CM RizwanColumn

سیاست دانوں کی نااہلی کی روایت .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں عوام کی خدمت اور نظریات کی پختگی و عظمت اب کوئی معیار مقبولیت نہیں رہا بلکہ الزامات، سازشیں اور مقدمات بنوا کر سیاسی مخالفین کو عدالت کے ذریعے نااہل کروانے کو ہی سیاست میں کامیابی سمجھا جا رہا ہے اور یہ چلن اب اس قدر موثر ہو چکا ہے کہ جونہی کوئی سیاستدان نااہلی کے قریب پہنچتا ہے تو واضح طور پر نظر آ جاتا ہے کہ اب وہ خود ہی ذہنی طور پر نااہلی کیلئے تیار ہوچکا ہے۔ آج کل ملک کے مقبول سیاسی لیڈر عمران خان کے حالات کار بالکل اسی طرح کے’’ حادثے‘‘ کا پتا دے رہے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ چند روز پہلے وہ قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی 35 نشستوں پر خود اکیلے ہی الیکشن لڑنے کا عزم ظاہر کررہے تھے مگر اب وہ اس فیصلے میں تبدیلی کر کے وہاں پر متعلقہ حلقوں کے امیدوار کھڑے کرنے یا پھر ان حلقوں سے الیکشن نہ لڑنے جیسی نیم مایوسی کا اظہار کرتے محسوس ہورہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ سمجھ آرہی ہے کہ چند روز قبل وہ اپنے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ٹیریان وائٹ کیس میں یہ موقف دے چکے ہیں کہ یہ کیس موصوف عدالت ان کے خلاف سماعت کرنے کی مجاز نہیں کیونکہ وہ کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں۔ اس بیان کے بعد اب جونہی وہ کسی سرکاری عہدے پر آنے کیلئے الیکشن کمیشن میں درخواست دیں گے تو نہ صرف یہ کیس قابل سماعت ہو جائے گا بلکہ ان کی نااہلی بھی یقینی ہو جائے گی۔ لہٰذا اب وہ ذاتی طور پر الیکشن سے دور جانے کی پالیسی پر گامزن ہو چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ٹیریان وائٹ کی مبینہ ولدیت کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر اُن کے خلاف نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت میں عمران خان کو 27 جنوری تک عبوری جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ اس ضمن میں دائر ہونے والی اس درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا لگ بھگ پانچ ماہ تک جائزہ لیتی رہی،پھر ایک اور سماعت میں ایک اور پیش رفت سامنے آئی کہ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ٹیریان وائٹ کے معاملے پر الیکشن کمیشن فیصلہ دے چکا ہے اس لیے وہ اس درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے پر دلائل دیں گے کیونکہ ان کے موکل نہ تو اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے اس لیے یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں ہے حالانکہ وہ قومی اسمبلی کی سات نشستوں پر اب بھی کامیاب رکن قومی اسمبلی ہیں گو کہ انہوں نے حلف نہیں اٹھایا لیکن ممبر تو وہ ہیں۔ بہرحال ٹیریان وائٹ کیس کے درخواست گزار ساجد محمود کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگرچہ عمران خان رکن اسمبلی نہیں لیکن ایک سیاسی جماعت کے سربراہ تو ہیں۔ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اس بارے میں بیان دینا چاہتے ہیں اور یہ عبوری بیان ہوگا عدالت نے سلمان اکرم راجہ کی اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے عمران خان کو 27 جنوری سے پہلے جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ابھی تو وہ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں دلائل دیں گے جس پر چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ یہ آپ پر ہے کہ آپ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں دلائل دیتے ہیں یا پھر اس درخواست کے مندرجات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر دلائل دیں کیونکہ عدالت کسی کو بھی مجبور نہیں کر سکتی۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ چونکہ عمران خان نے اپنی مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا اس لیے وہ صادق، امین نہیں رہے۔ لہٰذا انہیں آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہل کیا جائے۔ درخواست گزار نے ایک امریکی عدالت کی رولنگ کا حوالہ بھی دیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان ٹیریان وائٹ کے حقیقی والد ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا دو رکنی بنچ عمران خان کے خلاف ایسی ہی ایک درخواست کو مسترد کر چکا ہے۔ اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ موقف اپنایا تھا کہ ایسی پٹیشن کو سنتے ہوئے اس بچی کے حقوق متاثر ہوں گے کیونکہ ایسی درخواست کی سماعت کے دوران بہت سے اسلامی نکات سامنے آئیں گے جو کہ میڈیا پر رپورٹ ہوں گے اور اس سے مذکورہ بچی کے حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ٹیریان وائٹ خود آ کر اس ضمن میں عدالت میں درخواست دیں تو پھر عدالت اس معاملے کو سن سکتی ہے۔ جیسا کہ پچھلے دنوں وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ اب عمران خان کی نااہلی تو چھوٹی بات ہے ان کو تو سنگسار کیا جانا چاہیے جس طرح کہ وہ ریاست مدینہ کا بیانیہ لے کر چلے ہوئے ہیں۔ تاہم اب اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے گزشتہ چند ماہ کے دوران اس درخواست کو جلد از جلد سماعت کیلئے مقرر کرنا اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس معاملے کو نمٹانا چاہتی ہے۔ عمران خان کیلئے اس درخواست کے باعث آئندہ آنے والے دنوں میں مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور عمران خان کی حکومت مخالف مہم کے عروج پر اس معاملے کو ازسر نو کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے اس کیس میں ان کی نااہلی کے امکانات موجود ہیں۔ یوں ایک بار پھر بدقسمتی سے سیاسی مقاصد قانون کی آڑ میں حاصل کیے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عمومی طور پر ایسی باتیں عدالتوں میں نہیں آنی چاہئیں اور نہ ہی عدالتوں کو کسی کے ذاتی معاملات میں پڑنا چاہیے کیونکہ اس قسم کی درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کرنا خود عدالتوں کیلئے بھی نیک نامی نہیں لے کر آتا۔ اس کے برعکس نواز شریف کا کیس شاید اس لیے صحیح سمجھا جا رہا ہے کہ اس میں رقم کا ذکر تھا حالانکہ عدالت نے ان کو اخلاقی حوالے سے نااہل کیا تھا۔
ملک میں جاری موجودہ سیاسی تناؤ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے کہ عمران خان اس معاملے میں نااہل ہو جائیں لیکن انہیں سیاسی طور پر کسی طور ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انتظامی اور عدالتی فیصلوں سے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ اٹھایا جائے لیکن عمران خان کے حمایتی اس فیصلے کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ جس طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے معاملے کو الیکشن کمیشن میں دیئے گئے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کی بناء پر نااہل کیا گیا تھا لیکن اس فیصلے کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے حمایتیوں نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اس سے قبل 50 کی دہائی میں بھی بعض سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا گیا تھا لیکن ایسے سیاست دانوں کو عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکتا۔ اس حوالے سے پاکستان میں عدلیہ کا کردار بھی قابل بحث رہا ہے اور اب یہ تمام تر ذمہ داری پارلیمنٹ پر ہے کہ وہ اس بارے میں قانون سازی کرتی ہے یا کوئی ایسا طریقہ کار وضح کرتی ہے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیاست دان ایک دوسرے کی مخالفت اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کیلئے عدالتوں یا کسی ادارے کی طرف نہ دیکھیں۔باشعور عوام کو بخوبی علم ہے کہ ایسی درخواستیں کہاں سے آتی ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی کچھ لوگ محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ذاتی معاملات کو عدالتوں میں لے کر جا رہے ہیں۔ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد سے اب تک جس طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں، وہی حربے اب استعمال کرنے والے عوام کے سامنے ایکسپوز ہو گئے ہیں۔ اب لوگ سیاسی طور پر باشعور ہو چکے ہیں اور لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ جس طرح نواز شریف کو نااہل کیا گیا اب عمران خان کو نااہل کئے جانے کا پروگرام بن رہا ہے۔ ایسے میں یہ بھی ایک حل ہے کہ سابقہ غلطی کے ازالہ کی راہ تلاش کر کے آئندہ غلطی کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مذکورہ درخواست دینے والے ساجد محمود ابھی تک اس درخواست پر جتنی بھی سماعتیں ہو چکی ہیں ان میں پیش نہیں ہوئے۔ جب اُن کے وکیل سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ درخواست گزار کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس لیے درخواست گزار کا کمرہ عدالت میں حاضر ہونا ضروری نہیں ۔وہ پہلی مرتبہ اس کیس میں پیش ہوئے ہیں اس لیے وہ درخواست گزار کے حوالے سے زیادہ نہیں بتا پائیں گے، جب عدالت درخواست گزار کو طلب کرے گی تو وہ عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے حمایتیوں کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ درخواست گزار کون ہے اور نہ ہی وہ درخواست گزار کے حوالے سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے حمایتیوں کے مطابق اس نوعیت کی درخواستیں عموماً دی نہیں دلوائی جاتی ہیں اور دینے والے کم ہی سامنے آتے ہیں اور یہ امر اس چیز کا واضح اظہار ہے کہ اس کیس کا واحد مقصد کیچڑ اچھالنا ہے۔ پہلے بھی اس قسم کی درخواستیں خود اسلام آباد ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن مسترد کر چکا ہے۔ توشہ خانہ میں بھی ایسے ہی کسی سے درخواست دلوائی گئی تھی، جس (درخواست گزار) کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ انہیں نااہل کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ عمران خان ٹیریان کو اپنی بیٹی تسلیم نہیں کر رہے، حالانکہ جب کوئی شخص عوامی عہدہ رکھتا ہے تو اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہر عام بندے کا حق ہوتا ہے اور کسی بھی رکن پارلیمان کی ساکھ کو کوئی بھی شہری چیلنج کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے اس طرح کے معاملات کو عدالتوں میں جانے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ ملکی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے۔ اس ماحول میں تو سیاستدانوں کا ایک دوسرے کے خلاف زیادہ سے زیادہ کیچڑ اچھالنا ہی کسی کی سیاسی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ جیسے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پراپیگنڈا کرکے وزارت عظمیٰ حاصل کی گئی یا کروائی گئی تھی۔ اب مخالف سیاسی رہنماؤں کو عدالت کے ذریعے نااہل کروانے کی وہی روایت ایک مرتبہ پھر دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دیکھتے ہیں اب یہ روایت کیا رنگ اختیار کرتی ہے اور ملک وقوم کے وقت اور سرمائے کا کس قدر نقصان کرتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button