ColumnNasir Naqvi

انڈیا نہیں بھارت

ناصر نقوی
گجرات کے قصائی نے میرا ایک دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا۔ یہ گجرات پاکستان کے بڑے صوبہ پنجاب کا وہ شہر ہرگز نہیں جو چودھری برادران اور پگانوالہ کا شہر کہلاتا ہے۔ الحمد للہ ہمارے شہروں میں مسلمان دشمن قصائی پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ قصائی ہے جو چائے بیچتے بیچتے سیاست میں وارد ہوا پھر اس نے بھارتی ریاست گجرات کی وزارت اعلیٰ سنبھالی اور نعرہ لگایا ’’ ہندوستان، ہندوئوں کا‘‘ ہندو انتہا پسندوں سے ہتھ جوڑی کی اور ہندو ازم کی آڑ میں مسلمان دشمنی کو اپنی پہچان بنایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ گجرات‘‘ کے مسلمان گھرانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہندو مسلم فساد برپا کیا اور مسلمانوں کا خون بھی بہایا گیا اور گھر بھی جلائے گئے، لہٰذا مودی بھی ابھر کر ہندوستان کے ہندوئوں کے ایک منفرد لیڈر بن گئے اور انہیں پھر ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔ مسلمانوں کے خون کی ہولی میں ان کا چہرہ خون آلود دکھایا گیا لیکن مسلمانوں کی بڑی تعداد نے اپنے آپ کو اقلیت جانتے ہوئے ظلم و بربریت برداشت کی اور پورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتیں بھی غیر محفوظ ہو گئیں۔ پہلے ’’ شائننگ انڈیا‘‘ کا نعرہ لگایا گیا پھر وہ بھی ناکام ہوا کہ ہندوئوں کا ہندوستان پر آ کر ٹھہر گیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں۔ جنسی ہراسگی میں دنیا بھر سے آئے سیاح بھی متاثر ہوئے لیکن بڑی ہندو آبادی کے باعث تمام جرم دب کر رہ گئے چونکہ بی جے بی کو بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے ایک پراجیکٹ بنا کر متعارف کرایا اور مودی جی نے ہاں میں ہاں ملائی اس لیے ہندوئوں اور ہندو انتہا پسند تنظیموں کا بول بالا ہوا۔ 1947ء سے لے کر موجودہ دور تک بھارتی حکمران اپنے آپ کو بڑی عالمی طاقت بنوانے کے لیے سرگرداں رہے۔ پہلے ’’ پاکستان‘‘ کو ڈرا دھمکا کر ’’ کنفیڈریشن‘‘ کی خواہش رکھتے تھے لیکن جب پاکستانی قیادت نے خواب ادھورے کر دئیے تو پھر روس، امریکہ سے جدید اسلحہ اور جنگ و حرب ضرب خرید کر متاثر کرنے کی کوشش کرتے رہے اس سوچ میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو عالمی طاقتوں سے مل کر ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک دولخت کرنے کا سہرا اپنے سر باندھ لیا جبکہ حقیقت یہ نہیں تھی۔ بہرکیف حالات و واقعات ایسے پیدا ہو گئے کہ ’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ جیسا سانحہ رونما ہو گیا۔ موجودہ دور میں بھی وہ بڑی آبادی اور بڑی معیشت کے دعوے پر دنیا میں اپنا قد بڑے کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن چاند پر پہنچنے کے باوجود اس کی عوام غربت، مفلسی کا ہی شکار نہیں، صحت، جرائم اور جنسی ہراسگی کے ایسے مسائل میں پھنسی ہوئی ہے جن سے نجات ممکن نظر نہیں آتی، خطے کو دفاعی لحاظ سے توازن ختم کرنے کے لیے ’’ ایٹمی دھماکے‘‘ کر کے دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت بھی بن گیا جس کے ردعمل میں پاکستان نے بھی دھماکے کر کے بتا دیا کہ ’’ ہم کسی سے کم نہیں‘‘۔۔۔۔۔ یوں خطے کا دفاعی توازن متوازن ہو گیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ روز اول سے بھارتی رہنمائوں اور حکمرانوں کے عزائم دوغلی پالیسیوں پر قائم ہیں اپنے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے وعدے کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا گیا بلکہ 76سال میں وہاں ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے اور عالمی امن و انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اپنے مفاد کی غلامی میں تماشائی بنے ہوئے ہیں لیکن بھارتی حکمرانوں کی ناانصافی اور ظلم و تشدد نے نفرت کو جنم دیا، اس وقت ان کی آدھی درجن سے زائد ریاستوں میں آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں بلکہ سکھ برادری ہندوئوں کی انتہا پسندی کے خلاف اپنی آزاد ریاست خالصتان کے لیے ’’ ریفرنڈم‘‘ مہم چلا رہی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی تضاد بیانی اور فاقہ مستی میں ایک انتہائی اہم چال یہ تھی کہ اگست 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد دو قومی نظریہ کے تحت دو علیحدہ ریاستوں کے قائم ہونے کے بعد بھی انہوں نے دنیا کو متاثر کرنے کے لیے اپنے آئین میں انڈیا کا مطلب جان بوجھ کر ’’ بھارت‘‘ لکھا تھا یہی میرا مطالبہ تھا کہ تقسیم ہند پر انگریزوں سے آزادی حاصل کر کے دو ملک ’’ پاکستان اور بھارت‘‘ وجود میں آئے تھے۔ پاکستان دو حصّوں میں تھا اس لیے وہ مشرقی پاکستان ( بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان کہلائے، لیکن بھارتی رہنمائوں نے پاکستان کو کم تر ظاہر کرنے کے لئے ’’ بھارت‘‘ کو دنیا بھر میں انڈیا ہی متعارف کرایا، حالانکہ ان کا آئین اور ترانہ پہلے ہی دن سے ’’ بھارت‘‘ کا ہی تھا کیونکہ انڈیا ( ہندوستان) تو تقسیم ہوگیا تھا پھر بھی وہ علامہ اقبالؒ کا کلام ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ پڑھ پڑھ کر اپنی انا کو تسکین دیتے رہے حالانکہ علامہ اقبالؒ کے خواب کے مطابق ہندوستان تقسیم ہو گیا اور پاکستان بن چکا تھا لیکن ہندو اپنی پالیسی میں ’’ انڈیا‘‘ گریٹر انڈیا کا راگ الاپتے رہے۔ میرا مطالبہ ہمیشہ سے یہی تھا کہ ہندو اپنی دوغلی پالیسی میں بھارت کو انڈیا کہتا رہے کم از کم پاکستانی قیادت، سپہ سالار تو اسے بھارت کے نام سے ہی پکاریں لیکن کسی کو بات نہیں سمجھ آئی۔ جنرل اسلم بیگ سے میں نے اصرار کیا تو وہ ناراض ہو گئے، تاہم میری یہ بحث مختلف ٹی وی اور ریڈیو پروگرام میں ریکارڈ پر موجود ہے ، اللہ کارساز ہے اپنوں نے میری بات نہیں مانی لیکن اب مودی جی کے دماغ میں یہ بات چاند تک رسائی کے بعد آئی کہ ہم تو مہا بھارت والے ہیں زبردستی ’’ انڈیا‘‘ کے ٹکٹ پر سفر کیوں کر رہے ہیں لہٰذا اس ماہ پارلیمنٹ میں ایک قرار داد کے ذریعے آئین میں درستی کی جائے گی کہ انڈیا کا مطلب بھارت نہیں، تقسیم ہند کے بعد بھارت اور پاکستان وجود میں آئے۔ اس قرار داد کے بعد اب ’’ انڈیا‘‘ کا لفظ متروک ہو جائے گا اور ریاست کا نیا نام جو حقیقی ہے ’’ری پبلک آف بھارت‘‘ ہو جائے گا۔ اس ترمیم کے بعد میری طرح بھارتی عوام کا بھی ایک دیرینہ مطالبہ منظور ہو جائے گا کہ اسے قدرت کا کرشمہ ہی سمجھیں کہ میری بات اپنوں کو سمجھ نہیں آئی اور جب وقت آیا تو گجرات کے قصائی مسلمانوں کے دشمن مودی جی نے یہ کام کر دکھایا۔ اس کو کہتے ہیں ’’ دیر آید درست آید‘‘۔
بھارت جی۔20سربراہی کانفرنس کا میزبان تھا، نئی دہلی ریاستی ’’ راج دہانی‘‘ جہاں حکومت بی جے پی مخالف ہے وہاں فول پروف سیکورٹی انتظامات کے لیے مودی سرکار کو بہت کچھ کرنا پڑا، خاص طور پر عالمی مہمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے غریب آبادیوں کو خالی کرایا گیا، شاہرائوں کی تزئین و آرائش سے شہر کی خامیوں کو چھپایا گیا بالکل اسی طرح جیسے امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت پر کیا گیا تھا لیکن بھارت کی سات ریاستوں کی بے چینی نہ جب چھپائی جا سکی اور نہ ہی اب۔۔۔۔ دراصل بھارتی حکمران ہمیشہ سے بنیادی مسائل کے خاتمے کی کوشش کی بجائے شارٹ کٹ راستوں کی تلاش میں رہتے ہیں ورنہ تنازعات اور رعب کی آڑ میں اپنے آپ کو طاقتور کہلانے کا خواہش مند ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ جی۔20کانفرنس میں عوامی جمہوریہ چین اور روس کی ’’ عدم موجودگی‘‘ نے کئی سوال پیدا کئے تاہم چین کی نمائندگی وزیراعظم اور روس کے وزیر خارجہ کانفرنس میں آئے اسی طرح سپین کے سربراہ کرونا کی وجہ سے نہیں آ سکے۔ یوں اہم رہنمائوں کی عدم شرکت سے بھارتی حکومت کو دھچکا لگا ہے۔ موجودہ صورتحال میں مودی جی اور ان کے ہمنوا اپنی کامیابیوں، سفارتی تعلقات اور کامیاب تجارت کا ڈنکا بجانے کی کوشش کر رہے ہیں دنیا کے ذمہ دار بھی اپنے مفادات کی خاطر حقیقی مسائل سے نظریں چرا رہے ہیں لیکن بھارتی نمبر داری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بھارت کو عالمی انسانی حقوق قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں، اسے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وعدہ بھی پورا کرنا پڑے گا اور عام آدمی کو غربت سے نجات بھی دلانی ہو گی بلکہ اقلیتوں کو آئین و قانون کے تحت سہولیات فراہم کر کے ریاستی شورش کو بھی ختم کرنا ہو گا۔ ورنہ مصنوعی انداز سے اپنے آپ کو دھوکہ تو دیا جا سکتا ہے لیکن مسائل حل نہیں کئے جا سکتے۔ پاکستان اس وقت معاشی، سیاسی اور آئینی بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ’’ بھارت‘‘ بڑا ملک ہے لیکن وہاں مسائل اور بحران ہم سے بھی زیادہ ہیں۔ ہماری کرنسی ان سے آدھی قیمت کی ہے پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ وہاں روزگار اور تنخواہیں ہم سے بھی بہت کم ہیں۔ غریب اور مسائل زدہ پاکستان میں ایک ڈرائیور 30سے 40ہزار روپے تنخواہ مع روٹی پانی لیتا ہے وہاں اس سے بھی آدھی تنخواہ بغیر روٹی پانی کے ملتی ہے۔ دور کے ڈھول سہانے۔۔۔۔۔ میرے چھوٹے بھائی اور بہن اس سال اللہ کے فضل و کرم سے فریضہ حج ادا کر کے آئے ہیں بارہ سے 13لاکھ میں سرکاری حج ہوا۔ بھارتی ملے تو حیران تھے اس قدر مہنگا حج ہم تو چھ سی سات لاکھ میں حج کر رہے ہیں پاکستان تو بہت مہنگا ہے۔ آپ لوگ کیسے برداشت کرتے ہیں، دو چار بار بھائی نے برداشت کیا لیکن بھارتی باز نہ آئے تو وہ سیدھے ہو گئے ان کا کہنا تھا بھارتی حج مہنگا ہے۔ تکرار کے بعد حساب کتاب کی باری آئی۔۔۔۔۔ بھائی نے کہا ’’ جناب پہلے تو اپنی کرنسی چھ لاکھ کو پاکستان کے حوالے سے ڈبل کریں، 12لاکھ ہو گیا، پھر اپنی سہولیات بتائیں؟‘‘
وہ بولے’’ ہوٹل کے انتظامات سرکار کے اور آنا جانا کھانا پینا ہماری اپنی مرضی کا‘‘۔
بھائی نے جواب دیا ’’ بہترین ہوٹل کے ساتھ تین وقت کا کھانا اور آمدورفت کے وسائل بھی سرکاری ہیں‘‘
پریشان ہو کر بولے ’’ اچھا‘‘۔
بھائی نے پوچھا’’ اب بتائیں پاکستانی حج سستا کہ بھارتی؟‘‘
کھسیانے ہو کر بولے ’’ واہ بھائی آپ لوگ تو مزے میں ہیں‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارت مذہبی امور نے حج سے واپسی پر ایک لاکھ 32ہزار روپے فی کس ہر حاجی کو واپس بھی دئیے۔ اب سوچیں ’’ مہنگائی پاکستان میں ہے کہ بھارت میں؟‘‘ ہم دنیا سے بے خبر ہر بات میں ’’ پاکستان‘‘ پر تنقید کرتے ہیں جبکہ حقائق یہی ہیں کہ ’’ پاکستان‘‘ ابھی بھی بہت سے ملکوں سے سستا ہے ۔۔۔۔۔ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ یہ آپ کی مرضی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button