Columnعبدالرشید مرزا

علامہ اقبال ؒ کامعاشی خوشحالی کا چارٹر .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

(گذشتہ سے پیوستہ)
میراث کے قانون پر عمل کر کے دولت کو گردش عطا کی اسی تناظر میں کئی ایک رشتہ دار فعال کیے جا سکتے ہیں۔ اقبال ؒ کے نزدیک صحیح اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ امن و امان، روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کا بندوبست کرے۔ بے روزگاری کسی بھی معاشرے کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوتی ہے اس لیے حکومت کو ایسے اقدامات کی طرف توجہ کرنا چاہیے جو نوجوان قابلیت سے مزین ہیں انہیں کسی نہ کسی طور روزگار فراہم کیا جائے تاکہ غربت و افلاس کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اقبالؒ کا جدید معاشی تصور آج بھی ہمارے لیے باعث رہنمائی ہے۔ نظریات، چارٹر یا قوانین بنانا بہت آسان ہے لیکن ان پر عمل کرنا اور کروانا بہت مشکل ہے ۔ بجلی، پٹرولیم منصوعات، معدنیات اور گیس کی فراوانی سے پاکستان کے تمام شعبہ جات کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے ۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں اپنے سامنے رکھتے ہیں لیکن ان کی طرح محنت نہیں کرتے ۔ پاکستان کا معاشی نظام اسی وقت بہتر ہو سکتا ہے جب کہ ہر فرد قانون کی پاس داری کرے ۔ پاکستان کو اپنا گھر سمجھ کر اس کی دیکھ بھال کرے ۔ اپنے ذمے واجبات کی ادائیگی بروقت ادا کرے ۔ ہم حق مانگتے ہیں اور فرض ادا نہیں کرتے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے سود سے پاک معاشی نظام کے اصول 1903 ء سے پہلے ہمارے لیے مرحمت فرمائے تھے ۔ آج معیشت، تہذیب و تمدن اور سماج کے دیگر شعبوں میں آمد و خرچ کا توازن برقرار نہیں ہے۔ علامہ محمد اقبال ؒ کے اصولوں کے مطابق عصر حاضر میں بھی سود سے پاک ایک مربوط معاشی نظام قائم کیا جا سکتا ہے ۔ سوشلزم اور کیمونزم کی طرف داری کرنے والے بھی آج اسلام کے معاشی نظام کے معترف ہورہے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ اشتراکیت کے حامی نہ تھے۔وہ سودی معیشت، دولت جمع کرنے، جاگیر داری، سرمایہ داری اور استحصال کے خلاف تھے۔تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتاجہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہےان کے مطابق زمین ، محنت اور سرمایہ ایک ایسی ثلیث (تکون) ہے جس سے پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ بے کار زمینوں کو محنت کے بل بوتے، کاشت کے قابل بنا کر ہم قومی سرمائے میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔
کسان کی خوش حالی ملک کی ترقی سے وابستہ ہے۔ ہمارے ہاں آئے روز حکومت اور کسانوں کے مابین رسہ کشی جاری رہتی ہے اسے توازن میں لانا آج کی اہم ضرورت ہے۔ وہ سرمایہ دار جو مزدور کی اجرت اُدا نہیں کرتے ان کا احتساب کرنا معاشی نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے ۔ ہمارے معاشی نظام میں جس چیز کی کمی ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی ہے وہ فرائض کی ادائیگی میں سستی ہے۔ ایوانوں سے مکانوں تک پوچھ گچھ کرنے کے عمل کو تیز تر ہونا چاہیے۔ وہ شعبہ جات جو مستقل خسارے میں ہیں انہیں دوسرے شعبہ جات میں ضم کر کے تنخواہوں کا بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے ۔ ریونیو میں اضافے کے لیے بین الاقوامی تجارت کا فروغ بہت ضروری ہے۔ ٹیکسوں کی جمع تفریق کا احتساب کڑے سے کڑا ہونا چاہیے ۔ لگان ، سود ، منافع ، اجرت اور مال گزاری سب دولت کی پیدا وار کے حصے دار ہیں۔ سودی نظام نے مشرقی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔’’ربا‘‘ی وجہ سے رزق میں برکت کم ہو چکی ہے ۔ اقبالؒ فرماتے ہیں :
از ربا آخر چ می زاید فتن
کش نداند لذت قرض حسن
از ربا جان تیر دل چون خشت و سنگ
آدمی درند بی دندان و چنگ
اگر اسلامی زاویہ نظر کے مطابق سود کو ختم کرنا ہے تو شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔ سود کے علاوہ لاٹری سسٹم ، پرائز بانڈ، منافع بخش سرٹیفکیٹ ، جوا، سٹہ، سٹاک ایکسچینج اور رعایتی ٹوکن امیروں کو امیر تر کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت تین حصوں میں منقسم ہے۔ سرمایہ دار طبقہ، سفید پوش اور غریب لوگ کسان کی محنت سے سرمایہ دار منافع حاصل کرتا ہے۔ مزدور کے خون پسینے کی کمائی سے تاجر حضرات کروڑ پتی بن رہے ہیں ۔ اقبالؒ کے نزدیک خوشحالی کا دارو مدار خلوص، ایمانداری، محنت اور مساوات میں مضمر ہے۔ اسلام کے معاشی نظام کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دوسرے نظام کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ سب کچھ منظم کرنے کے لیے کڑا احتساب کون کرے گا۔ ذخیرہ اندوز وں اور بھاری نفع حاصل کرنے والے کارخانہ دار بے لگام ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ریاست مدینہ کی جھلک اسی وقت محسوس کی جا سکتی ہے جب انصاف اور مساوات کو فروغ حاصل ہوگا ۔ اقبالؒ نے اشیاء کے باہمی تبادلے کی ضرورت بھی محسوس کی ہے۔ ایک خاص معین مقدار دوسری شے کی ایک خاص معین مقدار کے عوض حاصل کی جا سکتی ہے ۔ علامہ محمد اقبال ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
تبادلہ انقسام محنت سے پیدا ہوتا ہے ۔ اگر ہر شخص اپنی اپنی ضروریات کی چیزیں پیدا کرنے میں مصروف ہوتا تو تبادلے کی ضرورت کبھی لاحق نہ ہوتی لیکن جب ان کے مشاغل میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا یوں کہوں کہ مختلف انسان یا اقوام دولت کی مختلف صورتوں کے پیدا کرنے میں مصروف ہوتی ہیں ، تو تبادلے کا دستور خودبخود پیدا ہو جاتا ہے۔ مختصر طور پر یوں کہوں کہ تبادلہ اتحاد کی ایک صورت ہے جو اختلاف مشاغل سے پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک شخص غلہ پیدا کرتا ہے، دوسرا مکئی یا آلو اور تیسرا کپڑا تیار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ ضرورت ان سب کو باہمی تبادلے پر مجبور کرے گی۔ افراط ِزر کی وجہ سے مقدار کے تعین کو بڑھایا یا کم کیا جاسکتا ہے۔ مربوط نظام معیشت میں پیداوار مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔ پٹرول، تیل، گیس، کوئلہ، اجناس، پھل، سبزیاں، لوہا، سونا، چونا اور دیگر معدنیات کی تلاش ایک تحریک کی صورت میں کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو لاتعداد نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے تمام پیداواری اقدامات پر توجہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔اشیاء خوردنی کی ارزانی ایک طوفان کی طرح بڑھ رہی ہے ۔ فیشن، زیبائش، نمائش اور تقریبات پر بے جا اخراجات نے غریب کو اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے ۔ معاشرے کا اشرافیہ بچوں کی شادیوں پر کروڑوں روپیہ صرف کرتا ہے جنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ غریب کی جھونپڑی میں تو چراغ کے لیے تیل بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ انہوں نے غریب کی خوشحالی پر زور دیا ہے حکومت کا فرض ہے کہ وہ محنت کش مزدوروں کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔ ملکی ترقی ‘ صنعتی ترقی وانقلاب اور معاشی خوش حالی کا راز مزدور کی خوش حالی سے وابستہ ہے۔ دنیا میں خوش حالی کا دور دورہ کرنے کے لیے اپنی سرگرمیوں کو تیز کریں ۔ علامہ محمد اقبال ؒ مزدور کی خوشحالی کے لیے دعا گو ہیں:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ؟
دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات
برآمدات سے نہ صرف ملکی معیشت مضبوط ہوتی ہے بلکہ سفارتی تعلقات کو بھی استحکام ملتا ہے ۔ معیشت کے استحکام سے ہی ملکی دفاع کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ بیرونی قرضوں کی ضرورت اسی وقت ہوتی ہے جب ملک کا اندرونی معاشی نظام عدم توازن کا شکار ہوتا ہے ۔ ان حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں خود انحصاری اور اپنی مصنوعات کے استعمال کو فروغ دینا ہوگا۔ پاکستان کے مرکزی معاشی اربابِ اختیار کو عام آدمی کی زندگی سے آگاہ ہونا چاہیے کیونکہ ایئر کنڈیشنرز میں بیٹھنے والوں کو تپتی دھوپ میں کام کرنے والوں کا کیا احساس ہو سکتا ہے؟ اقبال کا نظریۂ مستحکم معیشت کی بہت سی جھلکیاں اُن کے کلام میں بھی موجود ہیں۔
علم الاقتصاد تو اقتصادیات کی اہمیت کا باب العلم ہے ۔ آج پاکستان میں 8 کروڑ افراد سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 2 کروڑ 50 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے غریب مزید غریب ہورہا ہے۔ ان حالات میں اقبالؒ کا جدید معاشی تصور آج بھی ہمارے لیے باعث رہنمائی ہے۔ نظریات ، چارٹر یا قوانین بنانا بہت آسان ہے لیکن ان پر عمل کرنا اور کروانا بہت مشکل ہے۔ بجلی، پٹرولیم منصوعات، معدنیات اور گیس کی فراوانی سے پاکستان کے تمام شعبہ جات کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں اپنے سامنے رکھتے ہیں لیکن ان کی طرح محنت نہیں کرتے۔ پاکستان کا معاشی نظام اسی وقت بہتر ہو سکتا ہے کہ ہر فرد قانون کی پاس دار ی کرے۔ پاکستان کو اپنا گھر سمجھ کر اس کی دیکھ بھال کرے۔ اپنے ذمے واجبات کی ادائیگی بروقت ادا کرے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے سودی معیشت کو خودی اور شاہین کے ساتھ ملا کر بات کی ہے اور حرام رزق کو مومن کی موت کہا ہے۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
علامہ محمد اقبالؒ انصاف اور مساوات کے علمبردار تھے۔ ان کے نزدیک انسانی رفعت محنت میں مضمر ہے۔ وہ معاشی خوش حالی کی خاطرخودی فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ فرماتے ہیں:
بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button