Columnمحمد مبشر انوار

نیا میثاق جمہوریت ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

دور آمریت میں ہمیشہ سیاسی قوتیں جمہوریت اور جمہورکے ’’ووٹ کی عزت‘‘بحال کروانے کی شدید تگ و دو میں مصروف نظر آتی ہیں تو دوسری طرف دور جمہوریت میں جمہوری اقدار و جمہور کی تذلیل و تضحیک ہی ان سیاسی قوتوں کی منشاء دکھائی دیتی ہے۔علاوہ ازیں! ’’جمہوریت نواز‘‘قوتیں دور جمہوریت میں بذات خود شخصی آمریت کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہیںاور ہمہ وقت یہ خواہش ناتمام رکھتی ہیں کہ ان کے رفقاء کے علاوہ ریاستی مشینری بھی ان کے اشارہ ابرو پر سر تسلیم خم کرتی نظر آئے۔ اس فطری خواہش کو قابو کرنا ہر مقبول رہنما کیلئے ممکن نظر نہیں آتا کہ ذاتی نفس سے کامیاب جنگ فی زمانہ قریباً نا ممکن اور ہم میں سے اکثریت اس میں ناکام نظر آتی ہے۔ ہمارے اردگرد رہنے والے احباب کی اکثریت خوشامد پرستی پر اُترآتی ہے جبکہ وہ ہمدرد جو حقیقتاً ہماری اصلاح چاہتے اور ہم سے اختلاف کرتے ہیں،انہیں نہ صرف ہم بلکہ ہمارے اردگرد خوشامدی ٹولہ بھی قریب پھٹکنے نہیں دیتا اور یوں ہمارے خیر خواہوں کو ہم سے مختلف طریقوں سے دور کر دیا جاتا ہے ۔ جس کا منطقی نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ بتدریج ہم ایک خود پسندی کے خول میں سمٹتے چلے جاتے ہیں اور آنکھ اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک ہم مکمل طور پر برباد نہیں ہو جاتے ۔ جنرل مشرف کے ہاتھوں نواز حکومت کا تختہ الٹتے ہی یہ دیکھا گیا کہ نواز شریف کو اُکسانے والے نے کس طرح نواز شریف کو سبز باغ دکھائے ،کس طرح عوامی حمایت کا یقین دلایا اور کس طرح انتہائی اقدام کی طرف بڑھنے پر مجبور کیا۔ جس کے جواب میں نواز شریف اکثر یہ کہتے پائے گئے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف کے جواب میں جب انہوں نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں کوئی ایک بھی شخص انہیں نظر نہیں آیا۔ اس تلخ ترین تجربہ کی بنیاد پر نواز شریف نے بہتر سمجھا کہ مشرف پر بیرونی دباؤ ڈلوا
کر ملک سے باہر نکلا جائے وگرنہ ملک کے اندر رہتے ہوئے وہ عوامی قائد ذوالفقار علی بھٹو کا دردناک انجام دیکھ چکے تھے۔ یہاں انہیں اس حقیقت کا بھی بخوبی ادراک ہو چکا تھا کہ اپنی جان کی قیمت پر پاکستانی عوام پر بھروسہ کرناچنداں فائدہ مند نہیں لیکن پاکستانی عوام کے نام پر مقتدر حلقوں کو دباؤ میں لانا ان کے نزدیک ٹھیک تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ دور جلا وطنی میں ان کے روابط محترمہ بے نظیر بھٹو سے قائم ہوئے اور دونوں سیاسی قائدین کے درمیان طے پایا کہ کسی بھی طرح ملک سے آمریت کو ختم کیا جائے اور اس کیلئے ان سیاسی رہنماؤں نے اپنی دیرینہ دشمنی کو ختم کر کے آمریت کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 2006میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ اس میثاق جمہوریت سے یہ امید پیدا ہوئی کہ ممکنہ طور پر دونوں سیاسی رہنماؤں کو ملک و قوم کا احساس ہو چکا اور اب اس ملک و قوم کیلئے بہتری کے آثار واضح ہوں گے لیکن شو مئی قسمت کہ اس میثاق کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اس کی اہم ترین شق کی خلاف ورزی محترمہ بے نظیر کی طرف سے سامنے آ گئی۔
میثاق جمہوریت کے تحت دونوں رہنماؤں میں اتفاق ہوا تھا کہ پس پردہ کوئی بھی سیاسی قائد غیر جمہوری طاقت کے ساتھ روابط نہیں بڑھائے گا اور نہ ہی غیر جمہوری طریقے سے اقتدار میں آنے کی کوشش کرے گا۔ بے نظیر بھٹو کے عالمی
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اپنی جگہ موجود تھے ،عالمی سطح پر ان کی سیاسی ساکھ تھی،اقوام عالم ان کے ساتھ کی گئی سیاسی و انتقامی زیادتیوں سے بخوبی آگاہ تھی،امریکہ بہادر اپنے منصوبوں کے تحت بروئے کار اور خواہشمند تھا کہ کسی طرح جنرل مشرف اور بے نظیر مل کر حکومت بنائیں اور افغانستان کی جنگ میں امریکی کامیابی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ اس پس منظر میں بے نظیر اور جنرل مشرف میں پس پردہ روابط بڑھنے شروع ہوئے،جن کا مکمل طور پر علم نواز شریف کو بھی تھا لیکن وہ یہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ ان ملاقاتوں سے بے خبر ہیں جبکہ ذاتی طور پر ان کی یہ شدید خواہش تھی کہ کسی طرح بے نظیر ،جنرل مشرف کے ساتھ کوئی ڈیل کر لیں تو پھر نواز شریف کی واپسی بھی یقینی ہے۔بے نظیر اور جنرل مشرف کی ملاقاتوں سے لاعلمی ظاہر کرکے ایک طرف نواز شریف اپنی دلی خواہش کو دبانے میں کامیاب رہے تو دوسری طرف میثاق جمہوریت سے دغا کرنے پر بے نظیر بھٹو کی ساکھ پر سوالیہ نشان بھی چھوڑتے رہے اور بے نظیر کو بے اعتبار ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ بہرکیف یہ حقیقت ہے کہ اگر بے نظیر کی وطن واپسی کے بعد نواز شریف کو وطن واپسی کی اجازت نہ ملتی تو یہ امر یقینی تھا کہ نواز شریف اس معاملے پر بے نظیر کی مسلسل ملامت کرتے اور خود کو اکلوتا جمہوری چمپئن ثابت کرنے کی نہ صرف کوشش کرتے بلکہ اس میں کامیاب بھی رہتے۔
تاہم ان حقائق کے باوجود 2007میں بے نظیر کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد،میثاق جمہوریت قائم رہا اور زرداری نے پنجاب میں نواز لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے،مفاہمت کی سیاست کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ اس میثاق جمہوریت کے فریقین کبھی اس معاہدے سے مخلص نظر نہ آئے بلکہ ذاتی مفادات کے حصول میں،جسے جہاں موقع ملا،اس میثاق جمہوریت کو روندنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ کی،وہ خواہ میمو گیٹ سکینڈل رہا ہو،جس میں نواز شریف بذات خود کالا کوٹ پہن کر عدالت عظمیٰ،زرداری حکومت کے خلاف پیش ہوئے ہوں یا پنجاب میں زرداری کا گورنر راج رہا ہو۔ ایسے معاہدوں کی تعبیر ان طورطریقوں سے کبھی حاصل نہیں کی جا سکتی کہ جہاں فریقین اس معاہدے کے ساتھ مخلص نہ ہوں اور نہ ہی معاہدوں کی اہمیت سے واقف رہے ہوں ایسے معاہدوں کو قرآن و حدیث نہیں ہیں ،کہہ کر وعدہ خلافی کو جائز سمجھتے ہوں۔بعد ازاں پانامہ لیکس میں نواز شریف کی کرپشن کے خلاف جو ہوشربا تفصیلات سامنے آئیں،ان کے متعلق نواز شریف عدالتوں میں صفائی دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے ،ان کے دعوؤں میں اتنے تضادات پائے گئے کہ عدالتوں نے انہیں آخرکار نااہل قرار دے کر اقتدار سے الگ کردیا۔ بیرون ملک اپنے اثاثہ جات کے متعلق بھی نواز شریف عدالتوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے کہ کرپشن کی کبھی کوئی رسید تو نہیں ہوتی اور نہ ہی اس آمدن کے ذرائع دستاویزی ثبوت کے ساتھ فراہم کئے جا سکتے ہیں،لہٰذا ان پر نواز شریف کو مجرم قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا۔ یہاں پھر وہی پرانی کہانی دہرائی گئی اور کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں ایسے معاملات کس طاقت کے اشارہ ابرو سے طے پاتے ہیں، طریقہ کار خواہ کوئی بھی رہے،اصل مقصد حاصل ہو جاتا ہے لہٰذا نواز شریف ایک بار پھر سے جیل کی سلاخوں اور ملکی قوانین کو منہ چڑاتے ،چار ہفتے علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہوئے اور آج تک واپس نہیں آئے۔آج بھی ان کے خیرخواہ اس امید پر بیٹھے ہیں کہ کسی طرح ان کی سزائیں معاف ہو جائیں،معاملات ایک بار پھر سے طے ہو جائیں تو وہ پاکستان واپس آ کر اپنا سیاسی کردار ادا کریں۔ اس اثناء میں نواز شریف نے اقتدار سے الگ ہو کردو بیانئے متعارف کروائے تھے ،پہلا کہ مجھے کیوں نکالا اور دوسرا ووٹ کو عزت دو،پہلابیانیہ تو خیر اس وقت اپنی موت آپ مر چکا کہ سب کو علم ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں رسائی کس طرح ممکن ہے،اور اس وقت اقتدار بہرطور نوازشریف کے بھائی کے پاس ہے، جبکہ دوسرا بیانیہ ہمیشہ سے اپنے اندر طاقت رکھتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی قائدین نے کبھی بھی ووٹ کو نہ عزت دی اور نہ اس کی اہمیت کو سمجھا ہے۔ان حالات میں ایک بار پھر نئے میثاق جمہوریت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور عمران خان کو مختلف مقدمات میں پھنسا کر اس کا بازو مروڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن عمران خان جسے تیرہ جماعتوں کے قائدین سیاست میں اناڑی کہتے ہیں،مسلسل ایسی چالیں چل رہا ہے کہ گھاگ و جہاندیدہ سیاسی قیادتیں قریباً گھٹنوں کے بل ہیں۔ اپنے حالیہ انٹرویو میں کامران خان نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح عمران خان سے آرمی چیف کے حوالے سے کچھ کہلوا سکیں لیکن عمران خان نے انتہائی خوبصورتی سے بین السطور جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع پر رضامندی کا اظہار کر کے ایک بار پھر مخالفین کو مدافعت پر محدود کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت کیلئے ایک بار پھر مشکل سامنے آ کھڑی ہوئی ہے کہ اُگلے تو مصیبت نگلے تو مصیبت اور دوسری طرف کامران خان نے دانستہ یا نادانستہ طور پر عمران خان اور مقتدرہ کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے،جو بہرحال پاکستان کے مفاد میں ہے۔اس پس منظر میں کسی نئے میثاق جمہوریت کا امکان نظر نہیں آتا اور نہ ہی ایسے کسی میثاق جمہوریت کی اہمیت باقی رہے گی کہ فریقین ایسے کسی میثاق سے مخلص بھی ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button