ColumnNasir Naqvi

پانچ سالہ میوزیکل چیئر؟

ناصر نقوی
پاکستان میں بظاہر ’’ جمہوریت‘‘ آئین و قانون کے مطابق تیسری مرتبہ اپنی مدت پوری کر چکی لیکن ان ادوار میں بھی کوئی منتخب وزیراعظم چین سے پانچ سال نہیں گزار سکا۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی فتوحات اور جمہوری ادوار کا ڈنکا بجا رہے تھے، جو ش و جذبات میں وہ اپنی ’’ جیالی‘‘ کیفیت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ ہر خطاب میں اپنے ہی قائد ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار سے بھی آگے نکلنے کی باتیں کرتے پائے گئے۔ یہ ادا مقتدر حلقوں کو پسند نہ آئی اور انہوں نے ایک ’’ خط ‘‘ نہ لکھنے پر انہیں بھری عدالت میں بلا کر چند لمحوں کی سزا دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا۔ عدالتی تاریخ کی یہ شاید مختصر ترین سزا ہو گی اور اسے گینز بک آف ریکارڈ کی زینت بھی ہونا چاہیے ، یہی نہیں ، ذمہ دارو ں نے یوسف رضا گیلانی کا ڈنگ ایسا نکالا کہ ممتاز و معروف قانون دان چودھری اعتزاز احسن صفائی میں ایک لفظ تک نہ بول پائے اور معزز ترین عدالت کے جج صاحبان سب کو سکتے میں چھوڑ کر چلے گئے، ردعمل میں صرف ہاتھ ملنے کے اور کچھ نہیں ہو سکا۔ اس سزا میں ایک اور بندوبست بھی کیا گیا کہ یوسف رضا گیلانی آئندہ کسی طور بھٹو صاحب کو چیلنج نہ کر سکیں، ان کی سزا ’’ لمحہ موجود‘‘ کی بجائے ’’ بیک ڈیٹ‘‘ سے دی گئی۔ سوال پیدا یہ ہوا کہ ایسا کیسے ہو گیا؟ جواب ملا، یہ تو عدالت کا کرشمہ ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو جہلمی راجہ پرویز اشرف کیسے وزیراعظم بنتا، عزت اور ذلت دینے والا اللہ ہے، بندہ تو ناچیز ہے پھر جمہوریت نے ہنستے مسکراتے پہلی مرتبہ پانچ سال پورے کر لیے، ورنہ بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف دو دو مرتبہ اپنی آئینی مدت پانچ سال مکمل نہیں کر سکے تھے ایسی صورت حال جب میاں نواز شریف ملکی تاریخ میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو شاہد خاقان عباسی کی قسمت نے انگڑائی لی ، نواز شریف کو ذمہ داروں نے ’’ پانامہ‘‘ جال میں پھنسا کر ’’اقامہ‘‘ اور اپنے ہی برخوردار سے مقررہ تنخواہ کے نام پر وزارت عظمیٰ کی کرسی سے گھسیٹ کر اتار لیا۔ و ہ بڑے چیخے چلائے مجھے کیوں نکالا؟ مقتدر قوتوں کے خلاف جارحانہ انداز میں واویلا، شور و غوغا کیا لیکن انصاف کا بول بالا رہا کیونکہ بڑی عدالت کا بڑا فیصلہ تھا اور لاٹری شاہد خاقان عباسی کی نکل آئی ہے۔ ان کا نام نامی بھی ایسی قدر و منزل نہیں رکھتا تھا کہ کوئی سو چ بھی سکتا کہ وہ کبھی وزیراعظم بھی بنیں گے لیکن حقیقت میں ان کی فائل کئی لحاظ سے مثبت ہے کہ ان کے والد محترم خاقان عباسی نہ صرف مردِ حق آمر مطلق جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے وزیر تھے بلکہ اوجڑی کیمپ واقعہ میں شہید بھی ہوئے، لہٰذا ان پر اعتبار کیا گیا اور وہ بہترین’’ ڈیوٹی فل‘‘ وزیراعظم ٹھہرے اسی لیے اب بھی ان کے بارے میں ذمہ دار حلقے اچھی رائے رکھتے ہیں بلکہ نگران وزیراعظم کی فہرست میں کبھی ان کا نام نامی نمایاں رہا۔ خان اعظم خان عمران احمد خان نیازی کے عروج و زوال کی کہانی دہرانے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ یہ تازہ ترین ہے البتہ اس کہانی میں کچھ نیا یہ ہے کہ یہ عدالتی وار میں اقتدار سے محروم نہیں ہوئے یہ خالصتاً جمہوری انداز میں پارلیمنٹ میں عددی برتری کھونے کے باعث ایوان وزیراعظم سے باہر نکالے گئے لیکن اس ساری کارروائی میں عمران خان کا شکوہ یہ ہے کہ ایمپائرز اور سلیکٹرز نے زور لگا کر میری اکثریت ختم کی جبکہ اپوزیشن جماعتیں 2018ء سے یہ بات کر رہی تھیں کہ سلیکٹرز نے عمران خان کو زبردستی اکثریت دلا کر’’ اقتدار‘‘ سونپا ہے۔ جہانگیر ترین کے جہاز اور عبدالعلیم خان کے اے ٹی ایم کے ساتھ ساتھ سیاسی تاریخ کے اوراق پر سابق سپہ سالار جنرل ( ر) باجوہ کی جادو بھری چھڑی کے غلبے بھی درج ہو چکے ہیں یہ داستانیں سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ابھی بھی ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت نہیں بلکہ آقائی کنٹرول جمہوریت ہے۔ ہاتھی کے دانت دکھانے اور کھانے کے الگ الگ ہی ہیں، ہم اور آپ ہی نہیں، ہمارے تمام جمہوریت پسند سیاسی رہنما صرف اپنے اقتدار اور مفادات کے لیی’’ جمہوریت پسند‘‘ ہیں ۔ ہم دکھاوے کے لیے ’’ اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ بھی ہیں ، اندر سے اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملانا ہی پسند کرتے ہیں کیونکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے محاذ آرائی کے بعد اقتدار کی کرسی حاصل کرنا مشکل ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مہذب اورترقی یافتہ ممالک میں سب کچھ سسٹم کے تابع ہے اور ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہم ’’ مادر پدر‘‘ آزاد ہیں، نہ کوئی سسٹم ہے اور نہ ہی کوئی اسے بنانا چاہتا ہے۔ ہر فیصلہ وقتی اور وقت گزاری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لہٰذا نتائج بھی سب کے سامنے ہیں ہم کسی حادثے، سانحے اور دنیا کے تجربات سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ قومی مستقبل، ترقی، خوشحالی، بے روزگاری کے خاتمے، مہنگائی سے نجات اور آئینی تقاضوں میں بہتری کے لیے کسی بھی سطح پر ’’ تھنک ٹینک‘‘ نہیں رکھتے اس لیے ہماری ہر منصوبہ بندی وقتی ہوتی ہے ہم اس قدر بیزار ہیں کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے ساتھ عوامی فلاح کے لیے پانچ سال کے لیے حکومت منتخب کرتے ہیں لیکن ڈھائی تین سال میں اس کے خلاف ہو جاتے ہیں اسی سوچ کے باعث ماضی میں آئینی مدت میں ایک سال کی کمی سے ’’ مدت اقتدار‘‘ چار سال کرنے کی تحریک بھی چلی تھی یہی نہیں ہم نی صدارتی نظام سے تنگ آ کر پارلیمانی نظام کو اپنایا ، اب پھر چند سالوں سے صدارتی نظام کی افادیت کا سبق پڑھانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ فلسفہ صرف عمران خان کو سمجھ آیا ، اکثریت نے اسے مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ صدارتی نظام‘‘ پہلے بھی ناکام ہوا اور اب بھی ناکام ہی رہے گا۔
اتحادی حکومت کے بقول انہوں نے مشکل ترین حالات میں ریاست بچائی ، سیاست نہیں بچا پائے اس لیے کہ سخت فیصلے وقت کی ضرورت تھے اگر مصلحت پسندی اور اپنی سیاست بچانے کے لیے ’’ ووٹرز‘‘ کی فکر کرتے تو پھر ریاست کسی بھی طرح ’’ ڈیفالٹ‘‘ سے نہیں بچ سکتی تھی حالانکہ سابق مفاہمتی صدر پاکستان اور بڑے اتحادی آصف علی زرداری نے ملکی کامیابی اور ترقی کے لیے ’’ ڈیفالٹ‘‘ کو بھی تریاق قرار دیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دنیا کی جتنی بھی ریاستیں ڈیفالٹ ہوئیں سری لنکا سمیت ان کا جائزہ لے لیں وہ زیادہ پرعزم ہو کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہیں۔ تاہم اتحادی حکومت اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے ’’ ڈیفالٹ‘‘ ہونے کا رسک نہیں لیا بلکہ بحران سے نجات کے لیے اپنا ارسطو جسے مخالفین ’’ منشی ‘‘ کہتے ہیں اسحاق ڈار بھیج دیا۔ جس طرح حکومت مہنگائی ختم کرنے آئی اور کچھ نہیں کر سکی ، نتیجہ تقریباً ویسا ہی اسحاق ڈار کی آمد سے نکلا، نہ مہنگائی کم ہوئی، نہ ہی ڈالر کو وہ ڈارلنگ بنا سکے۔ البتہ آئی ایم ایف معاہدے اور شرائط سے قوم کا جینا حرام ہو گیا تاہم دعویٰ حکومتی یہی ہے کہ پندرہ ماہ میں ہم نے پرانے معاہدے اور غیر ملکی تعلقات بحال کئے۔ ملک کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیا۔ اجتماعی مفاد میں اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا کر ایسے کام کئے جس کے نتائج مستقبل کے لیے بہترین ہوں گے لیکن عوام ابھی تک ان ثمرات سے محروم ہے اور شاید آئندہ بھی محروم ہی رہے کیونکہ اب جو کرنا ہے وہ نگران کر لیں گے، نگران حکومت کبھی بھی منتخب حکومت کے فرائض ادا نہیں کر سکتی اس لیے اسے ہر قسم کی معافی دی جا سکتی ہے لیکن یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ بھی عوام اور پاکستان کے ساتھ ساتھ الیکشن سسٹم کو معافی دے گی کہ نہیں اس لیے کہ اس کا ایجنڈا اور اختیارات منتخب حکمرانوں والے نہیں ہوتے، ایسے گھمبیر حالات میں مارشل لائی حکومت کی کوکھ سے جنم لینے والے مسلم لیگی جمہوری ’’ بقراط ‘‘چودھری احسن اقبال نے یہ ارشاد جاری کر دیا ہے کہ اقتدار کی پانچ سالہ میوزیکل چیئر سے ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر کبھی بھی گامزن نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے کم از کم دس سالہ مسلسل پوری توجہ اور ذمہ داری سے طویل مدتی منصوبوں پر کام کرنا ہے وہ آپا نثار فاطمہ کے فرزند ارجمند ہیں ان کی تعلیم قابلیت اور ذہانت پر کسی کو شک نہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ ماضی میں ’’وژن 2025ئ‘‘ کا کیا ہوا؟ بلکہ انہوں نے جتنے بھی طویل مدتی منصوبے بنائے وہ کہاں گئے؟ بہرکیف ان کی اس سوچ سے انکار نہیں کیا جا سکتا، جو قومیں دس بیس سالہ منصوبہ بندی کرتی ہیں، کامیابیاں ان ہی کا مقدر بنتی ہیں لیکن اس کے لیے بد اعتمادی کی فضاء کا خاتمہ بھی کرنا ہو گا جس کے تحت ہر ’’ صاحب اقتدار‘‘ ماضی کے منصوبوں کا خاتمہ کرنا اپنا فرائض منصبی سمجھتا ہے۔ آئین اور قانون کے تحت ’’ پارلیمنٹ‘‘ کو ایسے قوانین بنانے ہوں گے جن کے تحت اجتماعی مفادات کے منصوبہ جات کو ختم نہ کیا جا سکے۔ البتہ طریقہ کار میں تبدیلی کی گنجائش ہونی چاہیے۔ جیسے موٹر وے منصوبے کو چھ سے تین رو میں بے نظیر بھٹو نے تبدیل کیا لیکن اسے بند نہیں کیا، اسی طرح نواز شریف نے عوامی فلاح کا منصوبہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے مزید بہتر بنایا اگر اس روایات کو آگے بڑھایا جائے، مستحکم کیا جائے تو یقینا قومی ادارے مضبوط ہوں گے اور ترقی و خوشحالی کے کام آزادانہ طور پر کئے جا سکیں گے۔ اسی طرح احسن اقبال کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ تعلیمی نظام میں بہتری لائے بغیر نئی نسل اور معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں ان کا یہ دعویٰ بھی سو فیصد درست ہے کہ اگر پاکستان محدود وسائل اور اَن گنت مسائل میں مبتلا ہونے کے باوجود ’’ ایٹمی طاقت‘‘ بن سکتا ہے تو پھر ہیپا ٹائٹس، پولیو جیسے امراض کا خاتمہ کیوں نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں صلاحیتوں اور ہنرمندوں کی کمی نہیں، مثبت سوچ سے جہد مسلسل کی ضرورت ہے، ہمیں اجتماعی مفادات، مملکت اور نئی نسل کے روشن مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے طویل مدتی ایسے منصوبے بنانے ہوں گے جنہیں کوئی صاحب اقتدار حکومت روک نہ سکے۔ یہ کام عدم توجہی کی وجہ سے نہیں ہو رہا، ورنہ ’’ ایٹمی طاقت‘‘ کے حصول کے لیے جمہوری اور آمرانہ حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی اور اسے کسی بھی دور میں روکا نہیں گیا، یہی جذبہ دوسرے منصوبہ جات کے لیے بھی ہونا چاہیے ، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہم تمام تر جمہوری جذبوں کے باوجود کسی منتخب حکومت کو تین سال سے زیادہ تسلیم ہی نہیں کرتے، آخری مثال خان اعظم کی ہے وہ اور ان کے حواری دس سے بیس سال کی منصوبہ بندی کر کے حقیقی آزادی اور قوم کو انصاف دلانے آئے تھے۔ حالات نے انہیں نہ صرف اقتدار سے نکال ڈالا بلکہ قید کر دیا اور اب وہ اور اُن کے ساتھی انصاف کے تمنائی ہیں یعنی ابھی تو ’’ ہم اور آپ‘‘ کے ساتھ سیاسی قیادت بھی پانچ سالہ اقتدار کی میوزیکل چیئر سے مطمئن نہیں ہوئی، ایسے میں طویل مدتی اقتدار تو دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button