ColumnMazhar Ch

پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے؟ .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

1967میں قائم ہونے والی ملک کی اہم ترین جمہوری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی 55سالوں کی ہو گئی ہے۔اگرچہ آج پیپلز پارٹی ملک کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے تاہم اپنی تشکیل کے بعد سے لے کر2013 کے انتخابات تک پیپلز پارٹی ملک کی صف اول کی دو جماعتوں میں شامل رہی ہے۔ 1970کے انتخابات میںاگرچہ پیپلز پارٹی شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آئی تاہم دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی تنازعات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باعث پیپلز پارٹی اپنے پہلے ہی انتخابات کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب رہی،1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں کلین سویپ کیالیکن اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے حلف اٹھانے سے انکار کردیا ۔بھٹو شہید کی پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اس سیاسی تنازع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج نے ایک بار پھر ملک میں مارشل لاء لگاکر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ غیر جانب دار سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق1977کے انتخابات میںتھوڑی بہت دھاندلی ضرور ہوئی لیکن اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کہ پیپلز پارٹی کیلئے دوبارہ جیتنا مشکل ہوتااور شاید یہی وجہ تھی کہ 90دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کرنے والے فوجی آمر ضیاء مختلف حیلے بہانوں سے انتخابات کو ٹالتے رہے اور دس سالہ دور آمریت میں پیپلز پارٹی اور اس کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص پر عرصہ حیات
تنگ کر دیا گیاجس نے کسی بھی شکل میں یا تو آمریت کی مزاحمت کی یا کسی بھی سطح پر پیپلز پارٹی اور بھٹو شہید کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔دس سالہ دور آمریت میں بھٹو صاحب کو جسمانی طور پر ختم کرنے سمیت پیپلز پارٹی کا جسمانی و نظریاتی وجود ختم کرنے کی پوری کوششیں کی گئیں لیکن 1988 کے انتخابات کے نتائج نے واضح کر دیا کہ نہ تو لوگوں کے دلوں سے بھٹو کو نکالا جا سکا اور نہ پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت ختم کی جا سکی۔دس سالوں میں آمرانہ طاقتوں کے ہاتھوں زیر عتاب رہنے والی پیپلز پارٹی 1988کے انتخابات میں آمریت کے دودھ پر پلے ہوئے سیاسی پہلوانوں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے دوبارہ حکومت بنا نے میں کامیاب رہی۔پیپلز پارٹی نے وفاق میںتیسری بار 1993 جب کہ چوتھی اور آخری بار 2008میں حکومت بنائی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف ادوار میں پیپلز پارٹی کی قیادت سے کچھ غلط فیصلے بھی ہوئے جن کا پارٹی کو ٹھیک ٹھاک سیاسی نقصان بھی چکانا پڑا تاہم مجموعی طور پر ان ادوارمیں پیپلز پارٹی نے
متعدد محاذوں پر ملک اور معاشرے کو آگے کی سمت لے جانے کیلئے قابل ذکر اقدامات کئے۔پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے دور حکومت میں ملک کو متفقہ آئین دینے کے علاوہ جوہری پروگرام کا آغاز کیا۔اکہترکی جنگ میں بھارت کی قید سے 90ہزار جنگی قیدیوں کو باعزت رہائی دلوائی۔ غریب کسانوں میں زمینیں تقسیم کیں۔پاکستان سٹیل مل کا قیام اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا شروع کئی۔1988سے 1990اور 1993سے 1996 کے درمیان اپنی دو نامکمل حکومتوں میں بے نظیر بھٹو نے خواتین کے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے ، کاروبار کیلئے قرض فراہم کرنے، خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کرانے اور اعلیٰ عدلیہ میں خواتین ججز کا تقرر ممکن بنانے سمیت خواتین کو ہر میدان میں آگے لانے کیلئے قابل ستائش اقدامات کئے۔2006میں پاکستا ن کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہندو خاتون رتنا بھگوان داس چائولہ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئیں۔ اس کے علاوہ ملکی تاریخ میں پہلی بار خاتون سپیکرکی تقرری اور پہلی بار کسی خاتون سیاسی رہنما کو قائد حزب اختلاف بنانے کے اعزازات بھی پیپلز پارٹی جیسی ترقی پسند جمہوری جماعت کے حصے میں آئے۔صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختون خوا کرنا بھی ایک اہم قدم تھا۔پیپلز پارٹی نے این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے حصے میں اضافہ کر کے اور گوادر پورٹ پر ترقیاتی کام کا آغاز کر کے صوبے کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرنے کے علاوہ آئین میں 18ویں ترمیم منظور کرانے جیسے بڑے اقدامات بھی یقینی بنائے۔پیپلز پارٹی کی قیادت سے ہونے والے نامناسب فیصلوں میں سوشلزم کا صنعتوں پر سوچے سمجھے بغیرنفاذ، جاگیرداروں کو پارٹی میں لانے اور سیاسی مخالفتوں کو دشمنی سمجھ لینے کی فاش غلطیاں سرفہرست ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک وقت میں چاروں صوبوں کی زنجیرکہلانے والی جماعت 2018کے عام انتخابات میںمحض ایک صوبے کی جماعت بن کر رہ گئی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گذشتہ دو سالوں سے سیاسی و انتخابی منظر نامے میں پیپلز پارٹی کا کردار بتدریج بہتر اور اہم ہوتا جا رہا ہے۔پیپلزپارٹی اس وقت نہ صرف سینیٹ میں دوسری بڑی اکثریتی جماعت ہے بلکہ آزاد کشمیر اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی پی پی کا ہے۔اسی طرح گلگت بلتستان اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت کے طور پر موجود ہے۔آزاد کشمیر میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی پیپلز پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔16اکتوبر 2022 کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی دو ایسی نشستوں پر کامیابی سمیٹنے میں کامیاب رہی جہاں 2018کے انتخابات میں ان کے امیدوار ہار گئے تھے۔تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کرانے میں بھی پیپلزپارٹی کے روح رواں آصف علی زرداری کی مفاہمانہ اور جوڑ توڑ کی سیاست کا کلیدی کر دار تھا۔مجموعی طور پر بات کی جائے تو پیپلز پارٹی کی سیاسی وانتخابی حکمت عملی کافی موثر اور کامیاب دکھائی دیتی ہے۔اگرچہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت پر اب بھی بڑا سوالیہ نشان موجود ہے تاہم بدلے ہوئے سیاسی وانتخابی منظر نامے میں یہاں بھی پارٹی کے اثر ورسوخ میں اضافے کے امکانات روشن ہیں۔ تھر کول منصوبے سے تھر کا سماجی ومعاشی ڈھانچہ تبدیل کرنے اور وسیع و عریض صحرائی علاقے میں صاف پانی کی فراہمی سمیت سندھ بھر میں جدید ترین ہسپتالو ں(دل، لیور اور سائبر نائف) کا جال بچھانے سے سندھ میں پیپلز پارٹی پہلے سے زیادہ مضبوط اور مقبول ہو گئی ہے۔غالب امکان یہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں نہ صرف پی ڈی ایم اتحاد برقرار رہے گا بلکہ پی ڈی ایم اتحاد ہی وفاق میں حکومت تشکیل دے گا۔ موجودہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آنے کی پوزیشن میں ہے۔ مفاہمت کی سیاست کے بادشاہ اور جوڑ توڑ کی سیاست میں پی ایچ ڈی سمجھے جانے والے آصف علی زرداری ایک سے زیادہ مواقع پر 2023کے انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت بنانے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔ موجودہ حکومتی اتحاد میں بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ بنانے کا مقصد دراصل انہیں وزیراعظم کی ٹریننگ دینا ہی ہے۔ملکی سیاست میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہ آئی تو پیپلز پارٹی وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں کھڑی ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button