Ali HassanColumn

ناشائستہ سیاست اور انتقام .. علی حسن

علی حسن

 

عمران دور میں حکومت مخالف سیاست دانوں کے ساتھ قومی احتساب بیورو کے ہاتھوں جو کچھ ہوتا رہا وہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا تھا کہ کیا اس ملک میں یہ ہی رِیت چلے گی کہ آج جو با اختیار ہے وہ مخالفین کے خلاف جبر کا ہر حربہ استعمال کر کے اُنہیں رُلائے گا؟ نون لیگ کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے تحریک انصاف والوں کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی رہنمائوں کے جیل کے بعد حوصلے اور ہمت کا موازنہ پیش کیا۔ فواد چودھری تین دن، اعظم سواتی چار دن اور شہباز گل ستائیس دن جیل میں رہے جبکہ نواز شریف 374 دن، شہباز شریف 340 دن، شاہد خاقان عباسی 222 دن، مریم نواز 158 دن، حمزہ 627 دن، رانا ثناء اللہ 174 دن اور مفتاح اسماعیل کو 142دن جیل میں گزارنے پڑے تھے۔سیاسی ورکروں اور رہنمائوں کو اپنے نظریات اور عقائد کے تقدس کیلئے حوصلہ بلند ، ہمت جوان اور عزم و وقار کے ساتھ آزمائش کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اقتدار کے نشے میں سیاست کی آزمائشوں کو بھولنا نہیں چاہیے۔
مخالفین کی حکومت میں جو کچھ تحریک انصاف کے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے یا جس طرح کا سلوک کیا جارہا ہے وہ سوچنے پر پھر مجبور کرتا ہے کہ کیا اس ملک میں ایسے ہی چلتا رہے گا۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کو کھانے پینے کی ہر چیز دیں گے مگر وہ ایک چیز نہیں دیں گے، جس کے بغیر سابق وزیراعظم کا گزارا ممکن نہیں۔ عمران خان تحریک شروع کریں، وہ ان کا علاج کردیں گے، 26 نومبر کو جو تمہارے ساتھ ہوا وہ یاد ہونا چاہیے۔25 مئی کو تم نے اسلام آباد لاک کرنے آنا تھا، تمہارے ساتھ جو ہوا وہ تمہیں یاد ہونا چاہیے۔کیا سیاست میں انتقام جاری رہے گا؟اخباری بیانات میں درشت رویہ سے اجتناب برتا جائے گا یا نہیں؟ کیا کبھی شائستگی بھی آئے گی یا نہیں؟
ایوب خان کے دور میں مخالفین خصوصاً وہ سیاسی رہنماء یا کارکن جن کے بارے میں ذرہ برابر شبہ ہوا کہ وہ کمیونسٹ خیالات رکھتے ہیں انہیں ہراسان کیا جاتا تھا اور پھر حراست میں لے کر اس زمانے کے بد نام زمانہ شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں منتقل کر دیا جاتا تھا، جہاں زیر حراست افراد کو خوفناک قسم کے تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ اس حد تک غیر اخلاقی حرکتیں کی جاتی تھیں کہ کئی کے ساتھ تو بد فعلی بھی کرائی جاتی تھی۔ اس زمانے کے ایک سپاہی کی کہانی نظر سے گزری کہ اس کا کام ہی یہی تھا اور جس کی وجہ سے وہ مختلف لا علاج امراض کا شکار ہو گیا تھا۔ معروف کمیونسٹ رہنماء حسن ناصر شاہی قلعہ میں ہی اذیتوں اور تشدد سے ہلاک کر دیئے گئے تھے۔ بھٹو دور میں مخالفین کے ساتھ جس قسم کا ناروا سلوک روا رکھا جاتا تھا وہ روح کی اذیت کو محسوس کرنے کیلئے کافی تھا۔ لیگی رہنماء مرحوم ملک قاسم اس حد تشدد کا نشانہ بنائے گئے کہ ان کی بقایا زندگی کمر کی تکلیف میں ہی گزری۔ جماعت اسلامی کے امیر محترم مرحوم میاں طفیل محمد کو گرفتار کر کے تھانے لایا گیا جہاں
پولیس کے سپاہیوں نے ان کی تذلیل کی۔ پیپلز پارٹی کے سیالکوٹ سے منتخب رکن قومی اسمبلی ملک سلیمان ایڈوکیٹ کو حکومت کے خلاف بیان دینے پر ان کی دو صاحبزادیوں کو گرفتار کر کے تھانے لایا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ملک سلیمان نے سیاست کو ہی خیر باد کہہ دیا تھا۔ نون لیگی وفاقی وزیر سعد رفیق کے والد محمد رفیق شہید جو ممتاز مزدور رہنماء تھے، لاہور میں دن دیہاڑے سڑک پر چلتے ہوئے گولیاں مار کر قتل کر دیئے گئے۔ ڈیرہ غازی خان سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کو ان کے کلینک پر قتل کیا گیا، وہ حکومت پر خصوصاً سابق مشرقی پاکستان کے معاملات کے حوالے سے شدیدتنقید کیا کرتے تھے۔ احمد رضا قصوری پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں ان کے والد نواب محمد احمد ہلاک ہوگئے تھے۔ احمد رضا نے ایف آئی آر میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر الزام لگایا اور اسی ایف آئی آر کی بنیاد پر جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دور میں بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا تھا جس کی بنیاد پر انہیں سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل در آمد کیا گیا تھا۔ بھٹو دور میں قائم کی گئی فیڈرل سکیورٹی فورس میں کام کرنے والے ایک سابق پولس افسر ایم ایم حسن نے اپنی کتاب میں ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود کے بارے جو قصے لکھے ہیں وہ فرعونیت کی کہانیاں ہیں۔
ضیاء کے دور میں بھی حکومت کے خیالات کے برعکس سوچنے والوں کو حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔صحافیوں کو بھی اسی دور میں کوڑے مارے گئے۔ نوجوان سیاسی کارکن نذیر عباسی اسی دور میں سرکاری تحویل میں ہونے والا قتل ہے۔ اس سے پوچھ گچھ کرنے والے سمجھتے تھے کہ یہ روس کے آلہ کار ہیں جو پاکستان کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ ضیاء کے بعد بی بی مرحومہ کا دور، پھر نواز شریف کا دور، پھر بی بی کا دور، پھر نواز شریف کا دور بھی سیاسی مخالفین پر عرصہ دراز تنگ کر نے کیلئے مشہور تھا۔ مشرف دور بھی مبرا نہیں تھا۔ قومی احتساب بیورو کا قیام ملک کے وسائل کے بے جا استعمال کے علاوہ سیاسی مخالفین کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنے کی نیت سے عمل میں آیا تھا ، جس کا عمران خان کی حکومت کے دور میں زیادہ شدت سے استعمال کیا گیا تھا۔ پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف گلوکار و اداکار علی ظفر نے ملک کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر سیاستدانوں کو ’نیوٹنز تھرڈ لاء آف موشن‘ پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔انہوں نے ٹویٹر پر ملک میں ہونے والی موجودہ تنازعات پر مبنی سیاست پر تنقید کی اور لکھا ہے کہ’’ ہر سیاستدان کو سب سے پہلے ’نیوٹنز تھرڈ لاء آف موشن‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ فطرت میں ہر عمل (قوت) کا برابر اور مخالف ردِ عمل ہوتا ہے، اگر آبجیکٹ A اپنے مخالف آبجیکٹ B پر ایک قوت کا استعمال کرتا ہے، تو آبجیکٹ B بھی آبجیکٹ A پر اتنی ہی مخالف قوت کا استعمال کرتا ہے‘‘ ۔پی ڈی ایم حکومت میں تحریک انصاف کے لوگوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جارہا ہے وہ تاریخی طور پر یاد رکھا جائے گا۔ عمران خان کے ترجمان شہباز گل کے ساتھ کو کچھ ہوا اسے ضبط تحریر میں لانا مشکل کام ہے۔ معمر سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کھلے عام رودیئے اور جو کچھ ہوا اسے ضبط تحریر میں لانا بھی غیر اخلاقی حرکت ہوگا۔ فواد چودھری وفاقی وزیر رہے ہیں، ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ غیر انسانی تھا۔ طویل عرصے سے سیاست کرنے والے اور سولہ بار وفاقی وزیر رہنے والے راولپنڈی کے شیخ رشید نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس صورت حال سے تو بہتر تھا کہ وہ مر جاتے۔شیخ رشید کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر لے جایا جاتا ہے، اس وقت کراچی پولیس بھی اسلام آباد موجود ہے۔شیخ رشید کے وکیل نعیم حیدر نے الزام لگایا ہے کہ پانچ لوگ شیخ رشید کو قتل کرانا چاہتے ہیں۔
ایک طرف ملکی سیاست کی آلودگی ہے تو دوسری طرف کراچی کے علاقے نیوکراچی 11 اے، اجمیر نگری میں مبینہ طور پر 2 ڈاکو ایک شخص کو لوٹنے کی کوشش کررہے تھے کہ شہریوں نے انہیں پکڑ لیا۔ پولیس کے مطابق مشتعل شہریوں نے دونوں ڈاکوؤں کو تشدد کے بعد زندہ جلادیا، مبینہ ڈاکوؤں سے پستول اور 2 موبائل فون برآمد ہوئے تھے ۔لا قانونیت کی انتہا ء کی وجوہات کے بارے حکومت اور حکمرانی کر نے والے سیاست دانوں کے سوچنے کی ذمہ داری ہے۔ واقعے کی جو موبائل فو ٹیج منظر عام پر آئی اس میں دونوں ڈاکو مردہ حالت میں پڑے نظر آرہے ہیں اور ان کے جسم پر آگ لگی ہوئی تھی ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ کراچی میں سال کے پہلے ماہ جنوری میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈاکوؤں نے فائرنگ کرکے 16 سے زائد شہریوں کو قتل کردیا تھا ۔ ضرورت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی لاقانونیت کی ایک چشم کشا مثال خیرپور کے علاقے کوٹ ڈیجی میں فلاحی تنظیم کی جانب سے تقسیم کیلئے لائے گئے راشن کے چار ٹرک پر دھاوا بول کر سیلاب متاثرین اور عام شہریوں نے لوٹ لیے۔بھگدڑ سے خواتین سمیت متعدد افراد زخمی بھی ہوگئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button