ColumnImtiaz Aasi

قابل تقلید مثال .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

برطانوی وزیراعظم لنرٹرس نے مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکامی پر مستعفی ہو کر قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ وہ اپنے منصب پر صرف چوالیس روز فائز رہیں۔بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے عہدے سے استعفے دے دیا۔ایک ہمارے وزیراعظم ہیں اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کی نوید میں ناکامی کے باوجود اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔مہنگائی سے تنگ عوام کا جو حال ہے ماضی قریب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔عمران خان کے دور میں عوام کو کم از کم اس سطح کی مہنگائی کا سامنا نہیں تھا جس کا سامنا انہیں موجودہ حکومت کے دور میں ہے۔مہنگائی پر قابو کرنے میں ناکامی کے باوجود عوام کو آئندہ چند ماہ میں مہنگائی کم کرنے کا چکما دیا جا رہا ہے۔سیاست دان جمہوریت کی باتیں کرتے نہیں تھکتے مگرجمہوری روایات کی پاسداری کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔دراصل حکمران اشرافیہ کو عوام کی مشکلات کم کرنے کی بجائے اپنے تجوریاں بھرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔چلیں عمران خان عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے تھے موجودہ حکومت عوام کیلئے کون سا آسمان سے تارے توڑ لائی ہے، ماسوائے طفل تسلیوں کے عملی طور پر مہنگائی کم کرنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔ملکی تاریخ میں ایک بار ایسا موقع آیا جب ملک کے وزیراعظم چودھری محمد علی نے اپنے خلاف الزام آنے کے بعد وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کی مثال قائم کی ورنہ تو منی لانڈرنگ اور ایون فیلڈ میں عوام کے پیسوں سے محلات خریدنے کے الزامات کے باوجود حکمران اشرافیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی بلکہ عدالتوں میں پیشی کے وقت وکڑی کا نشان بناتے رہے۔برطانیہ کبھی سپر پاور اورچار براعظموں پر حکمرانی کرتا تھا دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح آج کل معاشی مسائل کا شکار ہے۔نوآباتی نظام کے تحت تجارت کے بہانے ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے ہندوستان پر قبضہ جما نے کے بعد ڈیڑھ سو سال برصغیر پر حکمرانی کرکے مسلمانوں ، ہندووں ، سکھوں اور دیگر اقوام کو غلام بنائے رکھا۔قابل توجہ پہلو یہ ہے برطانوی حکومت نے صرف آٹھ ہزار اپنے سول سروس کے افسران کے ذریعے برصغیر پر حکمرانی کی لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد مختلف بغاوتوں کے نتیجہ میں برطانوی راج کا سور ج غروب ہو گیا۔ہم مہذب معاشروں کی باتیں تو کرتے ہیں عملی طور پرمہذب معاشروں کی روایات سے بہت دور ہیں۔عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد عوام کو امید تھی اشرافیہ کلاس سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم عوام کے وہ مسائل تو حل کریں گے جنہیں حل کرنے میں تحریک انصاف ناکام رہی۔یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔اشرافیہ نے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی بجائے اپنے خلاف کرپشن مقدمات ختم کرنے کو فوقیت دی جس میں وہ پوری طرح کامیاب ٹھہرے ہیں۔چلیں مقدمات ختم کرالئے مہنگائی کا کچھ سدباب کرنے کی طرف توجہ دینے کی بجائے وزیراعظم کو اپنے ہونہار بیٹے حمزہ کی وزارت اعلیٰ جانے کا غم کھائے جا رہا ہے۔ پہلے ضمنی الیکشن میں شکست کا غم بھلائے نہیں تھے کہ حالیہ ضمنی الیکشن میں اپنی جماعت کی عبرتناک شکست کا بدلہ وہ پنجاب کو گندم کی سپلائی روک کر لے رہے ہیں۔چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے انہوں نے حق تعالیٰ سے شریف خاندان سے نجات کی دعا مانگی تو اللہ تعالی نے انہیں عمران خان دے دیا۔یہ ملک بائیس کروڑ عوام کا ہے نہ کہ حکمران اشرافیہ کا ہے۔
وہ پنجاب کے حصے کی گندم کس قانون کے تحت روک سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں صوبے کے فنڈ روکنے کا اختیار ہے۔مسلم لیگ نو ن کے قائد نواز شریف گذشتہ ضمنی الیکشن میں اپنی جماعت کی شکست سے افسردہ تھے حالیہ ضمنی الیکشن میں اپنی شکست سے سیخ پا ہیں۔ملک میں جب کبھی کوئی آفات آئی دنیا کے بہت سے ملکوں نے ہمیں مالی امداد دی ۔ افسوناک پہلو یہ ہے موجودہ حکومت کو کسی ملک نے سیلاب زدگان کیلئے مالی امداد نہیں دی بلکہ متاثرین سیلاب کیلئے ضرورت کی اشیاء بھیجنے پر اکتفا کرکے یہ پیغام دیا ہے انہیں حکومت پر اعتبار نہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین نے ٹیلی تھون کرکے اربوں روپے جمع کرکے متاثرین میں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔درحقیقت 1985 کے بعد ملکی سیاست میں جو گند پڑا ہے اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔سیاست دانوں کی اکثریت کا مطمع نظر اقتدار میں آکر ملک کو ترقی دینے کی بجائے اپنے اثاثوں میں اضافہ کرنے کی فکر رہتی ہے۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے پلاٹوں اور لفافوں کی سیاست کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے ورنہ اڑتیس سال پہلے نہ تو کسی کو پلاٹوں کا لالچ تھا اور نہ ہی لفافوں کی صحافت تھی۔اشرافیہ کی کرپشن اور شہ خرچیوں نے ملک کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا ایک نہ ایک روز اسے زوال پذیر ہونا ہے۔شریف خاندان اور زرداری کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔موجودہ حکومت کا اقتدار میں آئے ہوئے چھ ماہ ہو چکے ہیں ابھی تک عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں ۔حکومت کو اپنے کاموں سے فرصت نہیں کبھی اتحادی ناخوش ہیں اور کبھی حکومت وزراء استعفیٰ دے رہے ہیں جو اس امر کا غماز ہے حکومت کی بنیاد کمزور پلرز پر کھڑی ہے جو کسی وقت بھی گر سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button