ColumnImtiaz Aasi

قانونی ٹیم ،اعترافی بیان اور تائیدی شہادت.. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ہم گذشتہ کالم میں بیان کر چکے ہیں اسٹیٹ کیسوں میں مدعی نہ بھی ہو تو پولیس خود مدعی بن جاتی ہے۔معظم کاقتل، عمران خان اور ان کے ساتھیوں کوزخمی کرنے کی ایف آئی آر میں آخر پولیس کو مدعی بننا پڑا۔پہلے تو اتنے روز ایف آئی آر کے اندراج میں لیت ولعل سے کام لیاجاتا رہا آخر سپریم کورٹ کے حکم پر کیس رجسٹرڈ ہو گیا ۔ملزم نوید کو بعض حلقے مذہبی جنونی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ملزم کا بیان کہ عمران خان لوگوں کو گمراہ کررہا تھا اس لیے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔عمران خان اور ان قانونی ٹیم کی قابلیت کا یہ عالم ہے ایف آئی آر کے انتظار میں انہوں کئی دن گذار دیئے ۔ عمران خان کی قانونی ٹیم ایف آئی آر کے رجسٹرڈہونے میں اتنی سنجید ہ ہوتی وہ سیشن کورٹ میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 202 کے تحت استغاثہprivate complaint دائر کر سکتے تھے اور عدالت پولیس کو انکوائری کا حکم دے سکتی تھی رپورٹ آنے کے بعد ایف آئی آر درج ہو جاتی۔
جہاں تک ملزم کے بیان کی بات ہے عمران خان لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جا رہا تھا وہ عدالت میں یہ کیسے ثابت کرے گا عمران خان لوگوں کو گمراہ کر رہا تھا۔قانونی کی نظر میں ملزم کہہ بھی دے اس کے ساتھ کوئی اوراس واقعے میں ملوث تھا جب تک ملزم کے اس بیان کی تائید میں کوئی ٹھوس شہادت نہیں ملتی ملزم کایہ بیان قابل تسلیم نہیں ہوسکتا۔اگر عمران خان کایہ خیال ہے کہ سانحہ وزیرآباد میں کچھ اور لوگ بھی ملوث ہیں تو ملزم پنجاب پولیس کی حراست میں ہے جہاں ان کی اپنی حکومت ہے لہٰذا اس مقصد کے لیے ملزم سے تمام حوالوں سے پوری طرح تفتیش کر لی جائے تو حقائق کا پتا چلایا جا سکتا ہے ورنہ کسی کو اس واقعے میں یوں ملوث کرنا قرین انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ہمیں اس موقع پرسلمان تاثیر کیس یاد آیا جس میں ممتاز قادری نے سلمان تاثیر پر توہین رسالت کا الزام لگایا تھاسپریم کورٹ میں اسی نقطہ پر تین روز بحث جاری رہی ۔قادری شہید کے وکیل لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف سے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے استفسار کیا سلمان تاثر کیسے توہین رسالت کے مرتکب ہوئے۔ قادری کے وکیل کی طرف سے عدالت کو شافی جواب نہ دینے کے بعد عدالت نے ممتاز قادری کی موت کی سزا کوبحال رکھا آخر ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی۔
جہاں تک مقدمہ کی قانونی نوعیت کا تعلق ہے مقتول کا پوسٹمارٹم سول ہسپتال وزیرآباد اورتھانہ سٹی وزیرآباد میں مقدمے کا اندراج ہوا ہے۔حسن ابتسام نامی نوجوان نے ملزم کو موقع پر پکڑ لیاجس کے بعدوہ مزید فائر نہیں کر سکا۔مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا ۔ ملزم کی موقع پر گرفتاری، اسلحہ اورخول کی برآمدگی کے بعد بادی النظر میں ملزم کی بچت کا کوئی امکان نہیں۔سانحہ وزیرآباد کے پس پردہ محرکات بعد کی بات ہے وقت گذرنے کے ساتھ ان کا منظر عام پر آنا یقینی بات ہے۔سوال تو یہ ہے ملزم کی موقع پر گرفتاری اور اس کے بیان کو میڈیا کی زینت بنانے کا مقصد کیا تھا؟ ملزم گرفتار ہو گیا تھا تو اس سے خاموشی سے تفتیش کی جا سکتی تھی۔عام طور پر پولیس قتل کے ملزم کو گرفتار ی کے بعد کسی سے ملنے نہیں دیتی، سانحہ وزیرآباد کے ملزم کو وقوعہ کے چند گھنٹوں بعد میڈیا کے روبر لانے کا مقصد سانحہ کے پس پردہ محرکات سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔عجیب صورت حال ہے۔عمران خان جن لوگوں کو نامزد کرانا چاہتے تھے ملزم کی گرفتاری سے عمران خان کا موقف بے وزنی ہوجاتا ہے۔ عمران خان کو میڈیکل لیگل رپورٹ کے حصول کی خاطر کسی سرکاری ہسپتال ضرور جانا چاہیے تھا شوکت خانم ہسپتال جا کر انہوں نے اپنا کیس کمزور کر لیا ہے۔
ملزم کی گرفتاری کے بعد پنجاب پولیس پر منحصر ہے وہ دوران تفتیش ملزم سے اصل حقائق جاننے کی کوشش کرتی ہے یا اسے یونہی چالان کرتی ہے؟ عمران خان ملز م نوید کے بیان سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے ان کے وکلاء اس معاملے پر اپنی رائے دیں گے ۔وہ ان تین ناموں پر بضد ہیں اگر وہ بے گناہ ہوں گے تو تفتیش میں نکل جائیں گے۔ عمران خان کے اس موقف سے اتفاق کر بھی لیا جائے تو ملزم کی موقع پر گرفتار ی کے بعد ان تین ناموں کی قانونی حیثیت کیا رہ جاتی۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ قتل جیسے سنگین جرم میں کسی بے گناہ کو ملوث کرنا اسلامی نقطہ نظر سے بھی اچھی بات نہیں ۔ملزم کی موقع پر گرفتاری اوراسلحہ کی برآمدگی اور چشم دید گواہان کے بعد ہم یہ بات دعویٰ سے کہتے ہیں ملزم کو عدالت سے موت کی سزا کا ہونا یقینی بات ہے۔عمران خان نے ماسوائے اسلام آباد کے تمام شہروں میں لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو احسن اقدام ہے ۔لانگ مارچ سے ذرائع نقل وحرکت کی معطلی سے عوام کوجس پریشانی کا سامنا تھا وہ ختم ہوجائے گی ۔بات صرف انتخابات کی ہے نواز شریف لندن میں بیٹھے شہباز شریف کو ہدایات دے رہے ہیں عمران خان کی کوئی بات نہ مانی جائے انہیں عوام سے کیا لینا دینا ہے عرصہ دراز سے ایون فیلڈ کے محلات میں پرتعیش زندگی گذارنے والے کو غریب عوام کے مشکلات کا کیا احساس ہو سکتا ہے ۔عمران خان کو کسی سیانے نے لانگ مارچ ختم کرنے کا اچھا مشورہ دیا ہے یا انہوں نے اپنے طور پریہ فیصلہ کیا ہے دونوں صورتوں میں اچھا اقدام ہے ۔لانگ مارچ سے روزبروز عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اس وقت عوام عمران خان کے ساتھ ہیں کوئی لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوتا تو اور بات ہے انتخابات جب بھی ہوئے عوام عمران خان کو کامیاب کرائیں گے۔ چنانچہ اسی خدشے کے پیش نظر حکومت جلد انتخابات سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button