ColumnZameer Afaqi

پاکستان کامعاشی مستقبل بلیو اکانومی میں ہے ؟ .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

اگر یہ کہا جائے کہ سمندر معاشی سرگرمیوں کی ابتدا میں اہم حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس کے ذریعے تجارت کا کلیدی کردار رہا۔ آج دنیا کی نوے فیصد تجارت پانی یعنی سمندر اور دریا کے ذریعے ہی ہوتی ہے اور اس میں دریا اور سمندر دونوں شامل ہیں۔یہ معاشی اصطلاح 2006 میں متعارف کرائی گئی اور 2010 میں اس پر کام شروع ہوا، پوری دنیا میں اس پر کام ہو رہا ہے، ورلڈ بینک اور ڈبلیو ڈبلیو ایف بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان نیوی اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ سول و فوجی عہدیداروں کی جانب سے بلیو اکانومی کو فروغ و ترقی دینے کے اعلانات کے علاوہ پاکستان کی وزارت بحری امور نے آج سے چند برس قبل 2020 کو بلیو اکانومی کا سال منانے کا اعلان بھی کیا تھا تاہم ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے اس کا سرکاری سطح پر اجرا نہیں ہوسکالیکن اب پھر اس پر کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان میں بلیو اکانومی کی ترقی کا مقابلہ اگر خطے کے دوسرے ممالک سے کیا جائے جن میں خاص طور پر بنگلہ دیش اور انڈیا شامل ہیں اور پاکستان بھی بہتر فوائد سمیٹ سکتا ہے۔بلیو اکانومی اور بحری امور کے ماہرین کا پاکستان میں اس سلسلے میں ترقی نہ ہونے کے بارے میں کہنا ہے کہ اس متعلق آگاہی کا نہ ہونا اور مطلوبہ انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کے ساتھ حکومتوں کی عدم توجہی اور اس کیلئے ضروری بھاری سرمایہ کاری نہ ہونا بڑی وجوہات ہیں۔ پاکستان کے پاس ایک ہزارکلو میٹر سے زائد کی ساحلی پٹی اور قریباً دو لاکھ نوے ہزار مربع کلومیٹر کا سمندری علاقہ موجود ہے۔ پاکستان کی حجم کے لحاظ سے 90 فیصد سے زائد تجارت بحیرہ عرب کے ذریعے ہوتی ہے۔ ماہرین بلیواکانومی کو مستقبل کی بہت بڑی معاشی سرگرمی قرار دے رہیں ان کا کہنا ہے کہ بلیو اکانومی نہ صرف ملکی معاشی صور حال کو بہتر کرے گی بلکہ اس سے کاروباری سر گرمیوں میں بھی اضافی ہو گا اس ضمن میں موجودہ چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل امجد خان نیازی کی کاوشیں قابل تعریف ہیں انہوں نے جب سے عہدہ سنبھالا ،پاکستان کی سمندری حدود کی نگہبانی کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کو سمندری وسائل سے فائدہ پہنچانے کا بھی بیڑا اٹھا لیا ہے۔ اس حوالے سے ایڈمرل امجد خان نیازی خاصے سرگرم بھی نظر آرہے ہیں اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی انہوں نے پاکستان کی تمام سیاسی ایلیٹ کو پاکستان کے سمندری وسائل اور اس سے وابستہ معاشی فوائد پر تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ اب وہ اپنے سمندری معاشی ایجنڈے یا بلیو اکانومی ایجنڈے کو عام کرنے کیلئے وہ مختلف ایوانِ تجارت و صنعت اور بیرونی ممالک کے دورے بھی کررہے ہیںاور وہاں وہ سمندری معیشت سے متعلق اپنی کاروباری سرگرمیوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس سمندری حدود صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مجموعی رقبے سے بڑی ہے مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے، سمندر اور اس سے متعلق معیشت کو سیاسی حمایت بھی حاصل نہیں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان نے گزشتہ 70 سال میں ایک بڑے رقبے کے وسائل پر قبضہ میں ہونے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اٹھایا، اور آج بھی نہ صرف یہ کہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش اور دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے بلکہ اِس حوالے سے کوئی سوچ بھی موجود نہیں ہے۔
چیف آف نیول سٹاف کے مطابق پاکستان کی قومی قیادت سمندر سے متعلق اسی طرح لاعلم ہے جیسا کہ سی بلائنڈنس سینڈروم ( syndrome blindness sea)۔ سیاسی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی بھی سمندر سے متعلق امور پر توجہ اور اہمیت نہیں دیتی اور اکثر معاملات بیورو کریسی کے سرخ فیتے کی نذر ہوجاتے ہیں۔اب دیکھیں کہ جہاز رانی کی عالمی تنظیم نے پاکستانی سمندری حدود کو ہائی رسک سکیورٹی زون قرار دے دیا۔ اس ہائی رسک سکیورٹی زون میں ہونے کی وجہ سے پاکستان آنے والے تجارتی و بحری جہاز زیادہ کرایہ اور مہنگی انشورنس طلب کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے ہونے والی برآمدات اور پاکستان منگوائی جانے والی اشیاء پر اضافی انشورنس اور کرایہ ادا کیا جاتا ہے جوکہ اربوں ڈالر بنتا ہے۔ اسی طرح بعض جہاز راں کمپنیاں تو اسی وجہ سے کارگو پاکستان آنے کے بجائے پڑوسی یا قریب ترین بندرگاہوں پر چھوڑ جاتی ہیں۔ وہاں سے پاکستان ٹرانس شپمنٹ کرنا پڑتا ہے جس سے بھی اضافی لاگت آتی ہے۔اب یہ کام تو وزارتِ بحری امور یا وزارتِ تجارت یا پھر وزارتِ خارجہ کا تھا کہ وہ پاکستان کی سمندری حدود کو ہائی رسک کے درجے سے نکلوائے مگر اس جانب توجہ دے تو کون دے؟ اب یہ کام بھی پاکستان بحریہ نے اپنے سر لے لیا اور سب سے پہلے پاکستان کو بحری قزاقی سے پاک علاقہ قرار دلوایا اور جہاز رانی کی عالمی تنظیم نے پاکستان کو تجویز کیا کہ بندرگاہوں کی سکیورٹی کیلئے خصوصی فورس قائم کی جائے جو اے ایس ایف کی طرز پر قائم کی جانی تھی۔ اس فورس کے قیام کے حوالے سے نیوی نے ایک سمری حکومت کو ارسال کی تھی۔
پاکستان کے خصوصی معاشی زون میں اضافے کا معاملہ ہو یا خصوصی کانٹنینٹل شیلف، یہ کام بھی پاکستان نیوی کے کاندھوں پر ہی ڈال دیا گیا ہے۔ جبکہ وسائل اور سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق نیوی کی سفارش پر وزارتِ پورٹ اینڈ شپنگ کا نام تو میری ٹائم افیئرز کردیا گیا مگر تاحال میری ٹائم کے حوالے سے معاملات 8 سے 9 وزارتوں کے ماتحت ہیں۔ وقت جو کبھی رکتا نہیں گزر رہا ہے اور اس حوالے سے تبدیلی اور اصلاحات پر کوئی تیار نہیں ہے۔ وزارتیں نہ تو خود کچھ کررہی ہیں اور نہ ہی سمندر کے حوالے سے اپنے پاس موجود اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں۔حالت تو یہ ہے کہ پاکستان میں میری ٹائم افیئر پر پاکستان نیوی کے افسران کے علاوہ کوئی آزاد ماہر دستیاب ہی نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب تک سمندر سے متعلق کوئی سروے نہیں کیا گیا جس میں اندر موجود سمندری حیات اور سمندر کی تہہ میں موجود معدنیات اور تیل اور گیس کے حوالے سے کوئی جائزہ لیا جاسکے۔پاک چین اقتصادی راہدری کے تحت چین نے پہلی مرتبہ ایک سائنسی مہم جوئی کا اہتمام کیا ہے جس کی مدد سے پاکستان اور چین کے سائنسدان مکران کی کوسٹل بیلٹ کی نقشہ سازی، معدنیات کے نمونے حاصل کرنے اور سمندری حیات سے متعلق معلومات کو جمع کریں گے اور اس سروے کو نہ صرف سائنسی تحقیق کیلئے استعمال کیا جائے گا بلکہ تیل و گیس کی تلاش سے متعلق کمپنیوں کو بھی سٹڈی فراہم کی جائے گی۔ اس سائنسی مہم جوئی کیلئے فنڈنگ چین نے فراہم کی ہے۔ مگر اس میں 8 پاکستانی سائنسدانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button