ColumnNasir Naqvi

نو مور۔۔۔۔۔۔ عمران خان

ناصر نقوی

زندگی میں اچھے بُرے وقت کے ساتھی مختلف ہوتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے، اللہ نہ کرے کہ کسی پر بُرا وقت آئے کیونکہ پھر دوست، رشتہ داروں اور قریبی ساتھیوں کا امتحان شروع ہو جاتا ہے اور اس مشکل گھڑی میں بڑے قد آور اور طاقتور ایسے پرائے ہوتے’’ جیسے جانتے نہیں، پہچانتے نہیں‘‘۔۔۔۔۔ کبھی ایک دوسرے سے واقف ہی نہیں تھے لیکن یہ کھیل تماشا سیاستدانوں کے لیے ہرگز نیا نہیں ہوتا کیونکہ مختلف ادوار میں 75سالہ پاکستان کی زندگی میں ایسا تواتر سے ہو چکا ہے جب حالات سے تنگ یا نئے ایڈونچر کی خواہش میں طاقتور مقتدرہ کمر بستہ ہوتی ہے تو اس سیاسی اکھاڑے کے بڑے بڑے پہلوان اپنی وفاداریاں بدل لیتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے وقت کے مقبول لیڈر تھے اس لیے ملکی و غیر ملکی طاقتوروں کی نظروں میں پورے نہ اترے اور انہیں ایسے امتحان دینے پڑے کہ وفاداروں نے نہ صرف وفاداریاں بدلیں بلکہ مخالفین کی سہولت کاری کر کے بھٹو صاحب کے گلے میں پھانسی کا پھندا بھی ڈلوا دیا۔ چونکہ وہ ایک نظریاتی لیڈر تھے اس لیے آج برسوں گزر جانے کے باوجود نہ وہ مرے اور نہ ہی ان کی پارٹی ختم کی جا سکی۔ حالانکہ جنرل ضیاء الحق نے اپنی آمریت کے زور پر سب کچھ کر کے دیکھ لیا۔ اب ایسی صورت حال موجودہ دور کے مقبول ترین لیڈر عمران خان اور تحریک انصاف کو درپیش ہے۔ ان کے چاہنے والے خان اعظم کی ہر آواز پر لبیک کہتے تھے بلکہ انہیں اپنا نجات دہندہ جانتے ہوءے ’’ مرشد‘‘ سمجھتے تھے۔ ان کے بیانات اور للکار کسی انقلابی ایجنڈے کی بنیاد محسوس ہوتی تھی وہ اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی مرضی کا بیانیہ خوب بیچا۔ ان کے ’’ فین کلب‘‘ کے ممبران ’’یوٹرن‘‘ کے بھی ہر مرتبہ نئے مطلب نکال کر خان کی وکالت کرتے تھے۔ خان نے حکومت اور مقتدرہ حلقوں کو اقتدار سے اترتے ہوئے دو پیغام خصوصی طور پر دئیے تھے ، پہلا دعویٰ ’’ نہ چین سے بیٹھوں گا ، نہ ہی کسی کو بیٹھنے دوں گا‘‘۔ دوسرا بیان حلفی تھا کہ ’’ میں اور زیادہ خطرناک ہو جائوں گا‘‘۔ ان دونوں دعوئوں پر ابھی تک قائم ہیں۔ باقی دوسرے معاملات میں ہر بار ’’ یوٹرن‘‘ لے گئے، انہیں کسی نے تجویز دی کہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے کوئی ’’ تحریک چلائو‘‘۔ جواب دیا، میں 27سالہ جدوجہد کا امین ہوں مجھے عدالت نے عظمیٰ نے ’’ صادق و امین‘‘ کی ڈگری دے رکھی ہے۔ ا س لیے مجھے سب پتہ ہے کہ چور، ڈاکو، کرپٹ اور امپورٹڈ حکومت سے دو نہیں چار ہاتھ کیسے کرنے ہیں۔ یہ کھیل تماشا جلسوں، احتجاج، لانگ مارچ سے ہوتا ہوا ’’ جلائو گھیرائو‘‘ تک کس طرح پہنچا، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مقدمات بنے، نوٹسز جاری ہوئے لیکن خان اعظم نے کان نہ دھرے۔ عدالتی حاضریوں کی باری آئی تو جانے سے انکار کر دیا اور ایک ’’ نیا بیانیہ‘‘ مارکیٹ میں آ گیا کہ ’’ جان کو خطرہ ہے‘‘ لہٰذا کھلاڑیوں کی مدد طلب کی، جب عدالت کا رخ کیا تو لشکر ہمراہ رہا، انہیں پتہ تھا کہ انہیں ابھی بھی ’’ دواخانہ فیض عالم‘‘ سے دوا دارو ملتا رہے گا اور ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ حالات نے ثابت بھی کر دیا پھر اس اعلان کے ساتھ اسلام آباد راولپنڈی کے لیے ’’ لانگ مارچ‘‘ کا آغاز کیا کہ مجھے پتہ ہے کہ ’’ قاتلانہ حملہ‘‘ ہو گا لیکن میں قوم کی حقیقی آزادی اور امریکی غلامی سے نجات کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلوں گا، پھر نکلے اور وزیر آباد میں حملہ بھی ہو گیا۔ ایک معظم نامی کھلاڑی بے گناہ مارا گیا اور خان اعظم زخمی ہو گئے۔ ’’ لانگ مارچ‘‘ کو بریک لگ گئی اور ’’ ٹائیگر‘‘ براہ راستہ شوکت خانم ہسپتال اپنی رہائش گاہ زمان پارک میں محصور ہو کر رہ گیا۔ یہاں بہت سی منصوبہ بندیاں ہوئیں، صدر عارف علوی اور کئی شخصیات زخمی ٹائیگر کے علاج کے لیے گئے۔ ڈاکٹر علوی نے کچھ زیادہ ہی پھرتیاں دکھائیں لیکن وہ تو ٹھہرے ’’ ڈینٹل ڈاکٹر‘‘ اس لیے نہ علاج کر سکے اور نہ ہی مرض کی تشخیص، لہٰذا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، خان خطرناک سے خطرناک ترین ہو گیا ، یوں ایک ہی گرفتاری پر تمام تر اسلحہ بارود منظر عام پر آ گیا۔ تحریک انصاف اور اس کے سہولت کاروں نے عمران خان کو ’’ ریڈ لائن‘‘ قرار دیتے ہوئے تمام ’’ ریڈ لائنز‘‘ کراس کر لیں اور بات قومی سلامتی تک پہنچی یعنی ’’ پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ ۔۔۔۔۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اناڑی نے غلط منصوبہ بندی سے اپنے گھر میں ہی بم پھوڑ لیا، مرشد کا میلہ ٹھیلا اجڑا تو زمان پارک ویران اور خان اکیلا رہ گیا۔ بظاہر تو اہم عمارات اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا لیکن حقیقت میں ’ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘ ایسے لگی کہ تحریک انصاف کا پورا گھرانہ ہی خاک میں مل گیا۔ وفاداریاں تبدیل ہی نہیں ہوئیں بلکہ مرشد کے مریدوں نے سیاست سے ہی توبہ کر لی۔ ہر کسی کا سوال ہے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ ’’ پریس کانفرنس فارمولا‘‘ اپنایا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں آرمی کورٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ وبال جان بن گیا۔ سپہ سالار نے اس سانحے کو چیلنج سمجھتے ہوئے ’’ زیرو ٹالرنس‘‘ کا پیغام دے دیا۔ 9مئی کے سانحے میں کتنے مارے گئے ابھی تک حقیقی تعداد کسی کو پتہ نہیں۔ البتہ خان اعظم نے 25افراد کی ہلاکت کہہ کر غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھوا دی اور خود نہ وہاں گئے اور نہ ہی کسی کارکن کے گھر۔۔۔۔۔ نگران وزیراعلیٰ نے25افراد کے نام مانگ لیے کہ تحقیقات کر کے وہ انصاف دلانے کو تیار ہیں لیکن کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا؟سابق وزیراعظم عمران خان کے دست راست بلکہ کار خاص پرویز خٹک اور عثمان بزدار بھی چھوڑ گئے۔ اسد عمر، فواد چودھری، علی زیدی اور بہت سے پارٹی اور سیاست چھوڑ کر وقت کا انتقام دیکھنے کے خواہش مند ہیں جبکہ ان کے قانونی ماہرین بابر اعوان اور علی ظفر انہیں تنے تنہا چھوڑ کر ملک سے ہی باہر چلے گئے۔ اب عمران زمان پارک میں بیٹھے آواز لگا رہے ہیں ’’ میں اکیلا ہو گا، مجھے تنہا کر دیا گیا۔ تاریخ کا بدترین ظلم حکومت روا رکھے ہوئے ہے، عالمی حقوق انسانی کی تنظیمیں مدد کریں‘‘۔ جب 9مئی کو نیب گئے تو وہاں فون بھی ملا اور مرسڈیز بھی اور خواجہ احمد رحیم و قیوم صدیقی کی آڈیو لیکس کے مطابق انہیں ضمانت ملی بلکہ ان کے اعزاز میں ’’ گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر ضمانتوں کا جمعہ بازار لگا دیا گیا۔ ان کے خلاف اگر مقدمات زیادہ ہیں تو انہیں ضمانتیں بھی ایسی ملیں جیسے کسی کو نہیں ملیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ عمران اپنی ضد اور خوش فہمی میں تمام ’’ ریڈ لائنز‘‘ عبور کر گئے۔ لہٰذا واپسی ممکن نہیں۔ تاہم ان کا خیال اب بھی ہے کہ اب انہیں عالمی سہولت کار ’’ ریسکیو‘‘ کریں گے انہیں حکومت ملک سے باہر بھیجے یا کوئی اوردبائو ڈال کر سہولت فراہم کر دے وہ جب بھی واپس لوٹیں گے تو ان کے چاہنے والے انتظار کر کے ’’ امام خمینی‘‘ کی طرح استقبال کریں گے لیکن حالات و واقعات اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ انہیں احساس نہیں، وہ بُرے پھنسے ہیں اس لیے ان کے اردگرد چہچہانے والے سیاسی پرندے اُڑ گئے ہیں۔ عروج کے بعد زوال عمران خان کا نصیب بن چکا ہے۔ ’’ نائن مئی‘‘ پاکستان کے لیے ’’ نائن الیون‘‘ سے بھی خطرناک بن چکا ہے کیونکہ اس سیاہ روز جو کچھ بھی ہوا وہ بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ ’’ آرمی کورٹس‘‘ کے فیصلوں کو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا لیکن یاد رہے کہ سزا ’’ عمر قید اور سزائے موت ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان سپریم کورٹ سے بھی زیادہ پُرامید نہیں کیونکہ ’’ چیف صاحب‘‘ اپنی مراعات بچانے کے لیے فرینڈلی ہو چکے ہیں بغیر کسی ’’ پریس کانفرنس‘‘۔۔۔۔۔ انہوں نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو قربانی کا نہ صرف بکرا بنا دیا بلکہ قاضی عیسیٰ کے ساتھ شجر کاری مہم میں پیار و محبت کے لیے پودا لگا کر سب کو بتا دیا ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ تحریک انصاف کے دو انقلابیوں’’ مراد سعید، شہر یار آفریدی‘‘ کی چیخ و پکار اور سخت ترین فیصلوں کی خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ ’’ نو مور عمران خان‘‘۔۔۔۔۔ میری جمع تفریق کے مطابق عمران خان کے اندازے غلط ثابت ہو گئے۔ ان کا خیال تھا کہ ’’ ترکی‘‘ کی طرح پاکستان کی فوج بھی آپس میں الجھ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا تو وہ مسلسل سپہ سالار کو جنرل ( ر) باجوہ سمجھ کر نشانہ بنا رہے ہیں جو کہ درست نہیں، وہ اپنے بُنے ہوئے جال میں خود پھنس گئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button