Ali HassanColumn

ذرائع ابلاغ اور ان کی ساکھ .. علی حسن

علی حسن

حال ہی میں بلوچستان کے سیکرٹری اطلاعات محمد حمزہ شفقات نے شکوہ کیا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کی جانب سے صوبہ بلوچستان کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے شکوہ کیا ’’ بطور سیکریٹری اطلاعات میرا اپنے دفتر میں پانچواں مہینہ ہے۔ ان پانچ ماہ میں بلوچستان حکومت نے اپنے بہترین پراجیکٹس کے کم از کم 20سے زائد میڈیا پیکج خود بنا کر بھیجے لیکن کسی بڑے نجی چینل نے ایک بھی آن ائیر نہیں کیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بڑے نجی ٹی وی چینلز پر اوسطاً بلوچستان کو ایک دن میں صرف 34سیکنڈ ملتے ہیں اور وہ بھی صرف منفی خبریں۔ جی صرف 34 سیکنڈ۔ اس وقت صرف پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان بلوچستان کو کوور کر رہے ہیں‘‘۔ حکومت بلوچستان کے محکمہ اطلاعات کے سیکریٹری نے تو بر ملا کھل کا اظہار کر دیا ہے ۔ لیکن ذرائع ابلاغ سے اسی قسم کی شکایات کراچی کے علاوہ سندھ بھر، صوبہ خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان ، پنجاب کے سرائکی اور دور افتادہ علاقوں، وغیرہ کو بھی ہیں۔ یہ شکایات تمام علاقوں کے سیاسی رہنمائوں، سیاسی کارکنوں، طالب علموں وغیرہ کو ہیں کہ انہیں اور ان کے علاقوں کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے۔ الیکٹرانکس میڈیا ہو یا مین سٹریم میڈیا کے اخبارات، سب ہی کا وتیرہ اور رویہ ایک جیسا ہے۔ ان اداروں کے مالکان اور کام کرنے والے ذمہ دار افراد کو غرض ہی نہیں ہے کہ کہاں کیا ہوا ہے اور اسے کتنا وقت یا کتنی جگہ فراہم کی جانی چاہئے۔ وقت کو منٹوں کے حساب سے تولا جاتا ہے اور پھر ان منٹوں کو چینل کے مقرر کردہ اشتہاری نرخوں سے ضرب کر دیا جاتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ ضرب کہاں لگے گی۔ ٹی وی چینل پر ہفتہ میں چار اور پانچ روز کی جانے والی ٹاک شو کی گفتگو میں اسلام آباد، لاہور یا زیادہ سے زیادہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ( اگر وہ اسلام آباد میں موجود ہوں ) سیاسی، سماجی رہنمائوں، پیشہ وارانہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جگہ فراہم کی جاتی ہے۔ باقی لوگ تماش بین ہوتے ہیں۔ ایسی تماش بینی سے خضدار، آواراں ، تربت، گھوٹکی، عمرکوٹ، کشمور، رحیم یار خان، صادق آباد، وغیرہ وغیرہ کے ٹی وی سامعین کو بھلا کیا فائدہ۔ کیوں نہیں وہ لوگ اپنے اپنے علاقوں کی خبروں اور واقعات کو سوشل میڈیا کی پوسٹ پر دیکھیں۔ اور یہ ہی ہو رہا ہے۔ بڑے ذرائع الاغ کے ذمہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھیں کہ سوشل میڈیا کیوں بہت تیز رفتاری سے جگہ بنا رہا ہے۔ اس کے اثرات تو چینلوں کے اشتہارات پر بھی پڑے گا کیوں کہ جب کھبی اشتہاری کمپنیوں کی رپورٹوں سے ہٹ کر اور اپنی ریٹنگ کو ایک طرف رکھتے ہوئے مالکان چینل نے اپنے دیکھنے والوں کے بارے میں کوئی آزادانہ سروے کرایا تو انہیں حیرانی ہوگی کہ ان کے چینل کو دیکھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی ہورہی ہے۔ ویسے بھی دور افتادہ علاقوں میں بجلی کی طویل دورانیہ کی لوڈ شیڈنگ، انٹر نیٹ کا بر وقت میسر نہ ہونا اور ’’ کنکٹی ویٹی‘‘ نشریات میں بڑی رکاوٹ کا سبب ہیں۔ اپنے وقت کے معروف دانشور، صحافی، انسانی حقوق کے رہنما مرحوم آئی اے رحمان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس ملک میں اخبارات کو ضلعی سطح تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اکثر اخبارات ملک بھر کی خبروں سے خالی ہوتے ہیں۔ اکثر بڑے اخبارات نے بہک وقت کئی کئی شہروں سے اپنے ایڈیشن شائع کرنے کا رواج پیدا کیا ہے۔ ایسا صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ مقامی اخبارات کے اشتہارات بھی انہیں ہی مل جائیں۔ بلوچستان کے سیکرٹری اطلاعات نے تو یہ ہی شکایت ٹی وی چینلز کے بارے میں کی ہے۔ ان کا گلہ تو یہ بھی ہے کہ ایک محکمہ کے تیار کردہ درجنوں پیکیج چینلز کو روانہ بھی کئے گئے ہیں لیکن انہیں استعمال نہیں کیا گیا۔ کیا چینلز میں بیٹھے ہوئے دانشور حضرات وضاحت کریں گے کہ روزانہ ’’ بڑی‘‘ منفی خبریں کہاں سے پیدا کی جاسکتی ہیں۔ خبروں، واقعات ، وقت کے ساتھ تیزی سے تبدیل ہوتی سیاسی اور سماجی حالات ، ان پر تجزیوں کو نظر انداز کرنا کہاں کی صحافت ہے۔ دل گرفتہ ہو کر یہ لکھنا معیوب ہے کہ ہمارے جغادری صحافیوں اور چینلز پر کام کرنے والوں کی بڑی تعداد کو تو اندازہ ہی نہیں ہے کہ کونسا شہر کہاں واقع ہے اور اس کی سیاسی ، معاشی اور سماجی اہمیت کیا ہے۔ ان کے ذہن کے نقشے پر تو یہ شہر اس وقت ابھرتے ہیں جب وہاں کوئی بڑا حادثہ ہوا ہو، دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش آیا ہو یا پھر وزیر اعظم یا قومی سطح کے کسی سیاسی رہنما نے دورہ کیا ہو۔ اس کے علاوہ تو ان کے خیال میں تمام شہر خبروں کے معاملہ میں بانجھ ہیں۔ چینل والوں نے بھی اکثر تقریبا غیر تعلیم یافتہ افراد کے ہاتھ میں ’’لوگو‘‘ اور کارڈ دے دیا ہے۔ اکثر لوگ تو مائیک بھی اپنا ہی خریدتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب اخبارات کا طوطی بولتا تھا ، لوگ کارڈ حاصل کرنے کے لئے سفارشیں لگایا کرتے تھے۔ ایسی صورت میں کسی اچھائی کی توقع کیوں کر رکھی جاسکتی ہے۔ معروف شاعر فیض صاحب جو پاکستان ٹائمز کے پہلے چیف ایڈیٹر بھی رہے تھے، امروز اخبار کے دفتر ملاقات کرنے آئے۔ واپس ہوتے ہوئے انہوں نے نیوز شفٹ انچارج سے معلوم کیا کہ آج کی سرخی کیا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ کوریا کی خبر ہے جو سرخی ہے۔ فیض صاحب واپس جارہے تھے کہ دروازے کے پہنچ کر مڑے اور کہا ’’ بھئی کبھی اپنا اخبار پاکستان سے بھی نکال لیا کرو‘‘۔ کیا اب بھی کسی وضاحت کی ضرورت رہ جاتی ہے ۔ چینلز کو دہشت گردی کے حوالے سے خبریں چاہئے ہوتی ہیں، ان کے قیاس میں ایسی ہی خبریں ’’ فروخت‘‘ ہوتی ہیں۔ انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ بلوچستان سے افغانستان اور ایران کیا کیا سمگل ہو رہا ہے۔ در آمد ہونے والا سامان زیادہ مقدار میں ہے۔ بر آمد ہونے والے سامان میں گندم، کھاد، اور اور ڈالر اور پانچ ہزار روپے والے پاکستانی نوٹ شامل ہیں۔ وزیرِ اعظم کے زیرصدارت چینی، گندم، آٹے اور یوریا کی سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے جائزہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ ملک سے اشیائے ضروریہ کی بیرونِ ملک سمگلنگ کسی صورت قبول نہیں۔ سمگلنگ کے اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کے خلاف فوری آپریشن کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سمگلنگ کی روک تھام کیلئے لائحہ عمل دو دن کے اندر پیش کیا جائے۔ سمگلنگ کسی بھی معاشرے کیلئے ناسور کی حیثیت رکھتی ہے۔ وزیراعظم نے سمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے سست روی سے کام لینے پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں چیک پوسٹوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کیلئے استعمال ہونے والے گوداموں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی سرحد پر بہترین شہرت کے ایماندار افسر تعینات کیے جائیں۔ کرپٹ اور سمگلنگ میں ملوث افسروں کو ہٹاتے وقت کسی قسم کا دبائو قبول نہ کیا جائے۔ پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ تابش قیوم اتوار کے روز حیدر آباد میں تھے۔ ایک افطار میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے ذرائع ابلاغ کی کار کردگی کا رونا رویا اور اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں تجویز دی کہ سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں پر توجہ دیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیالکوٹ میں کوئی سوشل میڈیا پر کام ہورہا ہے تو سکھر والے لوگ اسے کیوں دیکھیں یا انہیں کیا فائدہ؟ یہ ہی وہ علت ہے جس کی نشان دہی مرحوم آئی اے رحمان اور فیض احمد فیض کیا کرتے تھے۔ ذرائع ابلاغ خواہ قومی سطح کے ہوں یا صوبائی یا ضلعی سطح کے ، ان کی اپنی موجودگی اور ’’ مستحکم پرورش‘‘ کے لئے ان کی اپنی ساکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ساکھ اچھی ہوگی تو لوگ اعتبار کریں گے اور سیکھیں گے، ذرائع ابلاغ اور ان کی ساکھ کا تو چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button