہے جنہیں متعدد مواقع ملے جس میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام ذیلی ادارے میں رجسٹرڈ ہو سکتے تھے ، لیکن انہوں نے اس امر کو اہمیت ہی نہیں دی۔ غیر قانونی امیگریشن کے حوالے سے حکومتی پالیسی سامنے آچکی ہے تو یہ معاملات صرف غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے لئے ہے، جس میں افغان، بنگالی، بہاری، ہزارہ تاجک، ازبک، برمیوں کے ساتھ کئی قومیتیں ہیں جو بڑی تعداد میں پاکستان میں عرصہ دراز سے کسی دستاویزات کے بغیر رہ رہے ہیں۔ بلاشبہ ان میں سے بہت سے افغانستان میں تنازعات اور تشدد سے بچنے کی عجلت کی وجہ سے مناسب دستاویزات کے بغیر ملک پہنچے۔ ان پناہ گزینوں کو اکثر اپنی حفاظت کے لیے جائز خوف ہوتا ہے لیکن انہیں اپنا اور اپنے خاندان کا اندراج کرانا چاہیے تھا۔ پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کو درپیش مخمصہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ایک طرف، پاکستان کی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور امیگریشن کو منظم کرنے کی خواہش سیکورٹی اور گورننس کے نقطہ نظر سے قابل فہم ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان کا رویہ افسوس ناک بھی ہے ۔ پاکستانی حکومت متعدد بار کوشش کر چکی ہے کہ تنازع کا پرامن اور دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے سفارتی کوشش کی جائے ، حامد کرزئی ، اشرف غنی سے لے کر افغان طالبان حکومت تک درخواستوں پر سخت پالیسی اور افغانیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور انہیں کئی برسوں سے مسلسل مہلت دیتے رہے تاکہ پناہ گزینوں کی رضاکارانہ طور پر وطن واپسی زیادہ محفوظ ہو۔ پاکستان کی جانب سے اپنی امیگریشن پالیسیوں کو سخت کرنے کے فیصلے نے ان افغان مہاجرین کی قسمت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے جو اس کی سرحدوں کے اندر
حفاظت کے خواہاں ہیں۔ اگرچہ سرحدی سلامتی ایک جائز تشویش ہے، پاکستان افغان مہاجرین کو درپیش منفرد چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اور ایک ہمدردانہ اور پائیدار طریقہ اپناتا آیا ہے اور افغان مہاجرین کے بحران کو حل کرنے کے لیے اقوام اور بین الاقوامی تنظیموں کے درمیان ایک مربوط کوشش کی ضرورت کو اجاگر کرتا آیا ہے ، لیکن پاکستان کی انسانی ہمدردی کو کمزوری سمجھا گیا اور کابل انتظامیہ کی جانب سے سخت اور اشتعال انگیزیاں تیز ہو تی گئیں اور یہ سلسلہ موجودہ دور میں بھی جاری ہے۔ ایک جانب بہت سے افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ان کی جانوں کو خطرہ ہے اور اگر انہیں واپس بھیج دیا گیا تو انہیں اپنی حفاظت کا خدشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں جاری تنازع کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگے ہیں اور ان کے پاس جانے کے لیے کوئی دوسری جگہ نہیں ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت نے کہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنا یا جائے گا کہ افغان مہاجرین کی واپسی محفوظ اور منظم ہو۔ تاہم یہ اب بھی واضح نہیں کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کیسے ہو گا۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا سامنا ہے۔ کچھ پاکستانیوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملکی وسائل اور سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی دیگر نے پناہ گزینوں کے تحفظ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں خطرناک صورتحال میں واپس نہیں جانا چاہیے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ پیچیدہ ہے۔ مسئلہ کے دونوں طرف سے قابل فکر دلائل موجود ہیں۔ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے اور اسے اپنی سرحدوں پر کنٹرول کا حق حاصل ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کوئی آسان کام نہیں ۔ اس کے لیے پاکستانی اور افغان حکومتوں کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کے درمیان محتاط منصوبہ بندی اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button