بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز سے ہاتھ ہو گیا

بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پنشنرز سے ہاتھ ہو گیا
تحریر : رفیع صحرائی
وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ حکومت نے توقعات کے عین مطابق سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے ساتھ ہاتھ کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ تمام وعدوں کو پسِ پشت ڈال کر وزیرِ اعظم شہباز شریف وفاقی کابینہ سے بجٹ منظوری کے وقت کابینہ اجلاس سے خطاب کے دوران مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اچھے نہیں لگے۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ اشرافیہ کو سوچنا ہو گا کہ ملازمین نے ملکی معیشت کو کس قدر سہارا دیا ہے اور سرکاری ملازمین کا اس میں کتنا حصہ ہے تو اس وقت ان کے چہرے پر سرکاری ملازمین کے ساتھ ہمدردی کا ایسا نقاب تھا جس کے پیچھے سے ان کا اصل چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ تنخواہ دار طبقے نے 400ارب ٹیکس دیا تو ان کا مقصد سرکاری ملازمین سے ہمدردی کرنا نہیں تھا بلکہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا تھا کہ آئندہ بھی قربانی کے لیے وہ تیار رہیں اگر انہوں نے پچھلے سال 400ارب روپے ٹیکس دیا تھا تو اس مرتبہ انہیں قریباً 582ارب روپے ٹیکس دینا ہو گا۔ دو قومی نظریہ کو فروغ تو وفاقی کابینہ نے بھی بہت خوبی سے دیا جب اپنی تنخواہ میں 145فیصد اضافہ کرنے کے بعد اس نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں صرف 6فیصد اضافے کی منظوری دی۔ بتایا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مجوزہ 6فیصد اضافہ مسترد کرتے ہوئے 10فیصد اضافے کی منظوری دی۔ اسی طرح پنشنرز کی پنشن میں مجوزہ 7فیصد اضافے کو بھی انہوں نے 10فیصد کرنے کی منظوری دی۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ سب کچھ ملی بھگت سے کیا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم نے سرکاری ملازمین کو موت دکھا کر بخار پر راضی کرنے کی کوشش کی ہے جو سرکاری ملازمین کو قابلِ قبول نہیں ہے۔ خصوصاً اس صورت میں یہ اضافہ قبول کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے جبکہ حکومتی نمائندوں نے بیک جنبشِ قلم اپنی تنخواہوں میں ہوش ربا اضافہ کر لیا ہے۔ یہ ایسی بے حسی ہے جس نے سرکاری ملازمین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ملازمین کو اس بات پر بھی شدید دکھ ہے کہ رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے سرکاری ملازمین کے نمائندگان سے بہت سے وعدے کر رکھے تھے اور ان پر عمل کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن اصل میں حکومت کی طرف سے ملازمین کو لالی پاپ دے کر اس لیے بہلایا گیا تھا کہ حکومت ملازمین کی طرف سے کسی متوقع احتجاج کو روکنا چاہتی تھی۔
ابھی چند دن پہلے ہی تو صدرِ مملکت نے شہنشاہی بل کی منظوری دی ہے جس میں ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز کی تنخواہوں میں 145فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں بیٹھنے والے یہ ’’ عوامی نمائندے‘‘ کیا واقعی اتنے غریب ہیں کہ ان کی تنخواہوں میں یکمشت اتنا اضافہ کر دیا جاتا یا حکومت کے ہاتھ قارون کا کوئی خزانہ لگ گیا ہے جسے اندھے کی ریوڑیاں بنا کر بانٹا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر آئی ایم ایف کو بھی مراعات یافتہ طبقے پر نوازشات کی موسلادھار بارش پر کوئی اعتراض نہیں۔ ایک اور نوازش اسپیکر اور چیئرمین سینٹ پر بھی کی گئی ہے۔ ان کی تنخواہوں میں 600فیصد اضافہ کر کے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری گئی ہے۔ حکومتی رویے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ مراعات یافتہ طبقے کو برہمن جبکہ سرکاری ملازمین کو شودر سمجھتی ہے۔ یہ دوقومی نظریہ اشرافیہ اور عوام کے درمیان خلیج کو گہرا اور وسیع کر رہا ہے۔ جو نفرتوں کو جنم دے رہا ہے۔ عوام اور سرکاری ملازمین کا اعتماد سسٹم سے مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔ اب سرکاری ملازمین کا مسلسل احتجاج شروع ہو جائے گا۔ حکومت کی طرف سے ان پر ڈنڈے برسیں گے۔ اگر احتجاج میں زیادہ شدت ہو گی تو جھوٹے وعدوں سے انہیں بہلانے کی کوشش کی جائے گی۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اگر حکومت اپنی ہی کمیٹیوں کو دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرے گی۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ جھوٹے وعدے اور معاہدے کیے جائیں گے تو اس حکومت کی کیا کریڈیبلٹی رہ جاتی ہے۔