Column

کھربوں ڈالرز کا مالک !

یاور عباس

گزشتہ چند ماہ سے ملک میں معاشی بدحالی کے باعث صورتحال اتنی گھمبیر ہوچکی ہے کہ آئی ایم ایف نے بھی آنکھیں موند لیں ہیں ، چند روز میں بجٹ پیش ہونے والا ہے اور آئی ایم ایف کے بغیر بجٹ سے ملک کی معاشی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہونگے ، اپوزیشن تو خدشات ظاہر کر رہی تھی کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے لیکن بعض حکومتی وزراء نے بھی عندیہ دے دیا کہ ہم ایک ڈیفالٹ ملک میں رہ رہے ہیں، معاشی اعشاریے بھی صورتحال کی مخدوشی بتا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف خود کئی بار فرماچکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردی گئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے کئی بار قوم کو بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کی کڑی سے کڑی شرائط قابل عمل نہیں مگر پھر بھی مشکل فیصلے کئے گئے ۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے بعد ہمیشہ نتائج قوم کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتے ہیں ۔ اس ساری صورتحال کے باوجود ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قوم کو نوید سنائی ہے کہ ہم ڈیفالٹ ہونے نہیں جارہے ، پاکستان اربوں کھربوں ڈالر کا مالک ہے ، ہم کیسے ڈیفالٹ ہوسکتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی یہ منطق پاکستان میں پہلے کبھی کسی معیشیت دان یا پھر تیس سال سے حکومتوں اور ان کے وزراء خزانہ کے ذہن میں نہیں آئی وگرنہ ہوسکتا ہے کہ ہم پہلے دن سے ہی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہی نہ۔ اپنے اثاثے نکالتے تھوڑے سے بیچتے اور اپنی ضرورت پوری کر لیتے یوں آج ہم دنیا بھر میں کسی کے بھی مقروض نہ ہوتے۔ کسی بھی ملک، قوم یا پھر خاندان کی ترقی کا دارومدار اس کی معیشت پر ہوتا ہے، معاشی حالات اچھے ہوں تو سوسائٹی میں عزت اور مقام و مرتبہ بھی منفرد ہوتا ہے اور اچھے بھلے باصلاحیت شخص کے معاشی حالات بہتر نہ ہوں تو وہ اکثر محفلوں میں مذاق ہی بنتا ہے، حالانکہ ہمارے مذہب میں عزت و تکریم کا معیار دولت نہیں ہے بلکہ تقویٰ ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مقام و مرتبہ کے لیے معیار تقویٰ اور پرہیزگاری ہے مگر ہمارا ملک جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا لیکن 75برس گزرنے کے بعد بھی کیا یہاں ہم اسلامی معاشرہ تشکیل دے پائے ؟ یا پھر یہاں جمہوریت کو کس حد تک پروان چڑھا پائے ؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر ہمیں بحیثیت قوم اپنے دستور کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، اس معاشرہ کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے ، قائداعظم محمد علی جناح کے نظریہ پاکستان کو ازسرنو قوم میں متعارف کرانے اور اس کی تکمیل کے لیے جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان بنانے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو مذہبی ، سیاسی ، سماجی آزادی فراہم کرنا تھی مگر یہاں مذہبی جماعتوں کو سیاست میں کبھی مضبوط نہیں ہونا دیا گیا کسی بھی دینی جماعت کی اسمبلیوں میں کتنی نمائندگی موجود ہوتی ہے سب جانتے ہیں ، سیاست کے دروازے ہر پاکستانی کے لیے نہیں کھلے بلکہ یہاں صرف سرمایہ دار لوگ ہی سیاست کر سکتے ہیں ، پاکستان کی موجودہ اسمبلیوں میں شاید ہی کوئی ایسا رکن موجود ہو جو الیکشن جیتنے سے قبل جس کی آمدن محض مزدور کے برابر ہو۔دوسرا مقصد لوگوں کی معاشی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنا تھا ۔ مساوات کا نظام رائج کرنا تھا لیکن ہماری 2فی صد اشرافیہ نے اقتدار چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آکر اسی قوم کا خون چوسا اور ملک پر قرضوں کا پہاڑ کھڑا کر دیا ۔ اب جب کہ ہم قرضے اتارنے کی پوزیشن میں نہیں رہے بلکہ قرض کی قسطیں دینے کے لیے بھی ہمیں قرض لینا پڑا رہا ہے اور جب عالمی مالیاتی ادارے قرض دینے سے بھی ہاتھ کھینچ رہے ہیں تو ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کھربوں ڈالر کے اثاثے موجود ہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہم اسے پاکستان کے غریب عوام کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ جن کی ریاست کے پاس کھربوں ڈالر کے اثاثے موجود ہیں مگر لوگ مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے سسک سسک کر مر جاتے ہیں، غریب کا بچہ تعلیم حاصل کر سکتا ہے نہ علاج کروا سکتا ہے ۔ پاکستان کے غریب لوگ بیرون ملک جاتے ہیں، محنت مزدوری کرکے کچھ ڈالر اپنے خاندان کو بھیجتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کے خاندان اور ملک کے حالات بہتر ہوں مگر یہاں کے حکمران کے بچے اور کاروبار بیرون ملک ہیں اور وہ یہاں سے ڈالر اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ بیرون ملک اپنے کاروبار اور اثاثوں میں مزید اضافہ کریں ۔ پاکستان کے اثاثوں پر نظر رکھنے والے کاش کبھی بیرون ملک پڑے اپنے اور اپنی لیڈرشپ کے اثاثوں کی طرف نظر دوڑاتے اور قوم کے اس مشکل وقت میں اعلان کرتے کہ کوئی بات نہیں ملک پر مشکل وقت ہے ہم اپنے اثاثے منگواتے ہیں اور انہیں بیچ کر پاکستان کو اس معاشی دلدل سے نکالتے ہیں اور یوں دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے لیے قابل تقلید مثال بنتے۔ اثاثے بیچ کرڈیفالٹ ہونے کے خطرات سے بچنا کوئی عقلمندی نہیں ۔ پاکستانی عوام ہر دکھ تکلیف برداشت کر لے گی مگر اپنے اثاثوں کی فروخت برداشت نہیں کرے گی۔ پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس تجربہ کار لوگ ہیں اگر یہی تجربات کرنے ہیں تو پھر خدارا فوری انتخابات کروائیں اور اپنی جان چھڑوائیں۔ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ جو کوئی بھی حکومت بنائے یہ مسائل اس کے گلے میں ڈالیں مگر اثاثے فروخت کرنے کی خواہش دل سے نکال دیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button