ColumnJabaar Ch

9مئی اور آرمی ایکٹ

جبار چودھری

ویسے تو ہمیشہ ہی ایک دوڑ عدلیہ ،اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں میں جاری رہی ہے لیکن آج کل کچھ زیادہ تیز ہوگئی ہے ۔وجوہات کچھ سامنے کی ہیں اور کچھ پوشیدہ لیکن پوشیدہ بھی بس اتنی کہ سبھی جانتے ہیں منصف کسی کی محبت میں عدل وانصاف کو سیاسی عدسے میں دیکھنا شروع ہوگئے ہیں۔پہلے تو یہ تاثر تھا کہ سلسلہ صرف سپریم کورٹ اور اس کے چند معزز ججز تک محدود ہے پھر یہ سلسلہ دامادوں اور خوش دامنوں تک دراز ہوگیا۔رہی سہی کسر اگلے پچھلے مقدمات میں ’’ بلینکٹ‘‘ ضمانتوں کے احکامات نے پوری کردی۔پھر سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کے بیٹے کو پارلیمانی کمیٹی نے آڈیولیکس کی انکوائری کے لیے بلوایا تووہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں انصاف کے بہتے دھارے میں ہاتھ دھونے پہنچ گئے۔ اس مرتبہ وہ معززجج صاحب سامنے آئے جو جج بننے سے پہلے انگریزی اخبار میں کالم لکھا کرتے تھے۔ ان کے کالم پڑھتے تو لگتا تھا کہ مائی لارڈ جمہوریت اور جمہوری اقدارکے کمال کے دلدادہ ہیں ۔اب تک بھرم قائم ہی تھا کہ ثاقب نثار کے بیٹے نے دستک دی تو مائی لارڈ بابرستار صاحب کی عدالت میں مقدمہ آگیا ۔ اس عدالت میں بھی اسی نصاب پر عمل ہوتا دکھائی دیا کہ پہلی ہی پیشی پر سپوت کو اسٹے سے نوازکر سکون سے گھر جانے کا بندوبست کردیا۔پالیمان جو سپریم کہلاتی ہے اسی پارلیمان کی کمیٹی منہ دیکھتی رہ گئی۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ملک میں بہت سے مسائل کی جڑعدالتوں کے اسٹے آرڈراور’’ بے حساب ‘‘ضمانتیں ہیں۔کیس اسی وقت تک زندہ رہتا ہے کہ جب تک اسٹے یا ضمانت نہیں دی جاتی ۔یوں ہی اسٹے یا ضمانت مل جاتی ہے اس وقت کیس کو ختم ہی سمجھیں۔عدلیہ کی کس کس چیز کورویا جائے کہ تازہ خبر سن لیں کہ چیف جسٹس نے پانامہ کیس میں نوازشریف کے علاوہ باقی چار سو لوگوں کے خلاف کارروائی کے لیے دائر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی پٹیشن کو سات سال بعد۔۔ جی سات سال بعد سماعت کے لیے مقررکردیا ہے اور اس میںآگے سن لیں شکر ہے کہ سراج الحق صاحب بقید حیات ہیں لیکن ان کے ساتھ دوسرا پٹیشنز اس کیس کے انتظار میں انتقال کرچکا ہے۔ اب ہمیں نومئی کے واقعات میں ملوث افراد کے ٹرائل کا سامنا ہے تو یہاں بھی کمال کیاجارہا ہے کہ ابھی کوئی ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا۔معاملہ صرف ابھی تفتیش کے مرحلے میں ہے کسی پر کوئی فرد جرم ہی عائد نہیں ہوئی کہ معزز عدالتوں نے لوگوں کو بری کرنا شروع کردیا ہے۔ یاسمین راشد صاحبہ جن کی آڈیو موجود ہے کہ ’’ یہاں ( کور کمانڈرہائو س ) تو سب ہوگیا اب آگے بتائیں کہاں جانا ہے‘‘ لیکن ان کو معزز جج صاحب نے کور کمانڈر ہائوس حملہ کیس سے بری کردیا ہے۔اگر یاسمین راشد بری ہیں تو پھر عالیہ حمزہ صاحبہ اور باقی خواتین کا کیا قصور ہے ان کو کیوں جیل میں بند کیا ہے ان کو بھی بری کردیں ۔ دوسری طرف پرویزالہٰی کا معاملہ ہے ۔ انٹی کرپشن اور عدالت میں عجب تماشا چل رہا ہے۔پتہ نہیں نظام بدل گیا ہے یا نئے پاکستان کے اثرات ہیں کہ جوڈیشل سسٹم بھی نئے کام کررہا ہے۔انٹی کرپشن والے اربوں کی کرپشن کے کیس بناکرلے جاتے ہیں ۔عدالت سے ریمانڈ مانگتے ہیں جواب میں جج صاحب بغیر کسی ٹرائل ،بغیر کسی تفتیش کے سیدھا کیس سے بری کردیتے ہیں۔میں نہیں کہتا کہ مقدمات سو فیصد درست ہوں گے لیکن تفتیش اور فرد جرم تک تو بات آنے دیں لیکن یہاں پتہ نہیںکس کو کیا جلدی پڑی ہوئی ہے ۔چلیں اگر جوڈیشل سسٹم میں تیزی آہی گئی ہے تو خدارا اس کو پرویز الٰہی اور یاسمین راشد سے آگے ایک عام اور غریب آدمی کے لیے بھی تو استعمال کرو۔اگر عدلیہ کے یہ جج انصاف کی یہ رفتار ایک عام غریب آدمی کے حق کے لیے استعمال کرنا شروع کردیں تو ہمیں پرویزالٰہی اور یاسمین راشد جیسے طاقتوروں کی بریت بھی قبول ہے لیکن کیا مائی لارڈزعام آدمی کے لیے اپنا نصاب بدلیں گے؟ ہمارے جوڈیشل سسٹم کی یہی تفریق اور تقسیم کو دیکھ کرآرمی ایکٹ اور فوجی عدالتوں کی طرف توجہ جاتی ہے۔نومئی کے کچھ مقدمات بھی آرمی ایکٹ کے تحت چلانے کی منظوری ہوچکی ہے۔ ان مقدمات کے ٹرائل کے لیے آرمی ایکٹ کا سہارا تو لیا جارہا ہے لیکن ماضی کے برعکس الگ سے فوجی عدالتیں قائم نہیں کی جا رہیں۔ یا ابھی تک قائم نہیں کی گئیں۔ آرمی ایکٹ تو انیس سو باون سے رائج ہے لیکن سویلین کے ٹرائل کے لیے الگ سے باقاعدہ فوجی عدالتوں کا قیام اب تک صرف دو بار عمل میں لایاگیا ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں بار فوجی عدالتیں قائم کی گئیں تو ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔پہلی بار جب سویلین کے ٹرائل کے لیے فوجی عدالتیں بنائی گئیں تو اس وقت میاں نوازشریف کی حکومت کا دوسرا دورتھا۔انیس سو اٹھانوے میں جب کراچی میں حالات خراب تھے تو کراچی کی حدتک فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں۔ہماری فوج میں تو آرمی کورٹس جیگ برانچ کے تحت موجود ہیں اور تینوں مسلح افواج سے منسلک ملٹری والوں کے مقدمات کا فیصلہ کرتی ہیں ۔لیکن حکیم سعید کے قتل کے بعد جب کراچی میں امن وامان کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی تو وہاں مقدمات کا تیز ٹرائل کرنے کے لیے یہ عدالتیں 20نومبر1998 کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قائم کی گئیں۔فوجی عدالتیں کراچی کے ملیر کینٹ میں قائم ہوئیں۔ ایک عدالت ایک کرنل اور دو میجررینک کے فوجی افسروں پر مشتمل تھی ۔یہ عدالتیں دو ماہ ہی کام کرپائی تھیں کہ سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن پر17فروری 1999کو فوجی عدالتوں کو غیرقانونی قراردے کر کالعدم کردیا گیا۔دوماہ میں فوجی عدالتوں نے بہت سے ملزموں کا ٹرائل کیا جن میں سے سزا پانے والے دومجرموں رفیع ببلی کو اکتیس دسمبرکو ایک بچی کا ریپ کرنے پرپھانسی دی گئی ۔دوسرامجرم حبیب بلوچ تھا جس کو ڈکیتی اور قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی۔فوجی عدالتوں کا دائرہ اختیار سنگین جرائم کے فیصلے کرناتھا ۔کوئی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ اس میں مداخلت یا اپیل کا اختیار نہیں رکھتی تھی ۔ دسمبر دوہزار چودہ کو پشاور میں سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ایک بار پھردہشتگردوں کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس بار فوجی عدالتیں قائم کرنے کا طریقہ کار پہلے سے مختلف تھا۔1998میں فوجی عدالتوں کا فیصلہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کیا گیااسی وجہ سے سپریم کورٹ نے اس کو ختم کردیا تھا۔دوہزار پندرہ میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ۔اسمبلی کی طرف سے دوسال کے لیے ملٹری کورٹس کے قیام کی قانون سازی کے بعد 9جنوری 2015کو پاک فوج نے ملک میں 9عدالتیں قائم کردیں۔یہ عدالتیں اس نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھیں جس پرتمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق تھا۔یہ عدالتیں جنوری 2017کو اپنی دوسالہ آئینی مدت پوری کرکے خودبخود ختم ہوگئیں۔اس عرصے میں فوجی عدالتوں نے 274ملزموں کا ٹرائل کیا۔اس میں سے 161مجرموں کو موت کی سزاسنائی گئی۔113کوعمرقید ہوئی لیکن سزا پانے والوں میں صرف 12مجرموں کو ہی پھانسی دی جاسکی باقی مجرموں نے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس میں اپیلیں دائر کردیں ۔جومائی لارڈز کی توجہ کی منتظر ہیں لیکن سپریم کورٹ کے پاس وقت ہی کہاں ہے کہ ان کی ترجیح ریمانڈ کے دوران ایک لاڈلے کو فوری باہرنکالناہے۔ہر صورت میں الیکشن کروانا ہے۔آڈیولیکس کے کمیشن کو کام سے روکنا ہے۔پارلیمنٹ کی قانون سازی کو وقت سے پہلے سٹے دیناہے ۔دہشت گردی کی خیر ہے وہ تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن اپنی مدمت ملازمت ختم ہونے سے پہلے کسی کو ’’ ملازمت‘‘دلوانی زیادہ اہم ہے۔ اب تک کی تاریخ دیکھیں تو فوجی عدالتوں پر تنقید زیادہ لیکن اس کے فوائد کم ہوئے ہیں کہ سزاکے بعد اپیلوں میں مقدمات پھنس جاتے ہیں ۔ 2014ء کے بعد قائم فوجی عدالتوں کے اثرات اس قدر ضرورہوئے کہ ملک سے دہشتگردی بہت حد تک کم ہوگئی تھی ۔اب نومئی کے بعد کچھ مخصوص مقدمات کو ٹرائل کے لیے فوجی عدالتوں میں بھیج دیا گیا۔عمران خان کا مقدمہ بھی آرمی ایکٹ کے تحت چلانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن اس کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔عمران خان صاحب نے آرمی ایکٹ اور فوجی عدالتوں کے خلاف ایک درخواست سپریم کورٹ میں بندیال صاحب کی کورٹ میں دائرکردی ہے لیکن ابھی اس کی سماعت نہیں ہوسکی ہے۔ کیا نو مئی کے ملزموں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکے گا یا بندیال صاحب یہاں بھی سٹے آرڈر دیں گے اس کے لیے انتظار کرتے ہیں۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button