ColumnRoshan Lal

انتخابات کا جواز .. روشن لعل

روشن لعل

وطن عزیز میں 90دن میں انتخابات کے انعقاد کو بعض لوگ انتہائی اہم مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ تین مہینوں پر مشتمل 90 دن میں 2160 گھنٹے، 129600 منٹ اور 7776000 سیکنڈ ہوتے ہیں۔ جہاں تک 90 دن مکمل ہونے کا معاملہ ہے تو یہ دورانیہ عین اسی وقت زائدالمیعاد ہو جاتا ہے جب صرف ایک سیکنڈ اضافے کے بعد 7776000سیکنڈ 7776001 سیکنڈ ہوجائیں۔پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کے بعد ستتر لاکھ ، چھہتر ہزار سیکنڈوں میں مزید کئی لاکھ سیکنڈ کا اضافہ ہو چکامگر پھر بھی نوے دنوں کی مدت کو آئینی جواز بنا کر 14 مئی کو پنجاب میںالیکشن کے انعقاد پر زور دیا جارہا ہے۔ نوے دنوں کے جس عرصہ کو آئینی جواز بنا کر 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے انعقاد پر زور دیا جارہا ہے اس کے آئینی طور پر جائز ہونے میں کیا ابہام ہے اس پر یہاں تسلسل کے ساتھ بحث جاری ہے ۔ اس جاری بحث میں حصہ ڈالنے کی بجائے زیر نظر تحریر میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کسی خاص مدت میں منعقد ہونے یا نہ ہونی کے علاوہ انتخابات کے انعقاد کا الگ سے کیا جواز ہے ۔ انتخابات جمہوری حکومتوں کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔سادہ ترین تعریف کے مطابق جمہوری حکومت وہ ہوتی ہے جو عوام کی خواہشوں کے مطابق قائم ہونے کے بعد عوام کی خواہشوں کے مطابق عمل کرے ۔ کسی بھی ملک کے تمام تر عوام کی خواہشوں کو ایک ساتھ ریکارڈ پر لانا اور ان کے مطابق حکومتی امور نمٹانا کیونکہ ممکن نہیں ہوسکتا لہذاجمہوری حکومتوں کے قیام کے لیے عوام کے منتخب نمائندوں کو حکمرانی کے اختیار ت تفو یض کیے جاتے ہیں۔ عوام اپنے نمائندوں کو کیونکہ انتخابی عمل کے ذریعے منتخب کرتے ہیں اس لیے جمہوری حکومتوں کے قیام میں انتخابات کو بنیادی اینٹ تصور کیا جاتا ہے۔ انتخابات ، نہ صرف عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ حق بھی دیتے ہیں وہ ان لوگوں کو نمائندگی کا مزید موقع دیں یا نہ دیں جنہیں انہوں نے قبل ازیں اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا۔جمہوری حکومتوں کے قیام کے لیے جہاں معینہ مدت میں انتخابات کا انعقاد ضروری ہے وہاں یہ بھی لازم ہے کہ جن لوگوں کو انتخابات کے تحت حکمرانی کا اختیار تفویض ہوتاہے ان کے انتخاب کا حق رکھنے والے عوام میں سے کوئی بھی اپنے حق کے استعمال سے محروم نہ رہے۔ آئندہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اس وقت پاکستان میں سیاستدان، وکیل، دانشور اور حتیٰ کہ عدلیہ بھی واضح طو رپر دو گروپوں میں منقسم نظر آتی ہے۔ ان دو گروپوں میں سے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ کسی بھی اسمبلی کے معینہ یا غیر معینہ مدت میں خاتمے کے بعد کیونکہ نوے
دن کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد اور اقتدار کی منتقلی آئینی تقاضا ہے اس لیے پنجاب اسمبلی کے خاتمے کے بعد چاہے نوے دنوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہیں ہو سکی مگرپھر بھی عدالتی فیصلے کے مطابق 14 مئی کو انتخابات ضرور منعقد ہو نے چاہئیں۔ اس کے موقف کے جواب میں دوسرا گروپ نہ صرف سپریم کورٹ کے اس بنچ کی تشکیل کو تکنیکی طور غلط مانتا ہے جس نے 14 مئی کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی انعقاد کا فیصلہ دیا بلکہ مزید یہ بھی کہتا ہے کہ کوئی اسمبلی ٹوٹنے پر صرف نوے دنوں کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد ہی آئینی تقاضا نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی بھی علاقے یا عمر کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے اہل ووٹروں میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو جو کسی بھی وجہ سے اپنا رائے دہی کا حق استعمال کرنے سے رہ جائے۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی عوام یا کسی بھی ووٹرکے حق رائے دہی کا گہر اتعلق مردم شماری سے ہے ۔ مردم شماری کے نتیجے میں صرف یہ ہی اخذ نہیںہوتاکہ ملک کے عوام کی کل تعداد کیا ہے بلکہ یہ بھی طے کیاجاتا ہے کہ کس علاقے میں کتنے لوگ عمر کی خاص حد پوری ہونے پرانتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے کے حقدار ہو گئے ہیں۔ قبل ازیں پاکستان میں 2017 میں جو مردم شماری
ہوئی اس کے اعدادو شمار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس میں ظاہرکی گئی آبادی کی تعداد کو درست تسلیم نہیں کیاتھا۔ جس مردم شماری میں ظاہر کی گئی عوام کی کل تعداد پر ہی شکوک و شبہات ہوں، کیسے ممکن ہے کہ اس کے تحت کی گئیں اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کو درست تسلیم کر لیا جائے۔ اس وقت ملک میں نئی ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل جاری ہے۔ مردم شماری کے جاری عمل پر اگر تحفظات ظاہر ہورہے ہیں تو ان تحفظات کو دور کرنے کے اقدامات بھی سامنے آرہے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اس مردم شماری کے نتیجے میں جو نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی وہ ملک کے تمام سیاسی حلقوں کے لیے قابل قبول ہونگی۔ جو گروہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے حق میں نہیں ہے اس کا کہناہے کہ جاری مردم شماری کے نتیجے میں ہونے والی حلقہ بندیوں کے تحت اگر پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہونگے تو پھر کہیں بھی کوئی بھی اہل ووٹر اپناحق رائے دہی استعمال کرنے سے محروم نہیں رہے گا۔ واضح رہے کہ ہمارے جس آئین میں یہ لکھا ہے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے پر نوے دنوں کے اندر انتخابات منعقد ہوجانے چاہئیں اس آئین کا یہ بھی تقاضا ہے کہ مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن کرائے جائیں۔ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں نہ تو کبھی عوام کو آئین کے مطابق ان کے معاشی و انسانی حقوق دیئے گئے اور نہ ہی انہیں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق کماحقہ آزادی سے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ حکومت سازی کے لیے اپنے نمائندے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجنا عوام کا حق ہے مگر اس حق کو یہاں ہمیشہ دھاندلی کے ذریعے سبوتاژ کیا گیا ۔پاکستان میں دھاندلی کی تاریخ اس قدر شرمناک ہے کہ یہاں منعقد ہونے والے کسی بھی انتخاب کو مطلق شفاف تصور نہیں کیا جاتا۔یہاں انتخابات کے دوران عوام کی اکثریتی رائے کو مقدم جاننے کی بجائے مقتدر اداروں کے لوگ اپنی سوچ ، خواہشیں اور رائے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس طرح کی کوششوں کوکامیاب بنانے کے لیے وہ جس حد تک ممکن ہو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرجاتے ہیں۔ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے وہ ایسے وقت اور حالات میں الیکشن منعقد کرانے کا اہتمام کرتے ہیں جو ان کی من پسند سیاسی جماعت یا سیاسی لیڈر کے لیے سازگار ہو۔ اس کے علاوہ من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں حلقہ بندیوں اور ووٹرلسٹوں میں جس قدر ہیر پھیر ممکن ہو کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں آئندہ الیکشن کے انعقاد کے متعلق جو مختلف نقطہ نظر سامنے آرہے ہیں ان میں سے اصولی طور پر صرف وہی قابل قبول ہونا چاہیے جس کے تحت ملک کی کثیر اور اہل آبادی کو آزادی سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے۔ واضح رہے کہ انتخابات کا جواز خاص وقت میں ان انعقاد نہیں بلکہ ہر اہل ووٹر کا حق رائے دہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button