ColumnNasir Naqvi

چھوٹی پیکنگ میں بڑا آ دمی .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

نہ کوئی اپنی خوشی سے دنیا میں آتا ہے نہ ہی اپنی خوشی سے جا سکتا ہے بلکہ جتنے بھی عزیزواقارب بچے کی پیدائش پر خوش ہوتے ہیں وہ اس کی رخصتی پر آنسو ضروربہاتے ہیں خواہ جانے والے کی عمر کتنی بھی ہو؟ بڑے یہی کہتے ہیں کہ دنیا میں آنے والے ہر شخص کو ایسا میل جول رکھنا چاہیے کہ جب وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہو تو ہر بندہ آہ بھرکر اس کیلئے چند دعائیہ کلمات ضرور کہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ قد کاٹھ ،رنگ روپ کسی کا قابل قدر ہو ،کہ نہ ہو، اگر اس کا کردار اچھا ہے اس نے لوگوں کے دُکھ سُکھ کو سمجھا ہو، اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے کچھ دوسروں کیلئے خرچ کیا تو پھر ستِ خیراں، یہ بات بھی اٹل ہے کہ خاندانی نسل کا تین چار پشتوں تک اثر نمایاں رہتا ہے۔
دنیا اور سائنس دان دونوں متفق ہیں دادا ،نانا، نانی ،دادی کی جسامت اور رنگ کی جھلک بھی پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں میں دکھائی دیتی ہے جبکہ ماں باپ تو پہلے حصے دار ہوتے ہیں وہ جب پیدا ہوا تو پاکستان میں آنے دو آنے روپے کے سکوں کے ساتھ پیسوں کا بھی رواج تھا آج کے پانچ روپے کے سکے کے برابر ایک پیسہ ہوتا تھا لیکن اسے چھوٹا سکہ ہونے کے باعث ’’ٹیڈی پیسہ‘‘ کہا جاتا تھا لہٰذا چھوٹی جسمامت کے باعث طارق بھی ٹیڈی کہلایا، عام سے گھرانے میں پیدائش کی وجہ سے وہ بھی عام آدمی تھا فیصل آباد کی مٹی طنز و مزاح کے حوالے سے انتہائی اہم ہے، وہاں اچھے بھلے آدمی بھی پنجابی کی خاص روایت فقرے بازی یعنی جگت کے بغیر بات نہیں کرتے ،ان کی سیدھی بات بھی روایتی علاقائی انداز میں منفرد لگتی ہے یہی طارق ٹیڈی کی شخصیت میں رچا بسا تھا ابتدائی گنتی کی جماعتیں پڑھنے کے بعد زندہ دلوں کے شہر لاہور کا رخ کیا ان سے پہلے سٹیج کی دنیا میں فیصل آباد کےطارق جاوید اور سردار
کمال اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑچکے تھے اس دور میں امان اللہ ،البیلا کی جوڑی کے ساتھ مستانہ، شوکی خاں، ببوبرال اور کئی دوسرے اپنا منفرد مقام بنانے کی جدوجہد میں تھے ۔طارق ٹیڈی چھوٹے قد کا خوبصورت نوجوان تھا، جگت بازی اس کے انگ انگ میں پل رہی تھی لیکن قدآور مزاحیہ اداکاروں کی منڈی میں اس کی دال نہیں گلی،پھر بھی طارق نے ہمت نہیں ہاری بلکہ محنت اور جدوجہد سے خداداد صلاحیتوں سے اپنی جگہ بنانے کی ٹھان لی اب وہ ہر قیمت پر اچھے مستقبل کی تلاش، سٹیج میں ہی دنیا اورمنزل سمجھنے لگا اسے ایسے شارٹ کٹ کی تلاش تھی جس سے کسی نہ کسی طرح وہ سٹیج اداکار و پروڈیوسر کی ٹیم کا حصہ بن جائے، اس نے اپنے مشن کی کامیابی کیلئے پہلی ذمہ داری پروڈکشن کی طارق کو فنکاروں کے جھرمٹ میں رہنے کے مواقع مل گئے محنت اور دیانتداری سے نیک نامی کمائی پھر اس نے بھی اپنے پاس موجود فیصل آبادی جگت بازی خزانے سے ہوائی فائرنگ شروع کی چند دنوں میں ہی یہ بات مشہور ہوگئی پروڈکشن بوائے طارق ٹیڈی بھی جگت بازی اور موقع محل کی اچھی سوچ بوجھ رکھتا ہے پہلے پہلے تو اسےآف دی سٹیج وقت گزاری کیلئے تختہ مشق بنایا گیا لیکن اس نے اس مشکل وقت میں بھی کسی قسم کی دشواری کی بجائے دلچسپی کا مظاہرہ کیا لہٰذا جلد ہی اس کا امتحان ختم ہوگیا اور اسے نامی گرامی اداکاروں کے مدمقابل چانس مل گیا اس نے اس موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے کامیابی کی طرف موڑ دیا ،بر محل اچھی جگت کی خداداد صلاحیتیں اور فیصل آبادی روایت مثال بنی اور طارق ٹیڈی دیکھتے ہی دیکھتے صف اول کا ادا کار بن گیا۔
میرا اس کا برسوں کا ساتھ تھا میری ایک سے زیادہ پروڈکشن میں اس نے بڑی ذمہ داری سے فرائض انجام دیئے لیکن جب وہ سکہ بند کامیاب اداکار بنا تو ہماری صحافتی مصروفیات میں اضافہ ہو چکا تھا اس لیے بطور اداکار میری کسی پروڈکشن میں کام نہ کر سکا تاہم خواہش دونوں کی تھی کہ کبھی اکٹھے کام بھی کریں۔ میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اسے ٹی وی پروڈکشن کیلئے رضا مند کیا لیکن وقت اور مصروفیت دونوں نے ساتھ نہ دیا وہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ نے فیصل آبادی روایت میں برجستہ جملے بولنے کی صلاحیت بخشی ہے ہم بھلا ڈراموں کے مکالمے یاد کرکے کیسے بھول سکتے ہیں یہ بھی مالک کا کرم ہے کہ بات بنی ہوئی ہے ورنہ اس قابل ہوتے تو ہم تعلیم ادھوری کیوں چھوڑ دیتے؟ اس کی اس تکرارپر میں ہمیشہ امان اللہ کی مثال دیا کر تا تھا وہ بھی یہی بحث کرتے تھے لیکن ہم نے اپنے استاد محترم محمد نثار حسین کے طویل دورانیہ کے خوبصورت کھیل’’ننگے پاؤں‘‘میں تان سین کے کردار میں کاسٹ کرادیا چند مناظر میں وہ گھبرائے یہ ان کے بس کا کام نہیں لیکن پھر ساتھی اداکاروں کی حوصلہ افزائی سے امان اللہ نے اس کردار میں چار چاند لگا دیئےان اداکاروں میں مرکزی کردار ادا کرنے والے افضال
احمد سرفہرست تھے۔ آج بھی اگر محمد نثار حسین کا طویل دورانیہ کا ڈرامہ ننگے پاؤں دیکھا جائے تو بھی داد دئیے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا۔ اس یادگار کھیل کے مصنف اشفاق احمد سے اندازہ خود لگا لیں کہ ان کے مکالمےاور الفاظ کس قدر امان اللہ کی شخصیت سے مختلف ہوں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ تان سین کی اس پیروڈی میں امان اللہ کا فنکار کھل کر سامنے آیا بلکہ اس نے بڑے اداکاروں اور نثار حسین سے بھی داد سمیٹی،بالکل اسی طرح تین دہائیوں کا اداکاریار طارق ٹیڈی بھی اپنی مثال آپ تھا وہ دنیا سے چلا گیا کیونکہ مسکراہٹیں اور قہقہےباٹنے والےاس اداکار نے اپنے چہرے کے پردے میں بہت سےدکھ پالے ہوئے تھے، اب ہم ایسے فن کار کو کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں گے کیسے پائیں گے ؟نظام قدرت نے اسے ناممکن بنا دیا ہے۔ ساتھی فنکاروں کا کہنا ہے کہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ طارق ٹیڈی کی زندگی کے آخری سانس انتہائی مشکل میں گزرے لیکن وہ صرف اداکار ہی نہیں اچھے انسان تھے انہوں نے اپنی خوش حالی اور عروج کے دور میں بہت سے لوگوں کی مدد کرکے دل جیتے لیکن اپنے غموں اور دکھوں کو کسی پر عیاں کرنے کی بجائے سینے میں پالتے رہے جنہوں نےطارق ٹیڈی کو پہلے سٹیج اور پھر پرستاروں سے دور کیا پھر دنیا چھوڑنے پر مجبور کر دیا ،کیونکہ جگر اور سانس کے عارضے نے جینا دوبھر کر دیا تھا،طارق ٹیڈی نے درجنوںبلکہ سینکڑوں ڈراموں میں اپنی بہترین اداکاری اور برجستہ جملوں سے لاکھوں پرستاروں کی محبت حاصل کی آج وہ زندگی کی بازی ہار چکا ہےلیکن اس کے لازوال کردار اسے عرصہ دراز تک اپنے چاہنے والوں کے دلوں سے نکلنے نہیں دیں گے کیونکہ وہ اپنے غموں اور دکھوں کا اظہار کئے بغیر دنیا سے چلا گیا اس کی کمی برسوں محسوس کی جائے گی اس لئے کہ وہ تو دوسروں کے غموں اور دکھوں کا مداوا کرتا تھااداس لوگوں کیلئے مسکراہٹوں کا خزانہ تھا، یوں تو اس نے سٹیج کے تمام اداکاروں کے ساتھ بہترین کام کیا لیکن اس کی زندگی کی ایک کامیاب جوڑی اداکار مستانہ کے ساتھ بنی تھی ان کی رحلت پر یقیناً طارق ٹیڈی اسی طرح اداس تھا جیسے اس کے ساتھی فنکار آج اداس اور رنجیدہ ہیں ۔
طارق ٹیڈی جیسے خداداد صلاحیتوں کے مالک اداکار یقیناً روز روز پیدا نہیں ہوتے، اس نےان منٹ نقوش ایسے چھوڑے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر نئے آنے والے اپنے آپ کو منفرد بنا سکتے ہیں اس کی ضرورت محسوس اس لئے کی جائے گی کہ آج کے مشکل دور میں لوگ اپنے مسائل سے گھبرا کر ہنسنا بھول گئے ہیں لوگوں کی صحت اور تندرستی کیلئے ہنسانے کے مواقع بھی حضرت انسان کیلئے انتہائی قیمتی ہوتے ہیں۔ نظام قدرت نے ہمارا چھوٹی پیکنگ کا بڑا اداکار چھین لیا لیکن اس کے خزانے میں کمی نہیں،کوئی اس کی جگہ پُر نہ بھی کر سکا تو بھی مسکراہٹیں بانٹ کر طارق ٹیڈی یاد تازہ رکھے گا۔ فنکار برادری اور پرستار اس کی فیملی اور بچوں کیلئے انتہائی فکر مند تھے حکومت پنجاب نے یہ مسئلہ حل کر دیا۔ فنکار دوست وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے تیس لاکھ کا چیک اور بیٹے جنید کو سرکاری ملازمت دے دی۔ اللہ انہیں اس کا اجر عطا فرمائے اس لئے کہ دنیا کو مسکراہٹیں اورقہقہے باٹنے والوں کے پسماندگان کی زندگی انتہائی پریشان گزرتی ہے سرکاری سطح پر مرہم رکھا گیا ہے تو مالک کائنات بھی مشکلات میں مزید کمی کر دے گا۔ مرحوم اچھا تھا اگلی منزلیں بھی اچھی ہی گزریں۔ ہماری دعا یہی ہے! آمین ثم آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button