ColumnImtiaz Ahmad Shad

بہتان بازی .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

وہ معاشرہ بہترین قرار پاتا ہے جہاں سچ اور جھوٹ کے درمیان واضح فرق نظر آئے۔ جن معاشروں میں بہتان بازی رواج ہو اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے وہ تمام حدود و قیود پار کر لی جاتی ہوں جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے طے کی ہیں تو یقینا وہ معاشر ے اور اقوام تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ آج کے دور میں جو معاشرے بہتان بازی سے پاک ہیں یا جن معاشروں میں بہتان بازی پر سخت پکڑ کی جاتی ہے ،قطع نظر وہ مسلم معاشرے ہوں یا غیر مسلم وہاں آپ کو ترقی ،خوشحالی اور وہ تمام نعمتیں وافر مقدار میں نظر آتی ہیں جودیگر اقوام پر سبقت لے جانے کے لئے کافی ہیں۔بطور مسلمان ہمارا اولین فرض ہے کہ اسلامی اصولوں اور روایات کا پاس رکھیںتاکہ ہم دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔مگر یہ واضح رہے کہ بہتان بازی اور دیگر ایسی خرافات کا ہی نتیجہ ہے کہ گندم میں خود کفیل دنیا کے چھٹے بڑے ملک کی عوام دس کلو آٹے کے حصول کے لئے میلوں لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔جو قوم اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کا دعویٰ کرے اور عملی طور پر احکام خداوندی کی کھلی خلاف ورزی کرے وہ یقینا رحمت خداوندی سے محروم رہتی ہے۔تما م وسائل کے باوجود مسائل کا شکار ہونا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔بے برکتی اور بد بختی اس کے چہرے پر عیاں ہوتی ہے اوربھکاری پن اس کا نصیب بن جاتا ہے۔کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ ممنین اور بے گناہ ممنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی ( الزام لگایا، تہمت، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں، تو اللہ اسے ( الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا ( وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے ( دنیا میں) باز آ جائے ( رک جائے، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے)۔( مسند احمد 7؍204، سنن ابی دائود: 3597)۔ بے بنیاد الزام لگانا اور بہتان تراشی کرنا بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے، سوشل میڈیا نے جہاں رابطوں کو عام، تعلقات کے دائرے کو وسیع اور ہر عام و خاص کو کہنے لکھنے کا موقع فراہم کردیا ہے، وہاں الزام تراشی کی وبا بھی عام اور آسان ہوگئی ہے، اس سے قبل تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، مذہبی اور سیاسی اختلاف رکھنے والے، نیچے سے اوپر تک اکثر اس وبا کا شکار نظر آتے ہیں، ذاتی اختلاف رکھنے والے، اسے انتقامی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔عام لوگوں کی کیا بات کی جائے،معاشرے کے جید صحافی ،مذہبی ،سیاسی اور سماجی رہنماایسی ایسی باتیں لکھتے اور بولتے ہیں کہ جن کا کوئی وجود ہیں نہیں ہوتا،اگر اس میں کچھ صداقت ہو بھی تو ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔محض سنی سنائی بات یا بھیڑ چال جسے آج کل ٹرینڈ کہا جاتا ہے کا شکار ہو کر بہتان بازی کا بازار گرم رکھنا نہ تو انسانیت کے لیئے بہتر ہے اور نہ اس شخص کی اپنی شخصیت کے لیئے۔افسوس ! فقط سوشل میڈائی تسکین یا ویوز کے چکر میں ایک بات جو کسی نے ہوا میں اڑائی ہوتی ہے اس کی بنیاد پر پروگرام کر دینا اور آخر میں یہ کہہ کر دامن چھاڑ لینا کہ نہ تو میرے پاس ثبوت ہے اور نہ مجھ سے کوئی ثبوت کا تقاضا کرے ،کہاں کی معاشرتی خدمت ہے؟بہتان بازی کے اس بازار میں سیاسی اختلاف رکھنے والے کارکنوں کی حالت ناقابل بیان ہے، ان کے لیڈرز جو کہہ دیں وہ آنکھیں بند کر کے اس بات پر یقین کر لیتے ہیں اور پھر اس کی تشہیر کے لیئے وہ تما م حربے استعمال کرتے ہیں جو بذات خود قابل گرفت ہوتے ہیں۔قومی طور پر یہ ہماری اخلاقی گراوٹ ہے، اس میں دین دار اور غیر دین دار سب ہی مبتلائے وبا ہیں، یہ اس پیغمبر اسلام کے نام لیوا ہیں جنہوں نے ہر سنی سنائی بات بیان کرنے کو جھوٹ کی علامت قرار دیا اور جن کی شریعت میں تہمت تراشی پر باقاعدہ ’’ حد قذف‘‘ کی سزا مقرر کی گئی ہے۔جو قومیں آسمانی تعلیمات کی ہدایت سے محروم ہیں، خواہشات یا اپنے مفادات کی دل چسپی کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتی ہیں، ان ہی کی باغی دنیا نے مدتوں قبل یہ روش اپنائی تھی کہ جھوٹ کو اس قدر عام کیا جائے کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے، سچائی تک رسائی ہو تو آدھی سے زیادہ فصلیں تباہ ہوچکی ہو۔ دنیا نے عراق کی تباہی کا منظر دیکھاہے، مشہور کیا گیا کہ ادھر کیمیاوی ہتھیار ہیں، جسے جواز بنا کر مخالف قوتیں اس پر پل پڑیں اور اسے ادھیڑ کے رکھ دیا، بعد میں اعتراف کیا گیا کہ کچھ نہیں تھا۔ قوموں کی جنگوں میں پروپیگنڈہ ایک موثر ہتھیار رہا ہے اور شاید رہے گا لیکن ایک مسلم معاشرے اور سماجی رابطوں کے دائرے میں الزام تراشی اور بہتان بازی حرام اور موجب سزا جرم ہے، ہم کئی بار دانستہ یا نا دانستہ، یہ گناہ کرتے ہیں،الزام لگانا یا کسی کے الزام کو بلا ضرورت بغیر تحقیق کے عام کرنا، دونوں حرکتیں کبائر میں سے ہیں، حالت یہ ہوگئی ہے کہ اسے گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا باہمی انتشار شیطان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ انتشار ہمیشہ الزام و بہتان کی نفسیات سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جو الزام و بہتان لگاتے ہیں۔ انہیں روکا نہیں جاسکتا۔ اصل ذمہ داری عام مسلمانوں کی ہے کہ وہ کبھی کسی مہم جوئی کا حصہ نہ بنیں۔ ہمیشہ حسن ظن سے کام لیں۔ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے نہ پھیلائیں۔ وہ پوری تحقیق اور یقین کے بغیر کسی شخص کے بارے میں کوئی بات زبان سے نہ نکالیں۔ کسی کی جان، مال، نیت، ایمان، آبرو پر حملہ بدترین جرم ہے جو ایمان کو غارت کر دیتا ہے۔ قیامت کے دن جب اصل زندگی شروع ہوگی تو ایسے جرائم کی سزا دیکھ کر لوگ خواہش کریں گے کہ کاش ان کی زبان ہی نہ ہوتی جس سے وہ بولتے اور ان کے ہاتھ ہی نہ ہوتے جن سے وہ لکھتے۔الغرض کسی پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button