Column

ذہنی دبائو، ایک خاموش مگر گہرا طوفان

ذہنی دبائو، ایک خاموش مگر گہرا طوفان
تحریر : شیر افضل ملک
دنیا کی تیز رفتاری، بڑھتی ہوئی ذمہ داریاں، مادی تقاضے اور جذباتی الجھنیں انسان کو نہ صرف جسمانی طور پر تھکا دیتی ہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اس تمام صورتِ حال کا مجموعی نتیجہ ذہنی دبائو یا اسٹریس کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی اور جذباتی بوجھ ہے جو انسان کی سوچ کردار، فیصلوں اور حتیٰ کہ جسمانی صحت کو بھی متاثر کر دیتا ہے۔ ذہنی دبائو ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان خود کو بے بس، پریشان، اضطراب میں مبتلا اور زندگی کے معمولات سے بیزار محسوس کرتا ہے۔ یہ کیفیت وقتی بھی ہو سکتی ہے اور مسلسل بھی، مگر جب یہ طویل المدت ہو جائے تو زندگی کے ہر پہلو کو زہر آلود کر دیتی ہے۔
خاندانی جھگڑے، والدین کا رویہ، ازدواجی ناہمواری، بچوں کی تعلیم یا ان کا غیر ذمہ دارانہ برتائو اکثر افراد کو ذہنی دبا میں مبتلا کر دیتا ہے۔بیروزگاری، مہنگائی، قرضوں کا بوجھ اور معاشی غیریقینی صورتِ حال ذہنی دبائو کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جب انسان اپنے اہلِ خانہ کی بنیادی ضروریات پوری نہ کر سکے تو وہ خود کو ناکام محسوس کرنے لگتاہے دفتر کے کام، باس کا سخت رویہ، کام کا بوجھ، ٹائم لائنز، اور نوکری کا عدم تحفظ انسان کو مسلسل تنا کی حالت میں رکھتا ہے۔ ملازمت سے متعلق دبا کئی افراد کو ذہنی امراض تک لے جاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں دنیا کوقریب کیا، وہیں دوسروں کی زندگیوں سے موازنہ کر کے انسان خود کو کمتر محسوس کرنے لگا ہے۔ حسد، بے اطمینانی اور ناکامی کا احساس ذہنی دبائو کو جنم دیتا ہے۔ کسی عزیز کی وفات، بچپن کی زیادتیاں، یا ماضی کے گہرے زخم بھی اکثر زندگی بھر کا ذہنی دبائو بن کر انسان کے شعور پر بوجھ بنے رہتے ہیں۔ نیند کی کمی، ناقص غذا، سستی، سوشل isolسیشن اور منفی سوچ ذہنی صحت کو تباہ کر دیتی ہے۔ متوازن زندگی کا فقدان انسان کو آہستہ آہستہ اندر سے توڑ دیتا ہے۔ طلبہ میں نمبروں کی دوڑ، والدین کی توقعات، اور امتحانی نظام کی سختی بھی ذہنی دبائو کی اہم وجوہات میں شامل ہے۔
جسمانی اثرات: سردرد، بے خوابی، بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا، چڑ چڑا پن، اداسی، مایوسی، خود اعتمادی میں کمی، خود کشی کے خیالات لوگوں سے کٹائو، اکیلا پن، خاندانی جھگڑے، دفترمیں کارکردگی میں کمی۔ اللہ سے دوری، عبادات میں سستی، دل کی بے سکونی۔
ذہنی دبائو سے بچائو کے طریقے: نماز، تلاوتِ قرآن، ذکر، دعا اور صبر انسان کو اللہ سے جوڑتے ہیں اور قلبی سکون عطا کرتے ہیں۔
قرآن میں ہے ’’ خبردار! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے‘‘۔
وقت کی منصوبہ بندی، متوازن غذا، ورزش اور نیند ذہنی صحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زندگی کے ہر پہلو میں مثبت پہلو تلاش کریں۔ مایوسی چھوڑ کر شکر گزاری و امید کی روشنی میں جینا سیکھیں۔ دوستوں، رشتہ داروں، یا کسی قابلِ اعتماد شخص سے اپنے دل کی بات کرنا ذہنی دبائو کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اگر ذہنی دبائو شدید ہو تو ماہرِ نفسیات یا کونسلر سے رجوع کریں۔ نفسیاتی علاج بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ اچھا ادب، کتابیں، شاعری، فطرت کی سیر، ہلکی موسیقی یا دلچسپ مشغلے بھی ذہنی سکون کا ذریعہ بن سکتے ہیں ذہنی دبائو ایک سنگین مگر قابلِ علاج مسئلہ ہے۔ یہ نہ صرف ذہن بلکہ جسم، جذبات اور تعلقات کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس دبائو کو تسلیم کرنا اور اس سے نبر دآزما ہونے کی لئے مثبت اقدامات کرنا ہر فرد کی ذاتی اور اجتماعی ذمے داری ہے۔ روحانی وابستگی، جذباتی توازن، اور سادہ زندگی اپنانا وہ کنجیاں ہیں جو ذہنی سکون کے دروازے کھولتی ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر رات کے بعد سویرا ضرور ہوتا ہے، اور ہر دبائو کے پیچھے اللہ کی حکمت پوشیدہ ہے۔ دفتر ایک ایسا سماجی نظام ہے جہاں افراد نہ صرف کام کرتے ہیں بلکہ اپنی شناخت، عزتِ نفس، اور وجود کے نقوش بھی ثبت کرتے ہیں۔ ہر دفتر، ایک چھوٹے پیمانے پر، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں منصب، اصول، تعلقات اور اخلاقیات کا آپس میں ایک نازک مگر پیچیدہ رشتہ ہوتا ہے۔ اس نازک نظام میں سینئر باس کا کردار محض ایک افسر کا نہیں بلکہ ایک مربی منصف، اور قائد کا ہوتا ہے۔ مگر جب یہ منصب اختیار سے لبریز ہو کر انصاف سے خالی ہو جائے تو پھر یہ ادارے کی جڑوں میں خاموش زہر کی طرح اتر جاتا ہے۔ آج کے بیشتر دفاتر میں ایک غیر محسوس مگر تباہ کن چلن جڑیں پکڑ چکا ہے، جہاں باس اپنے اختیارات کے زیرِ سایہ ایک مخصوص حلقہ قائم کر لیتا ہے۔ ایسے لوگ جو عقل و فہم میں کمتر، قابلیت میں کمزور، مگر چاپلوسی میں بلند ہوں، وہ باس کے قرب کا پروانہ پا لیتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہاں میں ہاں ملانے کی چمک، ہر غلط بات پر تائید کی مہر، اور ہر سچ پر خاموشی کا پردہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ محض فرد نہیں، بلکہ ادارے کے اخلاقی زوال کی علامت ہوتے ہیں۔ دوسری جانب وہ افراد جو علم و عمل میں پختہ، دیانت داری میں بے مثال، اور رائے دینے میں بے باک ہوتے ہیں وہ باس کی نگاہ میں ہمیشہ ناپسندیدہ رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ تو جھوٹ کے پردہ دار بنتے ہیں، نہ ہی ذاتی مفادات کیلئے سچ کو دفن کرتے ہیں۔ یہی لوگ اکثر نظر انداز کیے جاتے ہیں، اُن کی عزتِ نفس کو بار بار مجروح کیا جاتا ہے، اور اُنہیں محض اس لیے اہم دفتری امور سے دور رکھا جاتا ہے کہ وہ قابلِ اعتبار نہیں بلکہ قابلِ گرفت ہوتے ہیں۔ وہ باس کی کرپشن، ناانصافی اور پسند و ناپسند پر سوال اٹھانے کی جسارت رکھتے ہیں۔ یہ رویّہ صرف ایک فرد کی تضحیک نہیں، بلکہ ادارے کے علمی، اخلاقی اور انتظامی ڈھانچے کی تذلیل ہے۔ ایک باشعور ادارہ اُس وقت کھوکھلا ہونے لگتا ہے جب اصول، کارکردگی اور دیانت کو چھوڑ کر رشتے، چاپلوسی اور ذاتی مفاد فیصلہ کن معیار بن جائیں۔ ایک باشعور باس کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ اختلاف کو گناہ نہ سمجھے، تنقید کو دشمنی نہ مانے، اور دیانت داروں کو خطرہ نہیں، سرمایہ سمجھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر وہ ادارہ جہاں حقدار کو دھتکارا گیا اور خوشامدی کو گلے لگایا گیا، وہ صرف نتیجوں میں نہیں، اقدار میں بھی ناکام ہوا۔ قابلیت کو سزا، اور نالائقی کو انعام دینا دراصل وہ عمل ہے جو اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا باس کو یہ اختیار ہے کہ وہ میرٹ، اصول، اور اخلاقی بنیادوں کو نظر انداز کر کے محض ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرے؟ کیا کسی کی راست گوئی، امانت داری، اور اصول پسندی جرم ہے؟ کیا ادارے کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ سچ بولنے والے کو الگ تھلگ کر دے اور چاپلوسوں کو ایوانِ قربت میں جگہ دے؟۔
ایسے باس کو یہ جان لینا چاہیے کہ ادارہ صرف عمارت نہیں بلکہ ایک فکری اخلاقی اور پیشہ ورانہ ورثہ ہوتا ہے۔ اس ورثے کو صرف وہی شخص سنبھال سکتا ہے جو ظرف کا امیر، انصاف کا حامل، اور تعلقات سے بالا تر ہو۔ اگر قیادت ایک مخصوص گروہ کی جاگیر بن جائے، تو وہ ادارہ رفتہ رفتہ قبرستانِ ضمیر بن جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اداروں میں نہ صرف ایسے باس پنپ رہے ہیں، بلکہ ان کے گرد بننے والا چاپلوس طبقہ بھی معاشرتی ناسور بنتا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ ایک طرف ادارے کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں، اور دوسری جانب قابلیت کے راستے میں کانٹے بچھاتے ہیں۔ انکی موجودگی ادارے کے وجود پر ایک ایسا دھبہ ہے جو دھلنے کے بجائے گہرا ہوتا جاتا ہے۔ اداروں کی مضبوطی کا انحصار صرف عمارتوں پر نہیں، بلکہ ان لوگوں پر ہوتا ہے جو وہاں فیصلے کرتے ہیں۔ اگر باس کی سوچ وسیع ہو، ظرف بلند ہو، اور نظر میں میرٹ کا چراغ روشن ہو تو نہ صرف دفتری ماحول خوشگوار بنتا ہے، بلکہ ادارے کا مقام بھی بلند ہوتا ہے۔ بصورتِ دیگر، دفتر ایک ایسی جگہ بن جاتا ہے جہاں لوگ کام کم کرتے ہیں اور ذہنی اذیت زیادہ اٹھاتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اداروں میں صرف کارکردگی، اصول، اور اخلاقیات کو معیار بنائیں۔ خوشامد کے بازار بند کریں، اور سچائی کو قربت کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ سزا کا باعث۔ کیونکہ اگر باس کا دل چھوٹا، اور ذاتی مفاد بڑا ہوجائے، تو بڑے ادارے بھی چھوٹے لگنے لگتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات کچھ ملازمین باامرِ مجبوری یا لالچ میں آکر ایسے باس کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جسکے ساتھ کھڑے ہیں، وہ انصاف کا قاتل اور میرٹ کا دشمن ہے، مگر چونکہ اُن کی آئندہ ترقی یا مالی فوائد اس کی خوشنودی سے وابستہ ہوتے ہیں، اس لیے وہ ہر ناجائز کام میں اس کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں۔ ان کی زبان چاپلوسی کے گلاب اُگاتی ہے، اور عمل انصاف کے خلاف زہر اگلتاہے۔ اصل مسئلہ یہاں صرف دفتری سیاست نہیں، بلکہ روحانی انحطاط اور ایمانی کمزوری ہے۔ جو شخص اپنے ربّ کریم پر کامل یقین رکھتا ہو، وہ جانتا ہے کہ رزق کا اختیار نہ باس کے ہاتھ میں ہے، نہ کسی دفتری نوٹیفکیشن میں۔ وہ سمجھتا ہے کہ عزت، ترقی اور کامیابی صرف اور صرف اُس خدا کے ہاتھ میں ہے جو دلوں کے حال جانتا ہے، اور جو ظاہر و باطن کا مالک ہے۔ جو لوگ وقتی فائدے کے لیے اصولوں کا خون کرتے ہیں، وہ نہ صرف ادارے کے مجرم ہوتے ہیں بلکہ اپنے ضمیر اور ایمان کے بھی قاتل ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو باس کی خوشنودی کے لیے ہر جھوٹ، ہر فریب، اور ہر زیادتی کو جائز سمجھنے لگتے ہیں، مگر ربّ العالمین کے احکام کی پیروی اُنہیں غیر ضروری لگنے لگتی ہے۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے جب وہی باس جس کے لیے انہوں نے ایمان، سچائی، اور عزتِ نفس کو گروی رکھ دیا تھا۔ کسی مشکل گھڑی میں اُن کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ کیونکہ چاپلوسی کا رشتہ وفاداری کا نہیں بلکہ مفاد پرستی کا ہوتا ہے۔ جب مفاد ختم، تو رشتہ بھی ختم۔ اور تب یہ لوگ تنہا، پشیمان، اور خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں، نہ ضمیر مطمئن، نہ دنیا سلامت، نہ آخرت روشن۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ سوال خود سے کریں: کیا ہم ترقی کی قیمت ضمیر سے چکا رہے ہیں؟ کیا ہم باس کی خوشنودی کے لیے ربّ العالمین کی ناراضی مول لے رہے ہیں؟۔
اگر ہاں، تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں ہر حال میں حق کا ساتھ دینا ہوگا، چاہے وہ وقتی طور پر کٹھن ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اللہ کے لیے چھوڑا گیا کوئی کام، اللہ بہتر شکل میں واپس کرتا ہے۔

شیر افضل ملک

جواب دیں

Back to top button