Abdul Hanan Raja.Column

بلٹ نہیں بیلٹ .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

سازش کی جڑیں بڑی گہری اور حملہ ہمہ جہتی ہوتا ہے اور بالخصوص پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کہ جہاں معاملات، حقائق کی بجائے جذبات کی عینک سے دیکھنے کا رواج ہو۔کپتان پر حملہ ہر ذی شعور شہری پر بجلی بن کے گرا، کہ اس سے قبل کئی مقبول عوامی راہنما ایسے حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ صد شکر کہ عمران خان سمیت دیگر قیادت محفوظ رہی اور جو جان گئی اس کا مداوا نہیں، مگر ایسے مواقع قیادت کا امتحان ہوتا ہے کہ ان لمحات میں کہا گیا ایک ایک لفظ براہ راست عوامی جذبات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے ملکی سیاست جس ڈگر پر ہے وہ ہر ذی شعور پاکستانی کے لیے پریشان کن ہے۔ پی ٹی آئی کے متبادل جو برسر اقتدار آئے وہ مالی و سیاسی غلاظت میں لتھڑے ہوئے، پہلی بار کابینہ کی اکثریت بدعنوانی کے مقدمات میں مطلوب ہے۔ لاوا تو پہلے ہی تھا کہ کپتان پر حملہ کے بعد بداعتمادی کی خلیج اور گہری ہوگئی۔ پھر ضبط کے
بندھن ٹوٹے اور الزامات کا وہ طوفان اٹھا کہ الامان الحفیظ! اہل صحافت کو اب یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ سیاسی کارکنان ناصحانہ کلمات کی اجازت بھی دینے کو تیار نہیں۔ فی زمانہ تحمل مزاجی رواداری، برداشت اور امن کی بات بھی مشکل ہو گئی ہے۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ہم انسان ہو کر اتنے متشدد کیوں ہو گئے ہیں کہ پیسے دیکر مقدمات بنواتے اور قتل کرواتے ہیں اور زبانیں اپنوں کے خلاف شعلے اگلتی ہیں۔سیاسی راہنمائوں کے بعد مذہبی انتہا پسند کیسے پیچھے رہتے۔دلیل سے
بات تو اہل علم اور اہل حلم کا شیوہ تھا، وہ تو گیا ! اس کی جگہ شدت پسندی نے لی۔ عمران خان پر حملہ جیسے واقعہ پر اظہار افسوس کی بجائے طعنہ زنی کر کے دل کا غبار نکالا گیا۔ اقبالؒ کی خواہش کہ
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جِبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن
(جنّت میں)
کہتے ہیں فرشتے کہ دِل آویز ہے مومن
حُوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
پوری نہ ہوئی کہ اب سیاسی و مذہبی قیادت نے یہ تصورات بدل دئیے۔ مومنانہ بصیرت سے تہی دامن مسلمان اپنوں کے لیے فولاد اور غیروں کے لیے ریشم کی طرح ہو گئے ! قانون اور آئین مذاق بن کے رہ گیا اور ہر طاقتور اپنی مرضی کے انصاف کا خواہاں!
عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ یہاں طاقتور اور کمزور کے لیے قانون کا نفاذ الگ الگ ہے مگر ان کے دور میں بھی نظام عدل نے کوئی کار گذاری نہ دکھائی یہی وجہ ہے کہ عام شہری کا نظام انصاف پہ اعتماد اٹھتا چلا گیا اور قانون کی اہمیت اس قدر ہی رہ گئی کہ ایک کے حق میں فیصلہ فریق دوئم کے لیے ناقابل قبول ہے، ہو بھی کیوں نہ، جب ڈاکٹر عاصم کیس، شریف خاندان پر منی لانڈرنگ جیسے بڑے کیسز میں نامزد ملزمان بری اور گھڑی پہ نااہلی ہو جائے، حدیبیہ پیپرز ملز، شرجیل میمن کیس، شاہ رخ جتوئی، سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ کارساز، سانحہ بلدیہ کراچی اور اس جیسے ہزاروں کیسز میں انصاف کا ترازو طاقتور کی طرف جھکا نظر آتا ہے۔ مدتوں سے قانون کا بس عام شہری پر ہی چلتا دیکھا گیا۔ طاقتور کو پہلے بھی استثنیٰ تھا اور اب بھی ہے۔ نظام انصاف کی کمزوری کی سزا ملک کا ہر شہری حتی کہ ریاست بھی بھگت رہی ہے۔ عوام تو عوام ادارے بھی بے یقینی کی کیفیت کا شکار اور بے یقینی بد تراز غلامی! اداروں پر الزامات اور عدم اعتماد کی فضا میں صدر مملکت کی مصالحانہ کوششیں بھی رنگ لاتی نظر نہیں آ رہیں۔ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سیاست دان انا کے خول سے نکل کر بامقصد اور قابل عمل حل کی جانب بڑھیں اور ملک کے سیاسی افق پر چھائے بے یقینی و نا امیدی کے بادلوں کو مضبوط سیاسی و معاشی میثاق کے سورج سے رفع کریں۔ ترک کہاوت ہے کہ شر کے پیچھے خیر چھپی ہوتی ہے۔
مقبولیت کے ساتھ اگر بصیرت ہم رکاب ہو تو عوام نت نئی آزمائشوں سے بچ اور مقصد کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔
آئے روز راستوں کی بندش کے ستائے عوام کا سپریم کورٹ سے مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ احتجاج کے لیے ہائی ویز اور موٹر ویز کو بند کرنے کے خلاف سخت احکامات جاری کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button