ColumnRoshan Lal

وائس چانسلرز کی تعیناتی اور شفافیت

روشن لعل
وطن عزیز کے متعلق یہ بات کوئی راز نہیں کہ یہاں شفافیت ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ خواہش کبھی ختم نہ ہو سکی کہ کم ازکم تعلیمی اداروں کے معاملات ضرور شفاف ہونے چاہئیں۔ حالانکہ، ہمارے ہاں سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک کے معاملات کسی طرح بھی شفاف اور تسلی بخش نہیں ہیں مگر پھر بھی جب کسی تعلیمی ادارے میں کسی سطح پر تبدیلی کا کوئی عمل شروع ہوتا ہے تو نہ جانے کیوں یہ امید پیدا ہو جاتیہے کہ شاید اس مرتبہ یہ تبدیلی کسی مثبت پیش رفت کا باعث بن جائے۔ ایسی ہی ایک امید اس وقت پیدا ہوئی جب پنجاب کی مختلف پبلک یونیورسٹیوں کے متعلق یہ خبر سامنے آئی کہ وہاں وائس چانسلرز کی خالی اسامیوں پر ایڈہاک تقرریوں کی بجائے مستقل بنیادوں پر تعیناتیوں کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔ یہ خبر سننے کے بعد، رجائیت پسند ذہن میں یہ خوش گمانی پیدا ہوئی کہ تعیناتیاں جب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق کی جارہی ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی ستم گر غیر شفاف طرز عمل کا مظاہرہ کر پائے۔ صوبہ پنجاب کی پبلک یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کا عمل شروع ہوا ہی تھا کہ ایسی باتیں گردش کرنے لگیں کہ قبل ازیں جن لابیوں کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں عارضی اور ایڈہاک بنیادوں پر لگائے گئے وائس چانسلر من مانیاں کر رہے تھے وہ لابیاں یونیورسٹیوں میں اپنے من پسند وائس چانسلر ز کی مستقل تعیناتی کے لیے پھر سے سرگرم ہو گئی ہیں ۔
اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہاہے کہ کوئی لابی طے شدہ قواعد و ضوابط کی موجودگی میں کیسے اپنی پسند کا بندہ کسی پبلک یونیورسٹی کا مستقل وائس چانسلرلگوانے میں کامیاب ہو سکتی ہے تو اس کے جواب میں جی سی یونیورسٹی لاہور میںبے رحم لابنگ کے ذریعے تعینات ہونے والے اس وائس چانسلر کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جو 2019 سے 2023تک وہاں حکمرانی کرتے رہے۔ جی سی یونیورسٹی لاہور میں نیچرل سائنس کے کروڑوں روپے کی لاگت سے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنائے گئے کئی شعبہ جات موجود ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے موصوف وائس چانسلر کی تعیناتی کے دوران نیچرل سائنس کے کسی بھی شعبے کی غیر معمولی کارکردگی کے کے متعلق کبھی کچھ سننے کو نہ ملا لیکن وہاں پے درپے منعقد ہونے والی روحانی کانفرنسوں کی خبریں ضرور سامنے آتی رہیں۔ مخصوص لابی کی سفارش پر تعینات ہونے والے مذکورہ صاحب نے کسی اور شعبے میں غیر معمولی تحقیقی کام کو کیا فروغ دینا تھا وہ تو اپنے مضمون معاشیات کے اکانومک جنرل کے معیار کو بہتر بنانے کی طرف بھی توجہ نہ دے سکے۔ ان صاحب نے اپنی تعیناتی میں کردار ادا کرنے والی لابی کو خوش کرنے کے لیے شاندار ماضی کی حامل یونیورسٹی کی شہرت کو جو نقصان پہنچایا اس کا خمیازہ اس یونیورسٹی کو آنے والے کئی برسوں تک بھگتنا پڑے گا۔ اپنے من پسند لوگوں کی یونیورسٹیوں میں تعیناتی کے لیے لابیاں کس طرح کام کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن صاحب نے 2019سے 2023تک جی سی یونیورسٹی کو وائس چانسلر کی حیثیت سے چلایا ، ان کا قبل ازیں کسی بھی انتظامی عہدے پر کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پنجاب کی پبلک یونیورسٹیوں میں مستقل بنیادوں پر باقاعدہ وائس چانسلرز کی تعیناتی کا عمل شروع ہونے کے بعد جب ایسی باتیں سننے میں آئیں کہ مختلف لابیاں اپنے من پسند لوگ یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر لگوانے کے لیے سرگرم ہو چکی ہیں تو ذہن میں فوراً اس لابی کا خیال آیا جس نے اپنے مخصوص مقاصد کے تحت ایک ناتجربہ کار بندے کو جی سی یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگوایا تھا۔
واضح رہے کہ مختلف لابیوں کے پنجاب کی پبلک یونیورسٹیوں میں اپنے من پسند وائس چانسلر لگوانے کے لیے حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کرنے کی خبروں پر زیادہ تشویش اس وجہ سے پیدا ہوئی کیونکہ مستقل وائس چانسلر زکی تعیناتی کا عمل حکومت کی اپنی خواہش یا ترجیح پر شروع نہیں ہواہے۔ یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لئے ابھی تک جو کچھ بھی ہوا اس کا آغاز حکومت کو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایک مقدمہ کی وجہ سے کرنا پڑا ہے۔ اس مقدمہ کا پس منظر یہ ہے کہ یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم، آل پبلک یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں مستقل نہیں بلکہ ایڈہاک وائس چانسلر کام کر رہے ہیں ۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ صوبہ پنجاب کی 34پبلک یونیورسٹیوں میں سے 74فیصد، خیبر پختونخوا کی 34یونیورسٹیوں میں سے 55فیصد، بلوچستان کی 11یونیورسٹیوں میں 45فیصد اور سندھ کی 27یونیورسٹیوں میں سے 25فیصد پر مستقل نہیں بلکہ ایڈہاک بنیادوں پر تعینات وائس چانسلر کام کر رہے ہیں۔ مذکورہ مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی ڈائریکشن پر دیگر صوبوں نے جو ایکشن لیا اس کے متعلق براہ راست معلومات حاصل نہیں ہوسکیں لیکن پنجاب کی 27یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق تین سلیکشن کمیٹیاں بنائی گئیں ۔ ان کمیٹیوں نے وائس چانسلر بننے کے خواہشمند امیدواروں کے سے درخواستیں طلب کرنے کے بعد ان کے انٹرویو کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔
پنجاب کی پبلک یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرزکی تعیناتی کے لیے اہلیت کا جو معیار مقرر کیا گیا ہے اس کے مطابق 100 میں 35نمبر تعلیمی قابلیت کے ، 35نمبر بین الاقوامی جرنلز میں تحقیقی مقالوں کی اشاعت کے اور 30نمبر پیشہ ورانہ اہلیت اور قبل ازیں تعلیمی و غیر تعلیمی اداروں میں انتظامی عہدوں پر کام کرنے کے تجربے کے ہیں۔ پنجاب کی پبلک یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے اہلیت کا جو معیار مقرر کیا گیا ہے وہ بہت واضح ہے ۔ ایسا ہونا بہت مشکل لگتا ہی کہ کسی بندے کو طے شدہ معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود کوئی لابی دبائو ڈال کر کہیں وائس چانسلر لگوا سکے ۔ جو کام مشکل لگ رہا ہے اسے لابیاں اس طرح اسے آسان بنانے کی کوشش کررہی ہیں کہ طے شدہ معیار پر پورے اترنے والے جو لوگ وائس چانسلر بننے کے اہل نظر آرہے ہیں لابیوں نے ان کے شارٹ لسٹ ہونے کے بعد ان کی کردار کشی کرتے ہوئے ان کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا ہے۔ اچانک شروع ہونے والے اس پراپیگنڈے کا واضح مقصد کسی اہل بندے کی جگہ اپنے من پسند نااہل بندے کے وائس چانسلر بننے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ حکومت اور وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے قائم کی گئی سلیکشن کمیٹیوں کو مذہبی گروپوں، صحافتی گروپوں ، اوورسیز پاکستانیوں اور دیگر لابیوں کے دبائو اور پراپیگنڈے کو نظر انداز کر کے صرف طے شدہ معیار کو مدنظر رکھ کر شفاف طریقے سے پبلک یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر زکی تقرری کرنی چاہیے ۔ ایسا کرنے کی بجائے اگر لابیوں کا دبائو قبول کیا گیا تو درپردہ کام کرنے والی لابیوں کے لوگوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن حکومت کی بدنامی کا ایک اور سامان ضرور پیدا ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button