ColumnQasim Asif

مطالعہ پاکستان، حقیقی پاکستان اور ہم

محمد قاسم آصف جامی

ملکِ عظیم پاکستان اپنے معرضِ وجود میں آنے کے ساتھ ہی کئی موذی امراض میں پیدائشی طور پر مبتلا ہے اور بدقسمتی سے کوئی صاحبِ حکمت ان امراض و گنجلک مسائل کا تریاق نہ دے سکا۔ ان مسائل میں سب سے پہلا اور بنیادی مسئلہ ’’ مذہبی و قومی ریاست‘‘ کا ہے۔ اس میں اتنی پیچیدگیاں ابھی تک کتابوں کا حصہ ہیں کہ سادہ لوح طالب علم اور شہری کسی ایک نکتہ نظر پر صدقِ دل سے اطمینان تو کجا، دلیل کے ساتھ بات کرنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں، اس لیے کہ فریق ثانی کے پاس بھی دیگر کتب سے کئی دلائل موجود ہوتے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین کا فلسفہ و نظریہ خالصتاً ’ مذہبی ریاست‘ کا حصول تھا یا ایک ایسی قومی ریاست کا قیام، جو مسلمانوں کے لیے ہر اعتبار سے پُرامن اور محفوظ ہو۔ یہ دو الگ الگ ’’ فکریں‘‘ بھی ہیں اور علیحدہ علیحدہ ’’ محلِ نظر سوالات‘‘ بھی۔
دوسرا معاملہ اس میں نظامِ حکومت کے مختلف طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کار کے متعین ہونے کا ہے۔ مطالعہ پاکستان کی کتب بینی کریں تو اس کی بنیاد جمہوریت معلوم ہوتی ہے جبکہ یہاں خلافت و ملوکیت، صدارتی نظام حتیٰ کہ امامت کے نعروں اور منشوروں کی تحریکیں اور تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں۔ ایسی تعداد ابھی بھی موجود ہے جو جمہوریت کو کفر قرار دیتی ہے اور اس کے برعکس صدارتی یا خلافتی سسٹم کو اسلام کا مطالبہ بھی مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک نظام پر اتفاق کے بجائے جو عدمِ استحکام کی صورتحال ہے، وہ مسائل کے حل میں بڑی وجہ ہے۔
مطالعہ پاکستان میں تیسرا ایشو ’’ اصل طاقت اور اختیارات‘‘ کے آئینی استعمال اور حوالگی و سپردگی کا ہے۔ آئین کی رُو سے تمام تر معاملات میں اصل اختیار اور قوت ’’ پارلیمنٹ اور سینیٹ‘‘ کے پاس ہے جبکہ حقیقی پاکستان میں آج تک کوئی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا اور باگ ڈور کسی اور کے پاس محفوظ ہے۔ چوتھا معمہ آئین کے تقدس اور مفادات کی زد میں ترامیم کھاتا ہمارا ’’ دستورِ مفادات‘‘ ہے۔ آئین میں تمام چیزوں کی وضاحت کے ساتھ ہمیں مطالعہ پاکستان میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کی حیثیت مقدم اور مقدس کتاب کی مانند ہے جبکہ حقیقی پاکستان میں ہم نے آئے روز اسی بابرکت آئین میں تحریف و تبدیلی ہوتے دیکھی ہے۔ آج اگر ایک چیز کسی کے حق میں ہے تو ممکن ہے کل وہی اسی ترمیم کرنے والے کے خلاف استعمال ہورہی ہو۔ پانچواں دائرہ دیگر مذاہب کے ساتھ ریاست و حکومت کے تحفظ اور ہمارے عوامی رویے کا ہے۔ مطالعہ پاکستان کی رُو سے تو تمام شہری سیاست، سیاحت، عبادت، کاروبار، معاملاتِ زندگی میں برابری کی سطح پر گردانے جاتے ہیں جبکہ حقیقی پاکستان میں اس کے نتائج مختلف ہیں۔ دیگر مذاہب کے باشندگان کے ساتھ سلوک کی بابت کئی ایسی مثالیں اور سروے دکھائے جاسکتے ہیں، جن میں وہ ہم سے ہمارے حقیقی پاکستان اور مطالعہ پاکستان کے ’’ بناوٹی پاکستان‘‘ کے بارے میں دریافت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک اور اہم گتھی اس ملک کے بڑے وسائل کے بارے میں آج تک سمجھ میں نہ آ سکی، اس کی وجہ یا تو ہماری کج فہمی ہو سکتی ہے یا پھر فہمیدہ دانشمندانِ مملکت کی دوہری دستاویزات۔ ہمارے ہاں انگریز کا دیا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ’’ نہری نظام‘‘ ہے اور مطالعہ پاکستان میں اس کو بڑی شان و فخر سے درجہ بدرجہ بیان کیا جاتا ہے لیکن کوئی صاحبِ بصیرت ذرا سی کوشش کے ساتھ اس کا جائزہ لے تو تمام نہریں بلکہ اب تو دریا بھی ’ بدبودار و گندے نالوں یا بنجر میدانوں‘ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ گویا اگر صرف مطالعہ پاکستان پر ہی انحصار کیا جائے تو کسی بھی جماعت کی مطالعہ پاکستان کی کتاب سے ’’ وسائل کا باب‘‘ کھولا جائے اور اس بڑے نہری نظام سے ایک ’’ پانی کا نالہ‘‘ نکالتے ہوئے سیدھا اپنی زرعی زمین تک پہنچا دیا جائے یا پھر اس قابلِ فخر صفحے کو اکھاڑ کر اپنی زمین میں پھینک دیں اور زمین سیراب کریں۔ یونہی ہمارے ہاں گیس کے بھی وافر ذخائر مطالعہ پاکستان میں پائے جاتے ہیں لیکن حقیقی پاکستان میں آپ کو گرمیوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہتا ہے اور دیگر ذرائع سے مدد لینا پڑتی ہے۔ اس کا بھی آسان حل وہی ہے کہ کتاب سے گیس کے پائپ کو نکالتے ہوئے چولہے سے جوڑیں اور لذیذ پکوان تیار فرمائیں۔ اسی طرح زراعت کے اعتبار سے ہم دنیا بھر میں مشہور ہیں اور گندم، چاول، چنا اور کپاس کے علاوہ دیگر اشیائے خوردونوش باہر بھیجتے ہیں لیکن حقیقی پاکستان میں اگر ’’ ہائوسنگ سوسائٹی مافیاز‘‘ کا یہی حال رہا اور ان کو ایک خاص ماڈل اور پالیسی کے تحت نہ کیا گیا تو حقیقی پاکستان، مطالعہ پاکستان سے کوسوں دور نظر آئے گا۔ ایسے ہی سیاحتی مقامات ہمارے ہاں خدا کی نعمت ہیں مگر ہماری تربیت اور عوامی رویے سے یہ نعمت بھی زیادہ دیر تک ہمارے پاس نہیں رہے گی۔ پُر فضا مقامات پر آلودگی پھیلانا، کوڑا کرکٹ پھینکنا ہم اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں جبکہ غیر ملکی زائرین اور سیاحوں کا ان مقامات کی صفائی کرنا اور پلاسٹک بوتلیں اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک کر ویڈیوز بنانا ہمارے مجموعی رویے اور عمل پہ زور دار طمانچے کی مانند ہے۔ تیزی سے ناپید ہوتی جنگلی حیات ہو یا قدرتی آفات۔ ہماری کسی جانب کوئی توجہ نہیں۔ ثقافت کو دیکھیں تو وہ بھی اپنی رعنائیاں کم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ انگریز کا ہی دیا ہوا ریلوے سسٹم تباہی کے کس دھانے پر کھڑا ہے، آپ آئے روز کسی بھی روزنامہ میں اس کے تفصیلی احوال پڑھ سکتے ہیں۔ رہی سہی کسر ان تمام کوتاہیوں میں اصلاح کے بجائے مطالعہ پاکستان کے مطابق ہمارے ’’ آزاد ذرائع ابلاغ‘‘ نے نکال دی۔ برعکس اس کے حقیقی پاکستان میں آپ کو ہر چینل کسی مخصوص پارٹی کا حامی یا حریف ملے گا یوں ہی کئی ایسی خبریں، تحاریر اور کالمز ہوتے ہیں جو اخبارات میں اشاعت کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔
ہمارے تعلیمی نظام میں رویے بناتا اور تربیت کرتا مطالعہ پاکستان کا نصاب حقیقی پاکستان سے کس قدر آشنا ہے، اس کی جانب فضیل جعفری صاحب نے اپنے اس شعر میں یوں توجہ دلائی کہ:
زہر میٹھا ہو تو پینے میں بھی مزا آتا ہے
بات سچ کہیے، مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button